وقت کی قدر وقیمت

وقت کی قدر وقیمت

محترم ابو فراز

آج دُنیا میں کسی سے پوچھیں کہ تمہارے پاس سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟ تو وہ گنوادے گا کہ میرے پاس اتنے ہیرے جواہرات ، سونا چاندی، مال وزر اور اتنے بنگلے کارخانے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت ہماری سب سے قیمتی چیز ہے ،جو ہمیں یا تو ہمیشہ کی کام یابی سے ہم کنار کرتا ہے یا ہمیشہ کی ناکامی سے۔

وقت کیا چیز ہے؟ اس کی قدر وقیمت کیا ہے او راس کا صحیح مصرف کیا ہے؟ جو شخص ان تین باتوں کو سمجھ جاتا ہے ، وہ کام یاب ہو جاتا ہے اور جوان باتوں کو نہیں سمجھتا ، وہ دنیا یا اپنی نظر میں چاہے جتنا بھی کام یاب تصور کیا جائے ،مگر ناکام ہو جاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کام یابی کا پیمانہ مال ودولت ، طاقت وثروت، زر وزمین، افواج وحکومت نہیں ہے ، شداد نے جنت بنائی، مگر وہ خود ہی اندر داخل نہ ہو سکا، قارون نے دولت جمع کی وہ اسے زمین میں دھنسنے سے نہ بچاسکی ،نمرود اور فرعون کی عالی شان سلطنتیں بھی انہیں عبرت ناک انجام سے نہ بچا سکیں، ابرہہ کی ہاتھیوں پر مشتمل فوج بھی اسے درد ناک انجام سے نہ بچاسکی۔ قوم عاد وثمود کی طاقت اور پہاڑوں کے اندر کے محل بھی انہیں تہس نہس ہونے سے نہ بچا سکے، ان کے برخلاف پیٹ پر پتھر باندھنے والوں، بے گھر، بے زمین، نہتے لوگوں کو دنیا ہی میں کام یابی کا سر ٹیفکیٹ مل گیا۔ رضی الله عنہم اجمعین۔ یعنی کام یابی کا پیمانہ الله تعالیٰ کی رضا ہے۔

وقت کیا چیز ہے؟ وقت الله تعالیٰ کا وہ عطیہ ہے جو ہمیں ہوا، پانی، روشنی وغیرہ کی طرح بالکل مفت حاصل ہے، مگر نظر نہیں آتا، اس لیے عقل مند وہ ہے جو وقت کی قدر کرے اور اس کو ضائع ہونے سے بچائے۔

وقت سے پیسہ تو کمایا جاسکتا ہے، مگر پیسے سے وقت نہیں خریدا جاسکتا، پیسہ تو جاکر واپس آسکتا ہے، مگر وقت جاکر واپس نہیں آتا، پس وقت پیسے سے قیمتی ہوا، اب وہ آدمی کیسے عقل مند کہلاسکتا ہے جوکم قیمتی چیز زیادہ قیمتی چیز کے عوض خریدے۔ وقت کے بارے میں ایک فلسفی کہتا ہے :
” وقت سے زیادہ طویل کوئی چیز نہیں … کیوں کہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے، اس سے مختصر کوئی شے نہیں … کیوں کہ یہ ہماری خواہشات، آرزوؤں اور منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ ناکام ثابت ہوتا ہے، اس سے زیادہ سست رفتار کوئی چیز نہیں … اس کے لیے جو کسی امید یا انتظار میں ہو، اس سے زیادہ تیز رفتار کوئی چیز نہیں… اس کے لیے جو خوشی او رمسرت کے لمحات میں ہو۔“

آج کسی بھی طبقہ کے کسی فرد سے وقت کی بات کریں تو ہر کوئی اس کی کمی کا رونا روتا نظرآتا ہے ، سبزی، پھل فروش ہو یا کوئی او رمحنت کش، نوکری پیشہ ہو یا کاری باری، کالج یونی ورسٹی کا طالب علم ہو یا کوئی حکومتی عہدے دار، کسی سے پوچھو کہ صبح سے رات گئے تک تمہارا وقت کیسا گزرتا ہے؟ تو سب کا جواب ہوتا ہے کہ کام کی مصروفیات میں وقت کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کیسے گزر گیا، ان سے پوچھیں کہ عبادات اور دین سیکھنے سکھانے میں بھی کچھ وقت لگتا ہے؟ تو جواب ہوتا ہے کہ جو وقت بچتاہے ، وہ تھکن کی وجہ سے سونے میں گزر جاتا ہے، پھر ان سے پوچھیں کہ نماز کی پابندی تو کرہی لیتے ہوں گے؟

تو اکثر تو شرمندگی سے نظریں چراتے ہوئے کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کی تو پابندی کرتا ہوں، باقی دن میں بھی ایک دو نمازیں ہو جاتی ہیں، چلو اس شرمندگی کی ہی وجہ سے شاید الله تعالیٰ انہیں ہدایت دے دیں اور وہ توبہ کرکے نمازیں پوری کرنے میں لگ جائیں، لیکن بیشتر کا جواب ہوتا ہے کہ ہاں! ہمیں معلوم ہے کہ نماز فرض ہے، مگر کیا کریں وقت ہی نہیں ملتا، دعا کریں۔

اگر انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو شیطان انہیں تاویلات سمجھتا ہے او رکہتا ہے کہ رزق حلال کمانے کا بھی تو اسلام حکم دیتا ہے، بیوی بچوں کے بھی تو ہم پر حقوق ہیں، انہیں کیا ہم بھوکا مار دیں؟ اپنے جسم کا بھی تو ہم پر حق ہے، کچھ آرام نہ کریں تو کام کیسے کریں؟ الله غفور رحیم ہیں، معاف کر دیں گے، یعنی احکام الہٰی پورے کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، باقی ہر کام کے لیے وقت ہے۔

آئیے! سوچتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا دن چوبیس گھنٹوں سے گھٹ کر بارہ گھنٹے کا رہ گیا ہے کہ پہلے لوگوں کا وقت بچتا تھا، ہمارا نہیں بچتایا اس کی وجوہ کچھ اور ہیں؟

ہمارے اسلاف وقت کے قدردان تھے، وہ اسے ضائع نہیں ہونے دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ محنت مزدوری بھی کرتے تھے اور ملازمت بھی، وہ تجارت بھی کرتے تھے اور زراعت بھی، وہ حکومت بھی کرتے تھے اور بیوی بچوں کے حقوق بھی پورے کرتے تھے، مگر ساتھ ساتھ وہ دین سیکھتے سکھاتے بھی تھے اور احکامات پر عمل بھی کرتے تھے، وہ دو تین دن نہیں تو مہینہ ہی سہی ،ایک قرآن شریف کا ختم تو کرہی لیا کرتے تھے، سینکڑوں نوافل کے ساتھ ذکر واذکار کا بھی روزانہ کافی ذخیرہ جمع کر لیتے تھے او رتو اور ان کی عورتیں او ربچے بھی اپنے وقت کو قیمتی بنانے میں لگے ہوئے تھے، ہر کام کے نظام الاوقات مقرر تھے، جس سے ان کے روزانہ کے کام دن بھر میں پورے ہو جاتے تھے، دن ان کا بھی چوبیس گھنٹوں کا ہی ہوتا تھا ،مگر وہ فضول پارٹیوں میں وقت خرچ نہیں کرتے تھے، ”ریلکس“ ہونے کے لیے گھنٹوں فیس بک، واٹس اپ، یوٹیوب، اسمارٹ فون پر ضائع نہیں کرتے تھے، وہ پانچ پانچ دن کے کھیل نہیں کھیلا کرتے تھے، جس کا فیصلہ بھی یقینی نہ ہو، ان کے آپس کی گپ شپ میں بھی اپنے یا سننے والوں کی اصلاح کا پہلو ہوتا تھا، یعنی وہ اپنا وقت کسی بھی ایسے کام میں خرچ نہیں کرتے تھے، جس میں دین یا پھر دنیا کا کوئی نفع نہ ہو، اس لیے ان کے وقت میں برکت تھی جو، اب نہ رہی، کیوں کہ ہم بھی یہود ونصاریٰ کی طرح پیٹ کے پجاری بن گئے، یہاں تک کہ جانور بھی کم وقت میں سیر ہو جاتا ہے ،ہم تو قبر میں جانے تک بھی سیر نہیں ہو پاتے۔

قربان جائیے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ امت کو روپے پیسے کی طرح وقت کا صحیح استعمال بھی بتا دیا کہ یوں استعمال کروگے تو نافع ہو گا اور یوں استعمال کروگے تو نقصان اٹھاؤ گے، مختلف انداز میں ہمیں سمجھانے کے لیے دنیا کو کبھی مچھر کا پر، کبھی دھوکے کا گھر ، کبھی مکڑی کا جال، کبھی بکری کے مردہ بچے سے تشبیہ دی اور یہ بھی بتا دیا کہ تم چاہے دن رات ایک کر دو، دُنیا تمہیں اتنی ہی ملے گی جتنی تمہارے مقدر میں الله تعالیٰ نے لکھ دی اور جو لکھ دی وہ تمہیں مل کرہے گی اور ہم ہیں کہ غیرمسلموں کی طرح دنیا کے پیچھے اپنا سب کچھ لٹانے پر تلے ہوئے ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم سنیں گے نہیں ، پڑھیں گے نہیں، سوچیں گے نہیں تو سمجھیں گے کیسے؟ سمجھ میں تو تب آئے گی جب اٹل حقیقت یعنی موت کا سامنا ہو گا، اس وقت پچھتاوا ہو گا کہ ہم تو سارا وقت ہیرے کے عوض پتھر ہی کی تجارت کرتے رہے اور وہ بھی دوسروں کی خاطر، یعنی ورثاء کے لیے۔

چناں چہ عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنے اوقات کو نظام الاوقات کے تحت مقید کرے، ورنہ خواہشات، آرزوؤں اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے تو وقت ہمیشہ ناکافی ثابت ہوتا ہے، خوشی او رمسرت کے لمحات میں یہ انتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے، آج بنگلہ ہے، گاڑیاں ہیں، نوکر چاکر ہیں، کارخانے، فیکٹریاں ہیں، صحت وعافیت ہے، کل دو گز قبر میں جانا ہے، سب کچھ دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے او رحساب کتاب اکیلے ہی دینا ہے، انسان موت کے وقت سوچتا ہے کہ یہ خوش عیشی کا وقت کتنا مختصر تھا،کتنا جلدی گزر گیا، یعنی جسے ساری زندگی نظر انداز کیا، آج اسی کے ضائع ہونے پر پچھتا ہورہا ہے۔

اب جو بھی وقت ہے، ہمیں اسے قیمتی بنانا چاہیے۔اس ناچیز کی رائے میں مندرجہ ذیل اعمال ہمارے حق میں تریاق ثابت ہو سکتے ہیں : دور رکعت نماز پڑھ کر اور دو آنسو گرا کر الله تعالیٰ سے اپنے وقت کے ضائع، بلکہ برباد کرنے پر ہمیں سچی توبہ کرنا چاہیے، ان شاء الله ہمیں اسی طرح پاک صاف کر دیا جائے گا، جیسے ماں اپنے غلاظت میں لتھڑے ہوئے بچے کو نہلا دھلا کر صاف ستھرا کر دیتی ہے۔ صدق دل سے اپنی کم مائیگی، بلکہ جہل کا اقرار کرتے ہوئے الله تعالیٰ سے مدد طلب کرنا چاہیے، ان شاء الله ہمیں اسی طرح سیدھے راستے پر چلایا جائے گا ،جیسے ماں اپنے نونہال کو چلنا سکھاتی ہے، جب کبھی وہ گرنے لگتا ہے تو تھام لیتی ہے، ہم تو سترماؤں سے زیادہ محبت اور شفقت کرنے والی ذات سے مدد مانگ رہے ہیں، جو نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ بھی جہنم کا ایندھن بنے۔ کسی صاحب نسبت الله والے سے تعلق جوڑیں، ان کا کہنا مانیں، ان کے مشورے سے اپنا نظام الاوقات ترتیب دیں اور اس پر کاربند رہیں کہ یہ ہمارا تعلق الله تعالیٰ سے جوڑنے میں بے حد مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔