کریلا کڑوا، مگر مفید اور شفا بخش

کریلا کڑوا، مگر مفید اور شفا بخش

تحریر: ایم شفیق احمد/ترجمہ: شکیل صدیقی

 

انسان برسوں سے کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہے جو اکسیر اعظم ہو اور اس کے سارے دکھ درد کا سامان کر سکے، اسے صحت مندی عطا کرے اور ہمیشہ جوان رکھ سکے۔ امراض سے چھٹکارا پانے اور صحت مند رہنے کے لیے انسان نے کڑوی کسیلی اور چر پری چیزوں کو بھی آزمایاہے، ان میں کریلا بھی شامل ہے۔

کریلا تلخ ہوتا ہے اور کدو کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ایشیا، جنوبی امریکا اور افریقہ میں اس کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ چین، ملائشیا، ہندوستان اور پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی بیل اس وقت پروان چڑھتی ہے جب موسم میں نمی ہو۔ یہ ایسی مٹی میں اگتی ہے جس میں کھاد ملا کر اسے زر خیز بنا یا گیا ہو۔ کریلا نہ صرف ادویہ میں استعمال ہوتا ہے، بلکہ غذا کے طور پر کھایا بھی جاتا ہے۔ ایسے افراد جنھیں ذیابیطس کی شکایت ہو، اسے کھا کر اپنی شکر پر کسی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔

کریلے کو مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔ قیمے کے ساتھ ملا کر پکانا زیادہ پسند کیا جاتا ہے، جس میں ذائقہ پیدا کرنے کے لیے پیاز، لہسن،دھنیا،ہری مرچ، سونف، سفیدہ وسیاہ زیرہ اور دوسرے مسالے ڈالے جاتے ہیں۔ کریلے کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے، جسے لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کا رس خون صاف کرتا ہے۔ کریلے کی کڑواہٹ دور کرنے کے لیے اسے چھیل کر نمک لگایا جاتا ہے اور دس پندرہ منٹ کے لیے دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے، جس سے اس کی کڑواہٹ بڑی حد تک دور ہوجاتی ہے۔ خواتین اس کی تلخی دور کرنے کے لیے اسے ابالتی ہیں اور اس کے ساتھ املی کی ٹہنیاں بھی ڈال دیتی ہیں۔

کریلا غذائیت بخش ہے، لیکن اس میں حرارے کم ہوتے ہیں۔ اس میں حیا تین الف، حیاتین ب 1،ب2،ب3، ب5، ب6 اور حیاتین ج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں میگنیزیئم، فولاد اور کیلشیئم بھی ہوتے ہیں۔ کریلے میں چوں کہ ریشہ ہوتا ہے، اس لیے یہ قبض کشا ہے۔ اس سے مٹاپا اور آنتوں کا سرطان دور ہوجاتا ہے۔ ماہرین غذائیت کے مطابق کریلے میں شاخ گو بھی(بروکولی) کی نسبت دگنا بیٹا کیروٹین، پالک سے دُگنا کیلشیئم اور کیلے سے دُگنا پوٹا شیئم ہوتا ہے۔

کریلا کو آیو رویدک اور طب مشرقی طریقِ علاج میں جڑی بوٹیوں میں شمار کیا جا تا ہے۔ اسے کھانے سے خوب بھوک لگتی ہے اور یہ آنتوں کی کارکردگی کو بھی درست رکھتا ہے، معدے کو طاقت دیتا ہے اور بد ہضمی دور کرتا ہے۔ یہ دافع ملیریا ہے، اسے کھانے سے گھٹیا کا درد بھی جاتا رہتا ہے۔ لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کرنے سے پتا چلا ہے کہ یہ جسم میں پیدا ہونے والے تعدیے کے خلاف بھی مدافعت کرتا ہے۔

فلپائن میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے کریلے سے ایک غذائی ضمیمہ تیار کیا گیا ہے، جو دکانوں پر ”شیرنٹین“ (CHARANTIN) کے نام سے فروخت ہورہا ہے۔ یہ ضمیمہ اب دوسرے ملکوں میں بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ کریلے کے فوائد کے پیش نظر لوگ اسے کھانا چاہتے ہیں، لیکن اس کی کڑواہٹ کی بنا پراسے نظرانداز بھی کردیتے ہیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ کریلے کو خشک کرلیں اور پیس کر سفوف بنالیں۔ پھر اس سفوف کو خالی کیپسول میں بھر کر پانی سے نگل لیں۔ وہ کریلے کے فوائد حاصل کرلیں گے اور ان کی زبان بھی کڑوی نہیں ہوگی۔

کریلا بے حد فائدے مند ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا بے تحاشا استعمال شروع کردیا جائے۔ روزانہ دو اونس کریلا کھانا مناسب ہے۔ اس سے زیادہ مقدار کھانے سے دست آسکتے ہیں اور معدے میں زہریلے اثرات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

حاملہ خواتین کو کریلا استعمال کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ وہ اس کا سفوف کھائیں یا سبزی کے طور پر پکا کر کھائیں، لیکن اس کی مقدار بڑھنے نہ دیں۔ اس سے انھیں اسہال کی شکایت ہو سکتی ہے اور پیٹ میں درد ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بچے کی ولادت قبل ازوقت ہونے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے۔

جن لوگوں کو ذیابیطس کی شکایت ہے انھیں چاہیے کہ وہ کریلا کھانے یا اس کا رس پینے سے پہلے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں، معالج اس کی مناسب مقدار کا تعین کر سکتے ہیں۔ کریلے کی مانع ذیابیطس خصوصیت کی بنا پر پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) بھی کئی برس سے اس پر تحقیق کررہی ہے اور اب تک حاصل ہونے والے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ ذیا بیطس نہایت تیزی سے ایشیائی ممالک میں پھیل رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے مزید تحقیق کی جائے اور نئی ادویہ متعارف کرائی جائیں، تاکہ اس مرض میں مبتلا افراد صحت مندانہ اور خوش گوار زندگی بسر کرسکیں۔