تقسیم سے قبل میراث کو استعمال کرنے کا حکم

Darul Ifta

تقسیم سے قبل میراث کو استعمال کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میراث میں ایک مکان ایسا ہے جس کے نیچے دو دکانیں ہیں جن میں سے ایک دکان کا کرایہ بیوہ کو جاتا ہے، کیا قبل از تقسیم مشترکہ دکان کا کرایہ لینا بیوہ یعنی مرحوم کی اہلیہ کے لئے جائز ہے یا نہیں؟اور ایک مشترکہ دکان کو قبل از تقسیم ترکہ ایک بیٹے نے اپنے ذاتی استعمال میں رکھا ہے، کیا ان  کا یہ عمل جائز ہے؟ اور دیگر ورثاء کے لئے ان مشترکہ دکانوں کی مالیت میں سے اپنا حصہ لینا ان دکانوں کو فروخت کئے بغیرکیسے ممکن ہےاس کی وضاحت فرمائیں؟

جواب

میراث کی تقسیم سے پہلے یہ سب ورثاء کا مشترکہ حق ہوتا ہے، لہذا بعض ورثاء کا بلا اجازت میراث میں تصرف کرنا اور ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
لما في الدر المختار:
’’من لا ولاية له على غيره لم يجز تصرفه في حقه‘‘.(كتاب الوكالة،فصل لا يعقد وكيل البيع والشراءالخ:305/8،رشيدية).
وفي الشامية:
’’(ثم)..(يقسم الباقي)بعدذلك(بين ورثته)أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أوالسنة‘‘.
’’قوله:(أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب)أي:القرآن، وهم الأبوان والزوجان والبنون والبنات والإخوة والأخوات‘‘.(كتاب الخنثى: 532/10، رشيدية)
وفي التاتارخانية:
’’وإذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهم منها أعطوه اياه، والتركة عقار،أو عروض صح، قليلا كان ما أعطوه،أو كثير‘‘.(كتاب الصلح، الفصل الخامس في بيان ما يجوز من الصلح إلخ: 243/14، فاروقية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:188/329)

footer