پُرسکون زندگی کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟

پُرسکون زندگی کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟

مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ

محترم المقام زیدمجدکم السامی، ہدیہ مسنونہ کے بعد عرض ہے کہ آپ کا گرامی نامہ دفتر دارالعلوم دیوبند میں موصول ہوا ،میں اس دوران سفرمیں تھا سفر طویل ہو گیا اور آپ کا والا نامہ دیوبند ہوتا ہوا مجھے بمبئی میں ملا! وہاں بھی مصروفیات کے سبب جواب لکھنے کا موقع نہ ملا اور کلکتہ روانگی ہوگئی! اس لیے آج کلکتہ سے جواب عرض کر رہا ہوں اور اس تاخیر ِ جواب کی معافی چاہتا ہوں!

آپ نے والا نامہ میں سوال فرمایا ہے کہ:
اس پریشان او رابتر دنیا میں انسان کس طرح ایک خوش وخرم اور پُرسکون زندگی بسر کر سکتا ہے؟

جواباً عرض ہے کہ سوال اہم اور عموماً آج کے دُکھی دلوں کی ایک عمومی پکار ہے! اس لیے حقیقتاً توجہ طلب ہے! لیکن یہ سوال جس قدر اہم اور پیچیدہ دکھائی دیتا ہے اُسی قدر اپنے جواب کے لحاظ سے واضح اور صاف بھی ہے! جواب سامنے لانے کے لیے پہلے پریشانی او رابتری کے معنی متعین کر لینے چاہییں تو اس سے بچنے کی صورت اور زندگی کے سکون کی راہ خود ہی متعین ہو جائے گی!! مصیبت کیا ہے؟

لوگوں نے عموماً دُکھ، درد، بیماری، افلاس، تنگ دستی، جیل، قید وبند، ماردھاڑ، قتل وغارت، قحط، وبا بلاوغیرہ کو مصیبت وپریشانی سمجھ رکھا ہے، حالاں کہ ان میں سے ایک چیز بھی مصیبت نہیں؟! یہ صرف واقعات اور حوادث ہیں! پریشانی اور مصیبت درحقیقت ان (حوادث) سے دل کا اثر لینا، تشویش میں پڑنا، دل تنگ ہونا او رکرب وغم میں ڈوب جانا ہے!!! پس یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ اسباب ِ مصیبت کہلائی جاسکتی ہیں ،مصیبت نہیں کہی جاسکتیں!

مصیبت قلب کی کیفیت،احساس اور تاثر کا نام ہو گا،جیل کی قید وبند کا نام مصیبت نہیں! بلکہ اس سے دل میں پراگندگی اورگھٹن کا اثر آنا مصیبت ہے! افلاس وتہہ دستی خود کوئی پریشانی نہیں! بلکہ دل کا اس سے گھبرانا اور مضطرب ہونا پریشانی ہے! تپ ولرزہ یا ہیضہ وطاعون اور قحط ووبا مصیبت نہیں! بلکہ دل میں اس سے کرب وبے چینی کا اثر لینا مصیبت ہے! پس”مصیبت“ خود ہمارے دل کی کیفیت ہے، دنیا کے واقعات نہیں! اس لیے مصیبتوں کے خاتمہ کی یہ تدبیر کبھی معقول اور کارگرنہیں ہوسکتی کہ دنیا سے حوادث کو مٹانے کی کوشش کی جائے جب کہ حوادثِ زمانہ نہ خود مصیبت ہیں اور نہ ہی ہمارے قبضہ میں ہیں!

بلکہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ان حوادث کے پیش آنے پر قلبی تشویش وپراگندگی کا راستہ روک دیا جائے او را ن سے بجائے خلافِ طبع ضیق وتشویش کا اثر لینے کے انہیں طبیعت کے موافق بنا لیا جائے، جس سے دل ان سے گھٹنے کے بجائے لذت لینے لگے! تو ان میں سے نہ صرف مصیبت ہونے کی شان ہی نکل جائے گی، بلکہ یہ اُمور قلبی راحتوں کا ذریعہ بن جائیں گے اور زندگی میں سے پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا!!!

آج کی دنیا زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے ان حوادثِ زمانہ کو ختم کر دینے کی فکر میں لگی ہوئی ہے، لیکن یہ چوں کہ ایک ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش ہے، جو کبھی شرمندہٴ وقوع نہیں ہوسکتی ،اس لیے جتنا جتنا یہ اوندھی تدبیر بڑھتی جائے گی اُتنا ہی دنیا کی زندگی میں ابتری اور بے چینی کا اضافہ ہوتا رہے گا او رکبھی بھی پریشانیوں اور بے چینیوں کا خاتمہ نہ ہو گا! جیسا کہ مشاہدہ میں آرہا ہے، پس عالَم کو بدل ڈالنے کی کوشش کا نام چین نہیں، بلکہ خود اپنے کو بدل دینے کا نام سکھ اور چین ہے!!؟

اس کی سہل صورت ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ نظر کو اِن حوادث سے ہٹا کر اُس سرچشمہ کی طرف پھیر دیا جائے جہاں سے بن بن کر یہ اسباب مصائب وآفات عالم پر اُتر رہے ہیں اور وہ الله رب العزت کی ذات ِ بابرکت ہے ،جس نے اِس عالم کو لا محدود حکمتوں سے ”عالم ِ اضداد“ بنایا ہے! اور اس میں راحت وکلفت، نعمت ومصیبت، حظ وکرب اور چین وبے چینی دونوں کو سمو کر اِس عالَم کی تعمیر کی ہے، اگر اس سے رشتہٴ محبت وعبودیت اور رابطہ رضا وتسلیم کر لیا جائے، جس کا نام ”ایمان“ ہے اور ریاضت ومشق سے اسے اپنا حال اور جوہر ِ نفس بنا لیا جائے کہ اس کے ہر تصرف اور ہر تقدیر پر اطمینان واعتماد بھی میسر آجائے تو یہ محبت ہی ہر تلخ کو شیریں اور ناگوار کو خوش گوار بنا دے گی! جس سے قلب ان حوادث سے تشویش کا اثر نہیں لے سکے گا، جو مصیبت کی رُوح ہے کہ از محبت تلخ ہاشیریں بود ( محبت کی وجہ سے بہت سی کڑوی چیزیں میٹھی لگتی ہیں)۔

کیوں کہ عاشق کے لیے محبوب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز محبوت اور لذیذ ہوتی ہے ،وہ محبوب کی بھیجی ہوئی تکلیف کو بھی اپنے حق میں یہ سمجھ کر راحت جانتا ہے کہ محبوب نے مجھے یاد تو کیا ،تو مصیبت مصیبت نہ رہے گی!

خلاصہ یہ نکلا کہ مصیبت نام ہے خلاف ِ طبع کا ( اس کو) موافق ِ طبع بنانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ عالَم کی طبیعت کو بدلنے کے بجائے (جو بس کی بات نہیں) اپنی طبیعت کو بدل دیاجائے اور اس کا رُخ مصیبت سے پھیر کر مصیبت بھیجنے والے کی طرف کر دیا جائے کہ نظر مصیبت پر نہ رہے، بلکہ خالق ِ مصیبت کی توجہ وغایت اور بے پایاں حکمت وتربیت پر ہو جائے اور ظاہر ہے کہ یہ یقین بجز خدا کی ذات کو مانے ہوئے اور اس کے ہر ہر تصرف پر کل اعتمادواطمینان کیے بغیر میسر نہیں آسکتا! اس لیے مصائب کا خاتمہ خدا کے نام سے بھاگنے میں نہیں ہے، بلکہ اُس کی طرف لوٹنے میں ہے! یعنی آگے بڑھنے میں نہیں ہے، بلکہ پیچھے ہٹنے میں ہے۔

اندریں صورت انسان جتنا بھی استیصال ِ حوادث (حوادث کو ختم کرنے کی مہم) کی مہم میں لگا رہے گا، مصائب سے کبھی نجات نہ پاسکے گا، جس کا زاویہٴ نظر یہ ہو کہ وہ دفعیہ حوادث وآفات کی تدبیر کسی نہ کسی سبب ہی کے ذریعہ کرے گا اور یہ سبب بھی جب کہ خود ایک حادثہ ہو گا، جس میں منفعت کے ساتھ مضرت کا بھی کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہو گا تو یہ دفع ِ مصیبت بھی مصیبت سے خالی نہ ہو گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ استیصال مصائب کے بجائے کچھ نہ کچھ اضافہ ٴ مصائب ہی ہو جائے گا او رایک مصیبت اگر کسی حد تک ٹل بھی جائے گی تو دوسری مصیبت اسی آن اس کی جگہ لے لے گی !!!

گر گریز بر اُمید راحتے
زاں طرف ہم پیشت آید آفتے
(اگر تم بھاگتے ہو کسی راحت کی اُمید پر، جس طرف سے تم راحت کو چاہتے ہو اُس طرف سے کوئی نہ کوئی مصیبت آجاتی ہے۔)

لیکن ان حوادث سے بالاتر ہو کر خالق ِ حوادث سے قلب کا تعلق قائم کر لیا جائے تو ادھر سے علمی طور پر تو ان آفات ومصائب کی حکمتیں دل پر کھلیں گی، جس سے یہ مصائب معقول اور بر محل محسوس ہونے لگیں گی تو ان سے اُکتانے کی کوئی وجہ معقول نہ ہو گی کہ قلب عقلاً غمگین ہو اور پھر عشق ِ الہٰی کی سرشاری میں جب کہ اِن حوادث کا ورود منشاءِ محبوب محسوس ہو گا تو اسے توجہ محبوب سمجھ کر یہ عاشق قلب عملاً ان آفات سے لذت وسرشاری کا اثر بھی لینے لگے گا اور آخر کار اس روحانی لذت وسرشاری میں محو ہو کر اسے فرصت ہی نہ ملے گی کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اِن آفات ومصائب کی طرف دھیان بھی کرسکے، اس لیے اس کے حق میں نعمت تو ”نعمت“ ہوئی”مصیبت“ اس سے بھی بڑھ کر نعمت ولذت بن جائے گی اور زندگی سے مصائب اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، پس راحت مسبّب الاسباب سے سچے تعلق میں پنہاں ہے!

ہیچ گنجے بے درد بے دام نیست
جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست
(کوئی خزانہ بغیر درد اور مال کے حاصل نہیں ہوتا، الله تعالیٰ کی بارگاہ کے علاوہ کوئی راحت نہیں ہے۔)

خلاصہ یہ ہے کہ راستے دو ہی ہیں:
1.. ایک مصائب سے دل تنگ ہو کر اسباب کے راستے سے ان کا مقابلہ اور استیصال کی فکر وسعی ۔
2.. اور دوسرا مسبّب الاسباب سے عشق کے ذریعہ مصائب کو توجہٴ محبوب سمجھ کر ان پر دل سے راضی ہو جانا اور شیوہ تسلیم ورضا اختیار کرنا۔

پہلا راستہ بند گان ِ عقل (فلاسفہ وسائنس دانوں) نے اختیار کیا تو ایک لمحہ کے لیے بھی مصائب سے نجات نہ پاسکے! نہ خود مطمئن ہو ئے، نہ کسی کو اطمینان دلاسکے! بلکہ خود مبتلا ہو کر پوری دنیا کو مبتلائے مصائب وآفات کر دیا! جس سے دنیا سے سکھ اور چین رُخصت ہو گیا!”اسباب ِ راحت“ بڑھ گئے اور ”راحت“رُخصت ہو گئی؟!

دوسرا راستہ بند گان ِ خدا( انبیاء واَولیاء) نے اختیار کیا کہ حوادث ِ عالم سے تنگ دل ہونے کے بجائے انہیں توجہ حق اور منشاءِ الہٰی سمجھ کر ذریعہٴ راحت ِ قلب بنایا تو تشویش وپریشانی ان کے قلب کے آس پاس بھی نہ پھٹک سکی، خود بھی مطمئن اور منشرح ہوئے اور عالَم میں بھی سکون واطمینان کی لہریں دوڑادیں!

اس لیے ان کی او ران کے متبعین کی زندگیوں سے ہمیشہ کے لیے مصیبتوں کا خاتمہ ہو گیا!! اور خوشی وخرمی ان کی زندگیوں کا عنوان بن گئی!!!
﴿ أَلا إِنَّ أَوْلِیَاء اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ، لَہُمُ الْبُشْرَی فِیْ الْحَیْاةِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَةِ لاَ تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (سورہٴ یونس:64-62)

”بلاشبہ اولیاء ا لله پر خوف ہے نہ غم، جو ایمان لائے اور الله سے ڈرتے رہے، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی، الله کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں( خوشی وخرمی کا یہی اٹل قانون ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا) یہی ہے بڑی کام یابی۔“

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے افلاطون حکیم نے سوال کیا تھا کہ :
”اگر آسمان کو کمان فرض کیا جائے اور مصائب وآفات کو اس کمان سے چلنے والے تیر شمار کیا جائے اور خدا کو تیرانداز مانا جائے تو ان مصائب سے بچاؤ کی کیا صورت ہے؟“

عقل کا جواب تو مایوسیہے! کیوں کہ بچاؤ کی کوئی صورت نہیں! آدمی نہ آسمان کے دائرہ سے باہر جاسکتا ہے! نہ خدا کے احاطہ سے باہر نکل سکتا ہے ! اس لیے لامحالہ اُسے مصائب کے تیر کھانے ہی پڑیں گے، بچاؤ کی کوئی صورت نہیں!! لیکن انبیاء فلاسفر(سائنسدان) نہیں ہوتے کہ محسوسات سے گھری ہوئی محدود عقل کا سہارا پکڑ کر اپنے علم وعمل کے راستے محدود کر لیں! ان کا تعلق خالق ِ عقل سے ہوتا ہے، جو اپنے کمالات وتصرفات میں لا محدود ہے او رتعلق بھی محبت وعشق کا ہوتا ہے، جو شش جہت (چھ اطراف) سے بھی اُوپر کی بات لاتا ہے۔

عقل گوید شش جہت حد ست وبیروں راہ نیست
عشق گوید راہ ہست ورفتہ ام من بارہا
”عقل کہتی ہے چھ جہتیں حد ہے اور باہر کوئی راستہ نہیں ہے عشق کہتا ہے راستہ بھی ہے اور میں کئی بار گیا بھی ہوں۔“

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ:
”مصائب کے ان تیروں سے بچاؤ کی بہت آسان صورت ہے؟! وہ یہ کہ آدمی تیر انداز کے پہلو میں آکھڑا ہو تو نہ تیر لگے گا، نہ اثر کرے گا!“

اور پہلوئے خداوندی ذکر الله اور یادِ حق ہے، جس میں محوہو کر آدمی اپنے کو کلیةً خدا کے سپرد کر دیتا ہے اور یہ محبت وتفویض ہی عاشق کا وہ کام ہے جس سے ہر تلخ اس کے لیے شیریں بن جاتا ہے او راس کی صدا یہ ہو جاتی ہے کہ :

ناخوش اُو خوش بود در جانِ من
جان فدائے یارِ دل رنجانِ من
(اس کی ناراضی میرے لیے خوشی ہے، میری جان اُس دُکھانے والے دوست پر قربان ہو۔)

اور پھر اس کی تفویض او رجاں سپاری( اپنی زندگی وموت ودیگر معاملات الله کے سپرد کرنے والا) کا عالَم یہ ہو جاتا ہے کہ #
زندہ کنی عطائے تو، ور بکشی فدائے تو
دل شد مبتلائے تو، ہر چہ کنی رضائے تو

( اگر زندگی دے تو تیری عطا ہے، اگر موت دے تو تجھ پر قربان، دل تجھ پر فدا ہو گیا تو جو کچھ کرے تیری رضا ہے۔)

ظاہر ہے کہ اس لذتِ جاں سپاری کے ہوتے ہوئے مصائب وآفات کی مجال ہی کیا رہ جاتی ہے کہ وہ قلب عاشق کو بے چین کرسکیں یا اس میں ذرّہ برابر پراگندگی اور تشویش پیدا کرسکیں، اس حالت میں قلب ِ عاشق کی ہر تشویش وپراگندگی مبدَّل بہ سکون وطمانینت ہو جاتی ہے ،جو لذت وراحت کی جڑ اور بنیاد ہے! او راب اگر اس میں کوئی تشویش وخلش ہو سکتی ہے تو اندیشہٴ فراق محبوب کی تو ہوسکتی ہے، ورنہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی تشویش وپریشانی سے آلودہ نہیں رہ سکتا! اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بندہٴ عقل کو کبھی راحت نہیں مل سکتی اور بندہٴ خدا کو کبھی قلبی پریشانی نہیں ہو سکتی۔
﴿ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾․(سورة الرعد:28)
”آگاہ رہو کہ الله کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔“

مغروران ِ عقل( عقل کے ہاتھوں دھوکہ میں مبتلا سائنس دان ودانش ور وغیرہ) تجویز کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ہمیشہ نامراد رہتے ہیں !!!

اور خاکسارانِ حق تفویض کی راہ چلتے ہیں تو ہمیشہ کام یاب ہوتے ہیں !!!

پس دنیا والوں کی انتہائی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسباب راحت کو راحت اور اسباب ِ مصیبت کو مصیبت سمجھ رکھا ہے، اس لیے دنیا کو اسباب ووسائل سے بھرنے پر تلے ہوئے ہیں !! حالا ں کہ یہی راستہ زندگی کی تشویشات اور بے چینیوں کا ہے ،جس میں ایک لمحہ کے لیے راحت میسر نہیں آسکتی، وہ اس راہ میں جتنا بھی حصولِ راحت اور دفعیہ مصائب کی جدوجہد کرتے رہیں گے اُتنا ہی راحت سے دُور اور قلبی سکون سے بعید تر ہوتے چلے جائیں گے !!!

حصولِ راحت کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ( اپنی عقل کے زورپر) آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لوٹ کر خدا سے معاملہ صاف اورر ابطہ قوی کیا جائے ! اور اسی سچے خدا کا سہارا پکڑا جائے جسے چھوڑ کر ہم ( بھٹکے اور) بہت آگے نکل آئے ہیں، ورنہ زندگی کے پُرسکون ہونے کا او رکوئی راستہ نہیں، نہ کبھی ہوا! اور نہ ہوگا!!!

اس لیے آج کی پریشان حال او رابتر دنیا اگر فی الحقیقت ایک خوش وخرم اور پُر سکون زندگی چاہتی ہے تو اپنا رخ بدلے او ربم چلانے، ایٹم بم بنانے، جہاز اُڑانے اور سیارات چھوڑنے میں راحت وسکون تلاش کرنے کے بجائے خدا وند کریم کی بارگاہ کی طرف توجہ کرے او راس کے بھیجے ہوئے مستند قانون کو اختیار کرے کہ اس بارگاہ سے نہ کبھی کوئی مایوس لوٹا ہے، نہ لوٹے گا !!! اور اس سے کٹ کر نہ کبھی کوئی کام یاب ہوا ہے ،نہ ہو گا!!!
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر وگبر وبت پرستی باز آ
ایں درگہ مادرگہ نومیدی نیست
صد بار گر توبہ شکستی باز آ
(واپس لوٹ آ واپس لوٹ آ، جو کچھ بھی ہے تو واپس لوٹ آ، اگر کافر ہے، آتش پرست ہے، بت پرست ہے تو بھی واپس لوٹ آ، یہ ہماری بارگاہ نا امیدی والی بارگاہ نہیں ہے، سو مرتبہ اگرتونے توبہ توڑ دی ہے تو پھر بھی لوٹ آ۔)