وبائی بیماریاں وضو اور مسواک کی اہمیت و فضائل

وبائی بیماریاں وضو اور مسواک کی اہمیت و فضائل

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

اسی طرح ہمارے پیارے نبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ صدقہ بلاؤں ، مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔

عن علی رضي الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بادروا بالصدقة؛ فإن البلاء لا یتخطاھا․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرنے میں جلدی کیا کرو اس لیے کہ بلا ، مصیبت صدقہ کو پھاند نہیں سکتی۔ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الزکوٰة، باب الانفاق وکراھیة الامساک رقم الحدیث:1887)، عن أبي ھریرة رضي الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم من تصدق بعدل تمرة من کسب طیب ولا یقبل الله إلا الطیب، فإن الله یتقبلھا بیمینہ ثم یربیھا لصاحبہ کما یربي احدکم فلوہ حتی تکون مثل الجبل․ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور الله صرف پاک ہی قبول کرتا ہے، تو الله تعالیٰ اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اس کو صدقہ دینے والے کے فائدے کے لیے پالتا (بڑھاتا) رہتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے، یہاں تک کہ وہ (کھجور کے برابر صدقہ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الزکوٰة، باب الصدقہ من کسب طیب، رقم الحدیث:1410)

ہم ایسے مواقع پر صدقہ کریں، جتنی جس کی حیثیت ہے، یہ نہیں ہے کہ اسلام آپ پر کوئی بوجھ ڈالتا ہے، نہیں ، آپ کی حیثیت پانچ روپے کی ہے، آپ صدقہ کریں، آپ کی حیثیت دس روپے کی ہے، آپ صدقہ کیجیے، آپ کی حیثیت سو روپے کی ہے، آپ صدقہ کیجیے، آپ کی حیثیت بکرا قربان کرنے کی ہے، آپ وہ کیجیے، صدقہ بلاؤں کو دور کرتا ہے۔

اسی طرح دعا بہت بڑی طاقت ہے ، جب بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور بندہ اپنے رب سے رجوع کرتا ہے، تو احادیث کے اندر ہے کہ بعض دفعہ وہ تقدیر، وہ فیصلہ جو الله تعالیٰ نے کر دیا ہے اور وہ اوپر سے نیچے کی طرف آرہا ہے اور بندہ نیچے سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور الله سے مانگتا ہے تو اس دعا کی برکت سے، اس صدقے کی برکت سے الله تعالیٰ اس فیصلے کو واپس لے لیتے ہیں۔

حدیث میں ہے: ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا یرد القضاء إلا الدعاء ولا یزید العمر إلا البر“․

تقدیر کو صرف دعا ہی پھیر سکتی ہے اور زندگی میں صرف حسن سلوک ہی اضافہ کر سکتا ہے۔(سنن الترمذي، ابواب القدر، باب لا یرد القدر إلا الدعاء، رقم الحدیث:2139، والمعجم الکبیر للطبرانی، ثوبان مولی رسول الله صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:1442، ومسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:22413)

مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے بعض لوگوں کی تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ان پر فلاں مصیبت آئے گی، لیکن اگر دعا کی یا صدقہ وغیرہ دیا تو وہ مصیبت ٹل جائے گی اور یہ بات بھی الله کے علم میں ہوتی ہے کہ وہ انسان دعا، صدقہ خیرات کرے گا یا نہیں، چناں چہ اس طرح کے فیصلے کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور تقدیر کے مطابق انسان پر پیش آنے والے احوال میں دعا ، صدقہ خیرات اثرانداز ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (مرقاة المفاتیح، کتاب الدعوات7/123)

تو میرے دوستو! ہمارا مذہب، ہمارا دین اس کی تعلیم دیتا ہے کہ مواقع چاہے کیسے ہی ہوں، وہ صحت کے معاملات ہوں یا مرض کے معاملات ہوں، زندگی کے معاملات ہوں یا موت کے معاملات ہوں، دنیا کے معاملات ہوں یا آخرت کے معاملات ہوں، آپ کو قدم قدم پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر طاعون کہیں پھیل جائے، جو کہ وبائی بیماری ہے، تو جو جہاں ہے وہ وہاں سے نہ جائے اور جو باہر ہیں وہ اندر نہ آئیں۔

عن أسامة قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان ھذا الطاعون رجز سلط علی من کان قبلکم أو علی بنی اسرائیل، فإذا کان بأرض فلا تخرجوا منھا فراراً منہ وإذا کان بأرض فلا تدخلوھا․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الطب، باب الطاعون، رقم الحدیث:5774، والسنن الکبری للبیہقي، کتاب الجنائز، باب الوباء یقع بأرض فلا یخرجہ فراراً منہ ، رقم:6797، والمعجم الکبیر للطبراني، رقم الحدیث:403، وسنن الترمذي، کتاب الجنائز، باب کراھیة الفرار من الطاعون، رقم:1065)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے، جو تم سے پہلے لوگوں اور بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تھا، لہٰذا جب کسی جگہ پر طاعون واقع ہو تو اس سے بھاگ کر نہ نکلو اور جب کسی ملک میں طاعون ہو تو وہاں مت جاؤ۔

بلکہ ایسی جگہ سے جہاں طاعون وغیرہ وبائی امراض پھیلی ہوئی ہوں اس جگہ سے موت کے ڈر سے بھاگنا جائز نہیں۔

چناں چہ حدیث میں ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الفار من الطاعون کالفار من الزحف․ طاعون سے بھاگنے والا ایسا ہے جیسے جہاد سے بھاگنے والا۔ (مسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:14478، والمعجم الأوسط، رقم الحدیث:3193)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ الله”اشعة اللمعات في شرح المشکوٰة“ میں فرماتے ہیں: وازیں حدیث معلوم شد کہ گریختن از طاعون گناہ کبیرہ است، چنانکہ فرار از زحف واگر اعتقاکند کہ اگر نگریزد البتہ می میرد واگر بگر یزد بسلامت می ماندآں خود کفراست۔(اشعة اللمعات، کتاب الجنائز، باب عیادة المریض:1/653) یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاعون سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے، جس طرح جنگ سے بھاگنا او راگر یہ اعتقاد ہو کہ نہ بھاگے گا تو البتہ مر جائے گا او راگر بھاگے گا تو ضرور سلامت رہے گا …یہ عقیدہ بجائے خود کفر ہے۔

البتہ اگر کسی کا عقیدہ پختہ ہو کہ الله کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، تو ایسے شخص کے لیے طاعون والی جگہ سے نکلنایا طاعون والی بستی میں جانا جائز ہے ۔ (درمختار مع رد المحتار، مسائل شتی:5/661)

اور اگر کوئی طاعون کی بیماری میں مرجائے تو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ شہادت کی موت مرے گا، اس کو شہادت کی موت حاصل ہوگی۔

میرے دوستو! اسی طرح اس طرح کی وبائی بیماری کے اندر بھی اگر الله تعالیٰ کا فیصلہ اور الله تعالیٰ کے ہاں لکھا ہوا ہے کہ موت آئے گی تو الله تعالیٰ شہادت کی موت عطا فرمائیں گے۔

آج مسلم معاشرے میں بھی اسی طرح کی وبائیں او رمصیبتیں آتی ہیں، تو نہ صرف یہ کہ اس طرف توجہ اور دھیان نہیں ہوتا کہ یہ ہماری نافرمانیوں کا نتیجہ ہے اور توبہ استغفار کیا جائے، بلکہ ایک بڑا آزاد خیال طبقہ اس طرح کی چیزوں کو عذاب ہی نہیں گردانتا۔

حالاں کہ حدیث میں صاف آیا ہے کہ اس طرح کی وبائیں نافرمانیوں کا نتیجہ ہیں۔

عن عبدالله بن عمر رضي الله عنہما قال: أقبل علینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: یا معشر المہاجرین، اذا ابتلیتم بھن وأعوذ بالله أن تدرکوھن․ لم تظھر الفاحشة في قوم قط حتی یعلنوا بھا إلا فشا فیھم الطاعون والأوجاع التي لم تکن مضت في أسلافھم الذین مضوا… إلخ

یعنی جس قوم میں علانیہ بد کاری ظاہر ہوتی ہے تو ان لوگوں میں طاعون اور ایسی ایسی نئی بیماریاں پھیلتی ہیں، جوان سے پہلے لوگوں میں ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، رقم الحدیث:4019، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن، رقم الحدیث:8623،4/583)

البتہ طاعون او راس طرح کے امراض کفار، فساق کے لیے تو عذاب ہیں، لیکن مومنین، نیک لوگوں کے لیے رحمت ہیں۔

چناں چہ حدیث میں ہے:
عن عائشة رضی الله عنہا زوج النبي صلی الله علیہ وسلم قالت: سألت رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن الطاعون، فأخبرني أنہ عذاب یبعثہ الله علی من یشاء، وأن الله جعلہ رحمة للمومنین، لیس من أحد یقع الطاعون فیمکث في بلدہ صابرا محتسبا یعلم أنہ لا یصیبہ، إلا ماکتب الله لہ، إلا کان لہ مثل أجر شہید․

حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ ایک عذاب ہے، الله تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے او ربے شک الله تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے ، اگر کسی بستی میں طاعون پھیل جائے اور کوئی شخص اپنی بستی میں صبر کرکے ثواب کی امید پر ٹھہرا رہے اور یقین کرے کہ اسے وہی پہنچے گا جو الله نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب احادیث الانبیاء، رقم الحدیث:3474)، مسند احمد، رقم الحدیث:24358)

ایسے ہی ایک گزارش یہ ہے کہ اپنے اوپر خوف وہراس مسلط نہ کریں ، یہ سب الله کے فیصلے ہیں ۔ یہ جو آج کل کا میڈیا ہے، اس کی وجہ سے ہر آدمی ایک خوف اوردہشت کے اندر ہے، اسی کا تذکرہ ہے ہر وقت۔ نہیں، بلکہ نمازوں کی طرف رجوع ہوں۔ نماز کا، تلاوت کا، دعاؤں کا، صدقہ خیرات کا اہتمام کریں۔

آخر میں ایک گزارش یہ بھی ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے کہ اس ا طرح کے مواقع پر جو لوگ تجارت سے تعلق رکھتے ہیں اور دکانوں اور بازاروں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں تو یہ بھی بہت بڑا جرم ہے اسلام کے اندر ، الله تعالیٰ کی لعنت ہے ایسے لوگوں کے اوپر جو ایسے مواقع کے اوپر ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من احتکر فھو خاطیٴ․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جوتاجراحتکار (ذخیرہ اندوزی یعنی غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لیے محفوظ رکھے) وہ خطا کار، گناہ گار ہے۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البیوع، باب تحریم الاحتکار في الأقوات، رقم:4122، ومسند الإمام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:8617، والسنن الکبری للبیہقي، کتاب البیوع، باب ماجاء في الاحتکار، رقم الحدیث:11478)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:عن عمر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الجالب مرزوق، والمحتکر ملعون․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جالب ( یعنی غلہ وغیرہ باہر سے لا کر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے ، ( یعنی الله تعالیٰ اس کے رزق کا کفیل ہے) اور محتکر (یعنی مہنگائی کے لیے ذخیرہ اندوزی کرنے والا ) ملعون ہے ۔ (یعنی الله کی طرف سے پھٹکارا ہوا او راس کی رحمت وبرکت سے محروم ہے۔) (شعب الإیمان للبیہقي، فصل في ترک الاحتکار، رقم الحدیث:11213، والمصنف لعبد الرزاق، باب الحکرة، رقم الحدیث:14894، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، رقم الحدیث:2164)

ذخیرہ اندوزی کی صورتیں
پہلی صورت… جو ممنوع اور حرام ہے، وہ یہ کہ انسان غلہ پھل وغیرہ کھانے پینے کی چیزیں خرید کر ذخیرہ کرے اور اس کے ذخیرہ کرنے کی وجہ سے وہ چیز بازار میں کم ہوجاتی ہو یا وہ پہلے سے کم ہو اور یہ اس نیت سے ذخیرہ کرتا ہے کہ جب لوگ قحط ، تنگییاقلت کاشکار ہو جائیں گے تو اس وقت اپنی ذخیرہ کی ہوئی چیزیں مہنگے داموں فروخت کرنے کے لیے بازار میں لائے گا، تو ایسی ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے۔

دوسری صورت… دوسری صورت یہ ہے کہ بازار میں اس چیز کی فروانی ہو اور لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلت کا سامنا نہ ہو اورنہ اس کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے لوگ تنگی کا شکار ہوتے ہوں، تو ایسی صورت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، لیکن اس صورت میں بھی یہ نیت نہ ہو کہ جب لوگ قحط اور تنگی میں مبتلا ہوں گے، تب میں یہ چیز مہنگے داموں فروخت کروں گا۔

تیسری صورت… تیسری صورت یہ ہے کہ اپنی زمین کا غلہ پھل وغیرہ کوئی ذخیرہ کرتا ہے اور فروخت نہیں کرتا تو یہ جائز ہے۔

لیکن اس صورت میں بھی اگر کوئی اپنی زمین کا غلہ اپنی ضرورت سے زائد اس نیت سے اپنے پاس روکے رکھتا ہے کہ جب لوگ قحط او رتنگی میں مبتلا ہوں گے تب فروخت کروں گا، تو اس نیت کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: البحرالرائق، کتاب الکراھیة، فصل في البیع8/370، وفتح القدیر، کتاب الکراھیة، فصل في البیع:10/69، وتبیین الحقائق، کتاب الکراھیة، فصل في البیع:5/282، والمحیط البرھاني، کتاب البیوع، فصل في الاحتکار:8/266، الفتاوی العالمکیریہ، کتاب البیوع، الباب العشرون:3/213 و شرح مختصر الطحاوی، کتاب الکراھیة، حکم الاحتکار:8/546)

رزق الله تعالیٰ دیتے ہیں، نفع اور نقصان الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں اس طرح کرکے شاید زیادہ کمالوں گا، ایسا نہیں ہے، کوئی ایسی مصیبت آسکتی ہے کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور سب کچھ برباد ہو جائے گا، الله تعالیٰ اس وقت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور الله تعالیٰ سب کو عافیت اور خیریت عطا فرمائے۔

ایسے مواقع پر توکوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خلق خدا کی خدمت کریں، ہم ان کے لیے نفع رساں بنیں، نہ یہ کہ ہم ان کو تکلیف پہنچائیں۔

آخر میں ایک اور گزارش یہ ہے کہ یہ معاملہ بنی آدم کا ہے۔ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، ہمیں تمام بنی آدم کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ الله تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے اور بالخصوص محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پوری امت کی حفاظت فرمائے۔

الله تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی مبارک، تابندہ اور بہترین تعلیمات پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔