کام یاب زندگی کس کی ہے؟

کام یاب زندگی کس کی ہے؟

مولانا احمد علی لاہوریؒ

آج میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کام یاب زندگی کس کی ہے؟ لاہو رمیں ہزاروں طالب علم ہیں۔ ایک کام یاب ہوتا ہے اور اس کی کام یابی کا ذکر بیسیوں کی زبانوں پر ہوتا ہے۔ ملازمت کے لیے درخواست دینے والے ہزاروں، مگر کام یاب ہونے والے معدود ے چند ہوتے ہیں، تجارت کرنے والے ہزاروں، مگر ان میں سے کام یاب ہونے والے گنتی کے تجار ہوتے ہیں۔ غرض کہ کام یابی کا لفظ زبان زد خلائق ہے۔

کام یابی دو قسم کی ہوتی ہے :1.. فانی۔2.. حقیقی۔

فانی کام یابی کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اور حقیقی کام یابی کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے، الله تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو حقیقی کام یابی نصیب فرمائے۔ آمین

فانی کام یابی تو ہر شخص سیکڑوں دفعہ حاصل کرتا ہے، پرائمری، مڈل اور میٹرک کی جماعتوں میں کام یابی حاصل کی۔ یہ سب کام یابیاں یہیں رہ جائیں گی، مرنے کے بعد فانی کام یابی بے کار ہو جاتی ہے۔ مثلاً لڑکا پیدا ہوا، بہت خوشیاں منائی گئیں، وہ دوماہ بعد مر گیا، سب خوشیاں ختم ہو گئیں، یہ عارضی خوشی تھی، اس کو کام یابی سمجھنا خام خیالی ہے، اب میں اس مضمون کو ذرا وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ہم یہاں کے رہنے والے نہیں ہیں، یہ عالم ناسوت یا عالم کثرت ہے، ہم یہاں عالم ملکوت یا عالم وحدت سے آئے ہوئے ہیں، وہاں فقط الله تعالیٰ سے تعلق تھا اور کسی سے نہ تھا، یہاں آکر بے شمار تعلقات ہو گئے، ہمیشہ عرض کیا کرتا ہوں کہ انسان روح کا نام ہے، جسم کا نام انسان نہیں۔ یہ تو اس کا لفافہ ہے، روح اس کے اندر ملفوف ہے، مرنے کے بعد یہ عقدہ حل ہوتا ہے، یہ جسم تو انسان کی لاش ہے، آپ میری لاش کو دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کی لاشوں کو دیکھ رہا ہوں، روح عالم ملکوت سے آئی ہوئی ہے۔

قرآن مجید میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں :” اور وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔(ان سے) فرما دیجیے کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے او رتم کو اس کے متعلق علم نہیں دیا گیا، مگر تھوڑا۔“ (بنی اسرائیل ،رکوع نمبر10،پ15)

روح کے متعلق ہمیں یہ پتا نہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ جسم کے متعلق ہمیں پوری معلومات ہیں کہ یہ مٹی سے بنا ہوا ہے، یہ پہلے نطفہ تھا، نطفہ سے علقہ، علقة سے مضغہ بنا، پھر اس پر ہڈیاں اور گوشت پوست چڑھائے گئے، عالم وحدت میں ہمارا (روح کا ) تعلق فقط الله تعالیٰ سے تھا، جب ہمیں اس عالم کثرت میں لایا گیا تو ہمارا تعلق ماں باپ ، بہن، بھائی، بیوی بچوں وغیرہ سے بھی ہو گیا۔ یہ سب عزیز واقارب بڑے پیارے ہوتے ہیں، ان سب میں رہنے کے باوجود الله تعالیٰ چاہتے ہیں کہ حقیقی تعلق مرے سوا کسی سے نہ رکھا جائے۔

سورہٴ آل عمران، رکوع نمبر2 ،پارہ نمبر3 میں ان تعلقات کے متعلق یوں ارشاد فرماتے ہیں:
”لوگوں کے لیے ان چیزوں کی محبت خوش نما بنا دی گئی ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہیں، یعنی عورتیں ، بچے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے او رکھیتیاں۔ یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہے، (لیکن) ابدی انجام کا حسن تو صرف الله کے پاس ہے۔“

سب سے پہلے بیوی کا نام لیا ہے، بیوی آئی تو ماں باپ بھول گئے، اس کے بعد بیٹوں کا ذکر فرمایا،، ان کے کھانے پینے کے لیے دولت چاہیے، پھر اس کا ذکر فرمایا، پھر سونا چاندی، سواری، گائے، بھینس ، کھیتی باڑی کا ذکر فرمایا ۔ان سب کی محبت انسان کے دل میں ڈالی گئی ہے، لیکن ان کو دنیا کے ہی ساز وسامان کہا گیا ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے:
”کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں“

ان میں ہی دل نہ گڑ جائے، آگے پتے کی بات فرماتے ہیں:﴿والله عندہ حسن الماب﴾․

ادھر کے ٹھکانے کا بھی خیال رکھنا، اس کے متعلق کسی الله والے نے کہا ہے:
        دلا! تو رسمِ تعلق زمرغ آبی جو
        گرچہ غرق بدریا ست، خشک پر برخاست

حج کے سفر میں سمندر میں یہ نظارہ دیکھنے میں آتا ہے، سمندر میں ایک آبی پرندہ بیٹھا ہوا نظر آتا ہے، تھوڑی دیر کے بعد ایک موج آتی ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غرق ہو گیا، اسی طرح موجیں اس کے اوپر سے گزرتی رہتی ہیں، جب دل چاہتا ہے، وہ اڑ جاتاہے، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پروں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔

کسی دوسرے شاعر نے کہا ہے :
        درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
        باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش!
ترجمہ: دریا کے درمیان تختے پر ڈال دیا گیا ہوں او رپھر کہتے ہو کہ ہوشیار رہنا، دامن تر نہ ہو پائے؟! اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ انسان سب میں رہے مگر دل میں سوائے الله کے اور کسی سے تعلق نہ ہو۔ اصل کام یابی حاصل کرنے والوں کا ذکر الله تعالیٰ یوں فرماتے ہیں :

”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے او رانہوں نے نیک عمل کیے، یہی بہترین مخلوق ہیں، ان کی جزا ان کے رب کے ہاں ہمیشگی کے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں سدار ہیں گے، الله ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہو گئے، یہ اس کے لیے (جزا) ہے جو اپنے (رب سے ڈرا)۔“ (سورہٴ بینہ، پارہ نمبر30)

سورة الصف، رکوع نمبر2 ،پارہ نمبر28 میں بھی فرماتے ہیں:
”اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کا پتا نہ دوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے، الله پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور الله کی راہ میں اپنے مالوں او رجانوں سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو ،وہ تمہارے گناہ بخش دے گا او رتمہیں جنت میں داخل کرے گا، جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور ہمیشگی کے باغوں میں ستھری رہائش گاہیں، یہ بڑی کام یابی ہے۔“

اصل کام یابی یہ ہے، اس کا پروگرام یہ بتلایا گیا:﴿تؤمنون بالله ورسولہ وتجاھدون في سبیل الله باموالکم وانفسکم﴾․

اس آئینہ میں مسلمانوں کا منھ دیکھیے، کتنے ہیں جن کو اس کام یابی کے حاصل کرنے کا شوق ہے؟ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے دروازہ کا غلام او رکسی اہل الله کا تربیت یافتہ ہو تو اس کی صحبت میں یہ رنگ چڑھتا ہے، اس کا پروگرام سورة البینة اور سورة الصف کی مندرجہ بالا آیات میں بیان فرمایا گیا ہے :
        ”چیست دنیا از خدا غافل بودن“

ایک پنواڑی دنیا دار ہوسکتا ہے، اگر اس کا دل خدا کی یادسے غافل ہے۔ ایک کروڑ پتی دیانت دار ہو سکتا ہے، اگر اس کے دل میں خوف خدا ہے اور وہ کمانے او رخرچ کرنے میں رضائے الہٰی کا خیال رکھتا ہے۔

انسان کو جب ٹھوکر لگتی ہے تو پھر سمجھ آتی ہے کہ اس دنیا میں سب طمع کے یار ہیں۔

بے طمع کا یار فقط الله تعالیٰ ہے، اس کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم یا پھر الله والے بے طمع کے یار ہیں۔ ان کو فقط الله کے نام سے محبت ہوتی ہے۔ حقیقی کام یابی حاصل کرنے والے حضرات کا ذکر اس آیت میں بھی آتا ہے:

” بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب الله ہے، پھر وہ اس پر ڈٹ گئے، ان پر فرشتے نازل ہوں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور اس جنت کی خوش خبری ہو، جس کا تم کو وعدہ دیا گیا تھا۔“ (سورہٴ حم السجدہ)

یہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کام یاب ہونے والے ہیں۔ قرآن مجید کی تعظیم او رالله والوں کی صحبت ہو تو آہستہ آہستہ ان باتوں کی سمجھ آجاتی ہے اور رنگ چڑھ جاتا ہے۔ جن کو نہ قرآن کی تعلیم اور نہ صحبت نصیب ہے، ان کو نہ قبر کا خیال ہے، نہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے حوض کوثر سے پانی پلائے جانے کا خیال ہے۔ ان کے متعلق اکبر الہ آبادی مرحوم فرماتے ہیں:
        انہوں نے دین کب سیکھا ہے جاکر شیخ کے گھرمیں
        پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں

قرآن مجید پڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اس دنیا میں ہم نہ بی اے پاس کرنے کے لیے آئے ہیں اور نہ جائیداد بنانے کے لیے۔

اپناامتحان لیا کیجیے کہ دنیا سے دل برداشتہ ہیں یا دل دنیا کی چیزوں میں گڑا ہوا ہے، ایک مرتبہ میں اور حضرت مولانا عبدالعزیز رحمہ الله ایک رئیس کے ہاں ٹھہرے، وہاں حضرت مولانا اتنے تنگ ہوئے کہ مجھ سے فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جیل خانہ میں ڈال دیا، مجھے جلدی سے یہاں سے نکالو، الله والوں کو دنیا کی چیزوں سے بو آتی ہے ، شریعت نے حرام کی تاثیر کو تسلیم کیا ہے، بدکار عورت کی حرام کی کمائی سے بنی ہوئی مسجد کو شریعت مسجد تسلیم نہیں کرتی، اس کے بعد ہم وہاں سے اجازت لے کر حضرت مولانا کے گاؤں میں ایک چھپر میں آگئے، وہاں ان کو چین آیا۔

الله تعالیٰ مجھے اور آپ کو حقیقی کام یابی نصیب فرمائے۔ آمین!