وقت کے قدر دان

وقت کے قدر دان

محترم محمد طلحہ ارشاد

الله تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے، وقت ان نعمتوں میں سے ہے جو انمول ہیں، یعنی جو انسان کو ایک ہی بار ملتی ہیں۔ اس لیے وقت کی قدر کرنے اور اسے قیمتی بنانے کا احساس پیدا کرنے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث میں بھی مختلف اسالیب سے توجہ دلائی گئی ہے۔ حدیث کے مشہور امام ”ابوداود“ جن کی ”سنن“ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہیں، فرماتے تھے:” میں نے اپنی سنن پانچ لاکھ احادیث سے منتخب کی ہے (ان کی سنن چار ہزار آٹھ سو احادیث پر مشتمل ہے) پھر انہوں نے اپنی سنن سے اسلامی نظام زندگی کے دستور کی جامعیت پر نمونے کے طور پر چاراحادیث کا انتخاب پیش کیا، ان چار میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے:” آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی مشاغل ترک کر دے۔“

”وقت بھی ایک سونا ہے“ یہ مثال ان لوگوں کے لیے صحیح ہے جو موجودات کی قدر وقیمت محض قیاس وتصور کے ذریعے ہی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پاکیزہ خیالات ونظریات کے حامل ہوتے ہیں، ان کے ہاں تو وقت بہت گراں ہے، ان کے نزدیک وقت کا مقام بہت بلند اور ارفع ہے۔ وہ کہتے ہیں:”وقت ہی زندگی ہے۔“ لیکن یاد رہے کہ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں مجتہد، مفسر محدث، فقیہ، فلاسفر، منصف اور اولیاء بن گئے۔ اس کے برخلاف جتنے لوگ تم دیکھ رہے ہو انہوں نے بچپن میں اپنا وقت رائیگاں کھویا ہے۔ بے کار گزارا ہوا ایک لمحہ ننھے سے پودے کی کئی شاخوں کو کاٹ ڈالتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیجیے ! آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں جتنے کام یاب لوگ گزرے ان کی ترقی کا اہم راز وقت کی قدر اور اس کا صحیح استعمال تھا او رجن لوگوں نے وقت کی قدر کی اور اپنے آپ کو لغویات سے بچایا انہوں نے اپنی آخرت کے لیے بھی بہت کچھ کیا اور پیچھے امت کے لیے بھی بہت کچھ چھوڑا۔

سلف صالحین کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے کس کمال احتیاط کے ساتھ وقت کا استعمال کیا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کے بارے میں حضرت عبدالحئی عارفی رحمہ الله ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت کی نظر میں وقت کی بڑی قدر تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ الله تعالیٰ نے وقت کی اہمیت کو آپ کی فطرت میں پیوست کر دیا ہے۔ ہر ایک لمحے کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے کااہتمام فرماتے۔

ہروقت نظر گھڑی پر رہتی تھی اور ہر کام نظام الاوقات کے تحت کرتے تھے، اسی اہتمام کی برکت سے دین کی اشاعت اور رشد وہدایت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ امت کے لیے تیار کرکے چھوڑا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله کی تصانیف کی تعداد 11 ہے، جن کی علامہ کوثری رحمہ الله نے بلوغ الامانی کے حاشیہ میں تصریح کی ہے۔ امام شافعی رحمہ الله نے کتاب الام لکھی، جو پندرہ جلدوں میں ہے، اس کے علاوہ 113 کتابیں مزید لکھیں۔ امام محمد رحمہ الله نے علوم دینیہ میں 990کتابیں تصنیف کیں۔ امام ابن حزم رحمہ الله کی 400 مجلدات ہیں،جو اسی ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ الله نے دس لاکھ احادیث لکھی ہیں۔ ابن عساکر رحمہ الله نے 50 سے زاید کتب تصنیف کیں، ان کی ایک کتاب ”تاریخ مدینہ و دمشق“ 80 جلدوں میں ہے۔

شیخ عبدالرحمن ابن جوزی کی ایک ہزار سے زاید تصانیف ہیں۔ ابن جریر رحمہ الله نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار اوراق لکھے۔ امام ابوا الحسن اشعری رحمہ الله کی تصانیف 250 سے 300 تک ہیں۔ علامہ احمد بن علی الخطیب بغدادی رحمہ الله کی تالیفات 60 سے زاید ہیں۔ علامہ جاحظ کی 200 تصانیف ہیں۔ ابن تیمیہ کی تصانیف کی گنتی مشکل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ الله کے بعد علامہ عینی رحمہ الله سے زیادہ کثیر التصانیف کوئی نہیں، آپ کی ایک تالیف ”عمدہ القاری“21 جلدوں پر مشتمل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ الله کا ایک واقعہ ہے کہ آپ نظام الاوقات کے پابند تھے، ہر کام کا وقت مقرر تھا اور ہر ایک لمحہ تول کر خرچ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لکھنے کے دوران قلم پر قط رکھنے کی ضرورت پیش آتی تو اتنی دیر بے کار نہ گزارتے، بلکہ اس وقفے میں زبان سے ذکر الله میں مشغول ہو جاتے تھے۔ حافظ ابو علی فرماتے ہیں۔

”محمد بن مسیب جب مصر گئے تو ان کے بستے میں ایک لاکھ تحریر شدہ حدیثیں تھیں۔ حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ چالیس سال سے میری نماز باجماعت فوت نہیں ہوئی۔ ایک آدمی نے حضرت عامر بن قیس سے کہا کہ ٹھہریے! میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے فرمایا: ”سورج کو روک لو، پھر میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔“

حضرت عاصم بن علی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن ہارون عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ساری رات قیام اللیل میں گزارتے تھے۔ یہاں تک کہ صبح کی نماز اسی وضو سے ادا کرتے، آپ نے عشاء کے وضو سے چالیس سال تک صبح کی نماز پڑھی ۔ حضرت اصبغ بن زید رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی رحمہ الله کا یہ حال تھا کہ جب شام ہوتی تو کہتے کہ یہ رکوع کی رات ہے، چناں چہ، رکوع کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ حضرت ابوبکر النہسلی رحمہ الله کی وفات کے وقت لوگ حاضر ہوئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ اشارے سے عبادت کر رہے ہیں، آپ سے عرض کی گئی کہ اس جان کنی کی حالت میں بھی آپ مصروف عمل ہیں؟ آپ نے فرمایا: ” میں چاہتا ہوں کہ اعمال نامہ لپیٹے جانے سے پہلے کچھ کر لوں۔“ حضرت سعید بن عبدالعزیز رحمہ الله کہتے ہیں: ” میں نے حضرت عمیر بن ہانی سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی زبان الله کے ذکر سے غافل نہیں رہتی، آپ ہر روز کتنی بار تسبیح کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ایک لاکھ بار، ہاں! اگر انگلیاں (شمار کرنے سے ) چُوک جائیں تو او ربات ہے۔

مذکورہ اکابر کی پرا فادہ زندگی کی محیر العقول جھلکیاں آج ہمارے لیے ناقابل ِ یقین معلوم ہوتی ہیں ، کیوں کہ ہمارے نزدیک وقت کی قدر ومنزلت کسی بھی درجے میں نہیں ہے، وقت کا ضیاع ہمارے لیے اتنا آسان ہو چکا ہے کہ اس پر افسوس کا احساس ہی نہیں ہوتا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آئندہ کی ندامت سے بچنے کے لیے حتی الامکان عمر عزیز کے قیمتی اوقات مفید کاموں میں لگائیں۔