نیکی سے امید اور بدی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے

نیکی سے امید اور بدی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ

اس لیے کہ نیکی کرنے سے اُمید پیدا ہوتی ہے، بدی کرنے سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ جو ملازم ہمیشہ نالائقیاں کرتا ہے، اسے مایوسی ہوتی ہے کہ مجھے نہیں ملنا ملانا، بس آقا کی طرف سے جو تیاں پڑیں گی اور جو کام عمدہ کرتا ہے، اسے تمنا رہتی ہے کاش! میرے سے کوئی پوچھے ، تونے کیا کام کیا؟ تاکہ میں بتا سکوں کہ میں نے یہ کیا یہ کیا، مجھے انعام ملے گا، تنخواہ بڑھے گی، مالک کے دل میں میری قدر بڑھے گی تو نیکی کرنے سے اُمیدیں بندھتی ہیں۔ حق تعالیٰ سے ملنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے اوربَدی کرنے سے مایوسی پیدا ہوتی ہے، گھٹن پیدا ہوتی ہے ،الله کے سامنے جانے کو جی نہیں چاہتا، نیک آدمی تمنا میں رہتا ہے کہ کب موت آئے او رمجھے بدلے ملیں اوربد آدمی مایوس ہوتا ہے کہ کسی طرح سے موت نہ آئے، اسے مرنا بھی موت ہو جاتا ہے۔

اسی واسطے کفار کے بارے میں فرمایا گیا، چوں کہ انہیں مایوسی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ کفر میں مبتلا ہیں، آخرت کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس لیے انہیں مرنا بھی بھاری ہے :﴿وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَیٰ حَیَاةٍ﴾ تم ان کو اس زندگی کے اوپر انتہائی حریص پاؤگے، اگر ان کی عمر پچاس برس کی ہو تو وہ چاہیں گے ساٹھ برس کی ہو جائے، دنیا سے ٹلنے کا نام نہیں لیں گے:﴿ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ (بقرہ:96) ۔ یہودی اور جو شرک میں مبتلا ہیں وہ اس تمنا میں ہیں کہ کاش! ایک ہزار برس کی عمر مل جائے، وہ مل جائے تو چاہیں گے کہ ایک ہزار کی اور مل جائے، وہ دنیا سے ٹلنا چاہتے ہی نہیں۔ اس لیے کہ آئندہ انہیں کوئی توقع نہیں، مایوسیاں اور ظلمتیں ان کے سامنے ہیں، مستقبل ان کا تاریک ہے۔

اور نیک آدمی مؤمن تو اس کے بارے میں ہے، دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا، یہود نے کہا تھا ہم اولیاء الله ہیں تو فرمایا:﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ ہَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء ُ لِلَّہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ ﴾ (سورہ جمعہ آیت:6)

اے یہود! اگر تم اولیاء الله ہو او رتم الله کے دوست ہو تو ذرا موت کی تمنا کرکے دکھلاؤ ، ولی کو تو تمنا ہوتی ہے کہ کب میں اس دنیا کو چھوڑ وں اوراپنے پرورد گار کے پاس جاؤں۔ تم اگر واقعی ولی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرکے دکھلاؤ، حالاں کہ تمہاری کیفیت یہ ہے کہ موت کے نام سے تمہیں بخار چڑھتا ہے، تم یہ چاہتے ہو کہ بس دنیا سے کسی طرح ٹلیں ہی نہ او رایک ولی کامل کہتا ہے کہ یا الله! کب وہ دن آئے کہ اس اجڑے دیار کو ہم چھوڑ کر پاک وطن میں پہنچیں گے #
        خرم آں روز کزیں منزل ویراں برویم
        راحت جان طلبیم وزپے جاناں برویم
        نذر کردم کہ گر آید بسر ایں غم روزے
        تا درِ میکدہ شاداں وغزل خواں برویم

وہ کہتے ہیں کہ وہ کیسا مبارک دن ہو گا کہ اس اجڑی ہوئی بستی کو چھوڑ کر ہم اس پاک وطن میں پہنچیں گے، غزل خواں وفرحاں وشاداں اور الله کے گن گاتے ہوئے الله کے ہاں آخرت میں پہنچیں گے تو ولایت کا خاصہ یہ ہے کہ مرنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے او ربد ی کا خاصہ یہ ہے کہ مایوسی بڑھتی ہے، خدا سے ملنے کو جی نہیں چاہتا۔

اس واسطے فرمایا مشرکین کو حیات دنیوی پر زیادہ حریص پاؤ گے۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی نیکی بڑھتی جائے گی انسان کے لیے مرنا خوش گوار ہوتا جائے گا۔

یہ جو بعض اوقات ہماری کیفیت ہوتی ہے، ذرا سا بیمار ہوئے اورگمان ہوا کہ موت آئی تو بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں کہ کچھ کرو، کوئی تعویذ کرو، ایسا نہ ہو کہ ٹل جائیں، مرنا جینا یہ تو الله کے اختیار میں ہے، مگر انسان اتنا گھبرا جائے، خدا جانے کیا ہو جائے گا؟! ایک صالح او رنیک بندے کے لیے تو خوشی کا مقام ہے کہ زندہ ہوں تو روزہ ، نماز، طاعت وعبادت وغیرہ کا عمل نصیب ہو گا او راگر مر گیا تو الله کی ملاقات نصیب ہو گی، اس سے بہتر کیا چیز ہو گی، تو زندگی بھی خوش گوار، مرنا بھی خوش گوار۔

حضرت بلال رضی الله عنہ کی وفات کا جب وقت آیا تو چہرہ کھلا ہوا ہے، خوشی اور مسرت میں ڈوبے ہوئے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ! نزع کی تکلیف ہو رہی ہے اور خوشی ایسی جیسے معلوم ہوا کہ شادی ہونے والی ہے !! فرمایا غداً نلقی محمداً و أصحابہ

پس عنقریب محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے ملاقات ہونے والی ہے۔ اسی خوشی میں جان دے رہے ہیں کہ اب وقت قریب ہے۔

حضرت عثمان رضی الله عنہ شہادت کے وقت خوش ہیں، روزے سے ہیں، فرمایا بس عنقریب افطار آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جا کر کرنا ہے، چند منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ کیفیت نیکی اور تقویٰ وطہارت سے پیدا ہوتی ہے کہ موت خوش گوار بن جاتی ہے ،بلکہ تمنا پیدا ہو جاتی ہے، بہرحال روز کے روز اگر محاسبہ کر لیا جائے اور اپنی نیکیوں کو شکر کے راستے سے بڑھایا جائے اور بدیوں کو توبہ کے راستے سے ختم کر دیا جائے، تو موت خوش گوار ہو جائے گی، اگر تصور بندھے گا کہ موت آنے والی ہے تو گھبراہٹ نہیں پیدا ہو گی۔ یہ کہے گا یا الله! اگر میں زندہ رہوں ، تب بھی تیرا ہوں، مروں تب بھی تیرا ہوں۔ یہاں تونے زمین کی سطح پہ رکھ رکھا ہے، وہاں زمین کی تہہ میں۔ عالم دونوں تیرے ہی ہیں۔ اس لیے تیرے ہی پاس رہوں گا، مجھے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مجلس میں قبر کے ہول ناک حالات ارشاد فرمائے کہ منکر نکیر اس ڈراؤنی شکل میں آئیں گے، قبر میں یوں تاریک او راندھیرا ہو گا، مصیبت ناک صورتیں سامنے آئیں گی، حضرت عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )! اس وقت ہماری عقل بھی درست ہوگی؟ فرمایا عقل تو رہے گی، کہااب کوئی فکر کی بات نہیں، ہوتا رہے گا جو کچھ ہو گا، منکرنکیر سے نمٹ لیں گے، تو عقل سے مراد مادی عقل نہیں تھی، جس سے ہوائی جہاز او رموٹر تیار کیے جاتے ہیں، عقل سے مراد عقل ایمانی تھی، یعنی ہمارا علم، معرفت، بصیرت، توکل علی الله اور ایمانی قوت قائم رہے گی؟ فرمایا رہے گی، عرض کیا اب کوئی فکر نہیں، منکر نکیر کسی صورت میں آجائیں وہ بھی الله کی مخلوق، ہم بھی الله کی مخلوق، ڈرنے کی کیا ضرورت ؟ الله میاں سامنے ہے، جس سے ہم ڈر رہے ہیں، جو الله سے ڈر گیا، وہ پھر کسی سے بھی نہیں ڈرے گا، یہ تو کل تام اور عمل صالح کی برکت ہے، کہ موت کی فکر، نہ اس کے ہولناک مناظرکی فکر، بس الله پر بھروسہ ہے جب وہ چاہیں گے لے جائیں گے، ہم تو ان کے زیر سایہ ہیں، ہمیں ڈرنے کی کیا ضرروت ہے؟!

جو بادشاہ کا ملازم ہے، مصاحب خاص ہو اور ہر وقت پاس رہتا ہو اسے کوئی غم نہیں ہوتا، جب بادشاہ سفر کریں گے تو میں ان کے ساتھ اورجب اپنے محل سرائے میں ہوں گے تو میں ان کے ساتھ ہوں، میرا حلوہ مانڈہ ہر وقت صحیح ہے اور ہر وقت کی عیش ہے، میں سفر میں بھی ساتھ، حضر میں بھی ساتھ، مجھے فکر کی کیا ضرورت ؟ یہی شان مؤمن کی بھی ہے کہ سفرمیں دنیا کے مسافر خانے میں ہو، تب بھی تکلیف نہیں کہ مالک کی نگاہ کے نیچے ہے اورمنزل مقصود پر پہنچ جائے، تب تو راحت ہی راحت ہے ،وہاں پہنچ گئے جس کے لیے سب محنتیں کیں۔ یہ سب چیزیں عمل سے بنتی ہیں۔ اس لیے فرمایا۔

﴿وَ قُلِ اعْمَلُوا﴾ اے نبی کریم (صلی الله علیہ وسلم)! اپنی امت سے فرما دیجیے کہ اے لوگو! عمل کرو، اس لیے کہ عمل اکارت نہیں جائے گا، سامنے آئے گا،﴿فَسَیَرَی اللَّہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُولُہُ وَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ اور قریب وقت آرہا ہے کہ تم سب کے سب الله کے پاس پہنچائے جاؤ گے، جو غیب وشہادت کا جاننے والا ہے۔ کوئی ادنیٰ چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور یہی نہیں کہ محض جانتا ہی ہے، بلکہ ﴿وَ سَتُرَدُّونَ إِلی عالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہادَةِ﴾(توبہ، آیت:105) وہ جتلائے گا کہ تم نے یہ یہ کرتو تیں کی تھیں، اگر نیکی کی ہے توجتلائیں گے کہ تم بڑے اعلیٰ لوگ ہو، بڑی اعلیٰ کار کردگی دکھلائی، برائیاں کی ہیں تو یہ جتلایا جائے گا کہ یہ تمہارے کرتوت ہیں تو وہ خبر دے دیں گے کہ ہاں! تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ چیزیں کی تھیں۔