ہماری نجات کا راستہ

ہماری نجات کا راستہ

مولانا محمد احمد

مکمل یکسوئی کا انتظار
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تو دنیا کے دھندوں میں پڑے ہیں، جب مکمل فراغت اور یکسوئی میسر آئے گی تو نیکی کر لیں گے۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ یہ تو دنیا میں پھنس کر ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی پوری یکسوئی مل سکے۔ لہٰذا پریشانی اور مصروفیت کی حالت میں تعلق مع الله کا سلسلہ شروع کر دو، آہستہ آہستہ اطمینان بھی نصیب ہو جائے گا، ورنہ عمر یونہی بے کار ختم ہو جائے گی اور یکسوئی وفراغت بھی نہ ملے گی۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھے بڑی عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا:”اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے کہ ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوتا جاتا ہے۔“

اسی طرح ہمار ی بھی حالت ہے کہ ہماری عمر ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی ختم ہورہی ہے۔

الله بڑا غفور ورحیم ہے
بہت سے لوگ اس بات کو بہانہ بنا کر عمر بھر گناہوں میں پڑے رہتے ہیں کہ الله بڑا غفور ورحیم ہے۔ حالاں کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میرے بندوں کو خبر دے دیجیے کہ میں بہت بخشنے والا بڑا ہی مہربان ہوں اور یہ بھی کہ میرا عذاب بڑا درد ناک عذاب ہے۔“ اور فرمایا:”تو اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو ) عذاب د ے گا او رنہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا۔“ امام غزالی فرماتے ہیں کہ اپنے گناہوں کی پکڑ سے نہ ڈرنے والا اور بغیر سبب الله تعالیٰ کی رحمت پر نظر کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنی لاکھوں کی کمائی آگ میں ڈال دے او رکہے کہ ہو سکتا ہے کہ میرے بیوی بچے کسی ویرانے میں جائیں اور وہاں انہیں کوئی خزانہ مل جائے یا یہ اس ناسمجھ کی طرح ہے جو چوروں کے علاقے میں رہتا ہو، اس کے گھر میں کروڑوں کا سامان موجود ہو اور وہ گھر سے جاتے ہوئے گھر کو تالا نہ لگائے او رکہے کہ ہو سکتا ہے کہ چور میرے گھر میں پہنچ کر مر جائیں، اندھے ہو جائیں ، میرا گھر دیکھ ہی نہ سکیں۔ جیسے یہ سب باتیں ممکن ہیں ایسے ہی الله تعالیٰ کابخش دینا ممکن ہے، مگر الله تعالیٰ کے عام قانون کو چھوڑ کر، اس امکان پر اعتماد کرکے، گناہ کرتے رہنا حماقت ہے۔

محترم قارئین: آج ہمارے معاشرے میں بہت سے کبیر ہ گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا یا معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا ذیل میں چند بڑے گناہوں سے متعلق اہم باتیں اور تلافی کی صورتیں ذکر کی جاتی ہیں:

نمازوں کی قضا
زندگی میں جو نمازیں چھوٹ گئیں وہ زبانی استغفار کے ذریعہ ذمہ سے نہیں اتر سکتیں، بلکہ ان کو قضا کرنا لازم ہے، جو نمازیں جان بوجھ کر یا غلطی سے رہ گئیں، ان کا اندازہ لگایا جائے کہ کتنے سال کی نمازیں ہوں گی؟ ان نمازوں کا اس قدر اندازہ لگائیں کہ دل گواہی دے دے کہ اس سے زیادہ نمازیں نہیں ہوں گی اور ان نمازوں کو قضا کرکے لکھتے رہیں، تاکہ یاد دہانی رہے، سنتوں اور نفلوں کی قضا نہیں کی جاتی، صرف فرض اور وتر کی قضا ہوتی ہے، اس لحاظ سے ایک دن کی قضا نمازوں کی کل بیس (20) رکعتیں ہوتی ہیں۔ ایک دن میں اگر ایک دن کی قضا نمازیں ادا کی جاتی رہیں تو پانچ سال میں پانچ سال اور دس سال میں دس سال کی نمازیں بآسانی ذمہ سے اتر جائیں گی۔

روزہ، زکوٰة، صدقة الفطر
اسی طرح اگر کچھ سالوں کے روزے، زکوٰة، صدقة الفطر ادا نہ کرسکے ہوں تو ان کا ادا کرنا بھی لازم ہے۔ تفصیلی مسائل علمائے کرام سے معلوم کر لیں۔

مالی حقوق کی ادائیگی
کسی کی زمین یا مال ناحق دبا یا، کسی کے مال میں خیانت کی تو یہ مال وزمین صاحب ِ حق کو واپس کرنا ضروری ہے۔

سرکار دور عالم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کر رکھا ہو کہ اس کے بے عزتی کی ہو یا کچھ حق تلفی کی ہو تو آج ہی (اس کا حق ادا کرکے یا معافی مانگ کر) اس دن سے پہلے حلال کرادے جس دن نہ دینار ہو گا، نہ درہم ہو گا، اگر اس کے کچھ اچھے عمل ہوں گے تو بقدر ظلم اس سے لے لیے جائیں گے اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس ظالم کے سر کر دی جائیں گی۔“ (بخاری:2/967)

نیز فرمایا:”جس نے ایک بالشت زمین پر ناحق قبضہ کیا، قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔“ (صحیح بخاری:1/453)

آبرو کے حقوق
اگر کسی کو ناحق مارا یا رسوا کیا، گالی دی یا جسمانی یا قلبی تکلیف پہنچائی تو جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اگر ناحق مارپیٹ کا بدلہ مارپیٹ کے ذریعہ دینا پڑے تو اسے بھی گوارا کرے، نیز یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بندوں کے حقوق میں کوتاہی جب تک صاحب حق معاف نہ کر دے ، اس وقت تک الله تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے وفات سے 18 سال پہلے1344ھ میں ایک مضمون شائع فرمایا، اس تحریر کے ذریعہ عام اعلان فرمایا کہ حیات مستعار کا کوئی اعتبار نہیں ، خدا جانے کس وقت دنیائے فانی سے کوچ کرنا پڑے، لہٰذا جس کسی کا کوئی حق میرے ذمہ ہو اور میں اس سے بے خبر ہوں، وہ مجھ سے طلب کرے یا معاف کرے۔ (فہرست تالیفات حکیم الامت صفحہ:243)

حضرت مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ نے ”تلافی مافات“ کے نام سے ایک مضمون شائع فرمایا تھا، جس میں تحریر فرمایا کہ مالی حقوق کے متعلق میں نے ہمیشہ کوشش یہ کی ہے کہ اس قسم کے حقوق سے سبکدوش رہوں، البتہ ممکن ہے کسی صاحب کا کوئی مالی حق میرے ذمہ رہ گیا ہو جسے میں بھول گیا ہوں تو براہ کرم وہ مجھے یاد دلادیں، رہے غیر مالی حقوق، مثلاً کسی کوناحق بدنی ایذا پہنچائی ہو، ان سب اہل حقوق کی خدمت میں دست بستہ نہایت لجاجت سے درخواست ہے کہ ان حقوق کا خواہ مجھ سے معاوضہ لے لیں ،خواہ حسبةلله معاف فرما دیں، میں دونوں حالتوں میں ان کا شکر گزار ہوں گا کہ مجھ کو آخرت کے محاسبہ سے بری فرمایا۔ (وصایا،ص:105)

اس طرح کے بزرگوں کے بیسیوں واقعات ہیں ، یہ وہ عقل مند لوگ تھے جن کو الله تعالیٰ کے آگے حاضر ہونے اور جواب دہی کا خیال ہر وقت پریشان رکھتا تھا۔

غیبت کرنا
جس شخص کی غیبت کی ہے اگر اس تک غیبت کی اطلاع پہنچ چکی ہو تو اس سے معافی مانگے، اگر اطلاع نہیں پہنچی تو جن لوگوں کے آگے غیبت کی ہے ان کے سامنے بھی تلافی کرے اور اس کے لیے کثرت سے دعا بھی کرے، یہاں تک کہ یہ یقین ہو جائے کہ اس دعا کو جب وہ دیکھے گا تو ضرور خوش ہو جائے گا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم نے جس کی غیبت کی ہے اس کے لیے استغفار کرو،یوں کہو:”اللھم اغفرلناو لھم“ (اے الله !ہماری او را س کی مغفرت فرما)۔(مشکوٰة ص:415)

نیزنبی کریم صلی الله علیہ و سلم سے ایک عجیب مضمون کی دعا منقول ہے: یا الله! میں تجھ سے وعدہ لیتا ہوں جسے تو ہر گز نہ توڑنا کہ میں بھی آخر بشر ہوں، سو جس کسی مسلمان کو میں تکلیف دوں یا اسے برا بھلا کہوں یا اسے ماروں پیٹوں یا اسے بددعا دوں تو اس (سب) کو اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی اور قربت کا ذریعہ بنانا، جس سے تو اس کو مقرب بنالے۔“

یہود ونصاریٰ کی مشابہت
آج کے مسلمان نے اپنے تشخص او راپنے پیارے دین اسلام کی امتیازی علامات کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کی نقالی شروع کر دی، حتی کہ شکل وشباہت، وضع قطع، لباس، بالوں کی تراش خراش، معاشرت وتہذیب اور احساسات وجذبات میں یہودیوں، نصرانیوں کے سانچہ میں ڈھل گیا، یہ ایک قوم کی ہلاکت کی نشانی ہے، مسلمان کو تو نماز کی ہر رکعت کے لیے یہ دعا بتلائی گئی:”غیر المغضوب علیہم ولا الضالین“

”اے الله! یہود ونصاریٰ کی راہ پر نہ چلانا“ اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں ہے۔“(ابوداؤد:2/203)

لہٰذا ہمیں یہود ونصاری کے بجائے حضرات صحابہ وصحابیات رضی الله عنہم کو نمونہ بنانا چاہیے، تاکہ قیامت کے دن ہمارا ان کے ساتھ حشر ہو۔