کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ تصویر کشی کے مسئلے میں بعض لوگ اس معاملہ کو کافی ہلکا سمجھتے ہیں، اور بلا خوف و خطر اس معاملہ میں مشغول نظر آتے ہیں، برائے کرم واضح دلائل کے ذریعے سے اس کی وضاحت فرمائیں، تاکہ اس فتنہ کے شکار افراد کے لئےمفید ثابت ہو۔
واضح رہےکہ بے جان اشیاء کی تصویر بنانا جائز ہے،اور جاندار اشیاء کی تصویر بنانا ناجائز اور حرام ہے،اور اس کے متعلق احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، جیسے: صحیح بخاری کی روایت ہے،کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’قیامت کے دن سخت ترین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ: جس نے دنیا میں تصویر بنائی قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں روح پھونکے کا حکم دیں گے، درانحالیکہ وہ اسمیں روح پھونکے والا نہیں ہوگا۔
نیز جمہورعلماء کرام کے نزدیک ڈیجیٹل تصویر کا بھی یہی حکم ہے،کہ وہ ناجائز اور حرام ہے، اور اس سے اجتناب لازم ہے۔لما في صحیح البخاري:
حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا الأعمش عن مسلم قال كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير فرأى في صفته تماثيل فقال سمعت عبد الله قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: ’’إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون‘‘.(کتاب اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامة، ص:1042، رقم الحدیث:595، دارالسلام)
وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري:
’’وفي التوضيح قال أصحابنا وغيرهم تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له‘‘.(کتاب اللباس، باب التصاویر، 110/22، دارالکتب االعلمية)
وفي تکملة فتح الملهم:
’’ومن أجل هذه الأحادیث والآثار ذهب جمهور الفقهاء إلی تحریم التصویرواتخاذ الصور فی البیوت سواء کانت مجسمة لها ظل، أو کانت غیر مجسمة لیس لها ظل‘‘.(کتاب اللباس والزینة، باب تحریم تصویر صورة الحیوان، 158/4، دار العلوم کراچی).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/44