نماز کی سنتیں .. اہمیت وفضیلت

نماز کی سنتیں .. اہمیت وفضیلت

مولانا عبدالقوی ذکی حسامی

عقیدہ توحید کے بعد سب سے اہم ترین فریضہ: نماز ہے، بے شمار آیات وروایات ، اس حکم کی فرضیت کے متعلق کتاب وسنت میں مذکور ہیں، الله سے قرب کا آسان اور قریب ترین راستہ ہے:
”أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد“… بندہ اپنے پرودگار سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے۔(ابو داوٴد)

نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس فریضہ کے آنے پر عید جیسی خوشی منائی، یہ فریضہ نماز کسی بیماری اور مجبوری میں معاف نہیں ہے، نیز احادیث مبارکہ میں فرائض کے علاوہ دیگر نمازوں کی ترغیب دی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلہ میں متواتر عمل بھی ثابت ہے، اصطلاح شرع میں ان نمازوں کو نوافل کہا گیا ہے؛ تاہم جن نمازوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کے ساتھ ادا فرمایا، انہیں سنت موکدہ کہا جاتا ہے، نماز سے پہلے اور بعد کی جو سنتیں ہیں ان کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سنتوں کو نہایت اہتمام سے ادا فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ آگے آئے گا، عام طور پر جو کوتاہی اور لا پرواہی اس حوالہ سے بر تی جارہی ہے، وہ بہت ہی تکلیف دہ ہے ، بالخصوص نوجوان طبقہ اس کا زیادہ شکار ہے، اس باب میں ہر نماز کے سنن سے متعلق مستقل فضائل ہیں، مجموعی لحاظ سے بھی ان سنن کی فضیلت آئی ہے، جو ہمیں عمل پرا بھارنے کے لیے کافی ہے؛ چنانچہ جو بندہ دن میں بارہ رکعتیں اہتمام سے ادا کرتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک محل اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو دیا جائے گا:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلیٰ في یوم ولیلة ثنتی عشر رکعة بني لہ بیت في الجنة․(ترمذی)وہ کون سی بارہ رکعتیں ہیں؟ دو فجر سے پہلے کی ،چارظہر سے قبل اور دو بعد ظہرکے، دو مغرب کے بعد کی اور عشاء کے بعد کی دورکعتیں ۔ ان میں سے ہر نماز کی سنتوں کی علیحدہ فضیلت ہے، جس کا عملاً التزام ہم پر ضروری ہے۔

فجر کی سنتوں کے متعلق فضائل
دن کے آغاز میں جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ فجر کہلائی جاتی ہے، اس کی سنتوں کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے جامع فضائل مسطور ہیں:”قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: لاتدعو ھما وإن طردتکم الخیل۔“(ابو داوٴد ، بروایت ابو ہریرہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دو رکعت سنت نہ چھوڑو، اگر چہ تمہاری یہ حالت ہو کہ گھوڑے تم کو دوڑا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ تم کہیں سفر پر تیزی سے جارہے ہو اور گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو تب بھی اس سنت کو ترک نہ کرو ، ایک مقام پر سنت فجر کی فضیلت یوں بیان فرمائی:
”لم یکن النبي علی شيء من النوافل أشد تعاھدا منہ علی رکعتي الفجر․“(بخاری ومسلم، بحوالہ مشکوة، بروایت عائشہ )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سب سے زیادہ فجر کی دو رکعت سنت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ سنتوں میں سے کسی سنت کی قضا نہیں ہے؛ مگر فجر کی سنت کی قضا ایک روایت سے ثابت ہے:
”من لم یصل رکعتي الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس۔“(ترمذی، معارف الحدیث، راوی ابو ہریرہ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہیے وہ سورج نکلنے کے بعد ادا کرے۔ ان روایات کی روشنی میں حضرت حسن بصری کے نزدیک اور امام ابو حنیفہ کے ایک قول کے مطابق فجر کی سنت واجب ہے۔(تحفہ القاری ، محدث پالن پوری)

علاوہ ازیں یہ حکم بھی فجر کی سنت کے ساتھ خاص ہے کہ جب کوئی آدمی نماز فجر کے لیے مسجد میں داخل ہو اور فرض نماز شروع ہوچکی ہو، اس نو وارد کو یہ گمان غالب ہو کہ اس کو کم از کم دوسری رکعت یا قعدہ اخیرہ مل جائے گا، تو اس کو چاہیے کہ اول سنت ادا کرے، پھر نماز میں شامل ہوجائے:
”وإذا خاف فوت رکعتي الفجر لاشتغالہ بسنتھا ترکھا لکون الجماعة أکمل وإلا بأن رجا أدرک رکعة في ظاھر المذھب․“(رد المحتار مع الدر المختار)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوئے، نماز شروع ہوچکی تھی تو آپ نے پہلے سنت ادا کی، پھر جماعت میں شامل ہوئے۔ (شرح معانی الآثار)

”انہ دخل المسجد والإمام في الصلاة فصلیٰ رکعتی الفجر۔“ان روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک فجر کی سنت کی کس قدر اہمیت تھی اور انہوں نے اس سنت کا کس طرح اہتمام کیا۔

ظہر کی سنتوں کے متعلق فضائل
زوال شمس کے بعد پڑھی جانے والی نماز ظہر کہلاتی ہے، اس کی سنت کے فضائل بھی قریب قریب فجر کی سنت کے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو ان سنتوں کی حفاظت کرے گا، (یعنی روزانہ ادا کرے گا) اللہ اس کو دوزخ کی آگ پر حرام کردے گا۔:”من حافظ علی أربع رکعات قبل الظھر وأربع بعدھا حرمہ اللہ علی النار․“(ترمذی ، ابو داوٴد ، ابن ماجہ، بروایت ام حبیبہ)

صاحب معارف الحدیث  اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے بعدظہر دو رکعت پڑھنا زیادہ ثابت ہے، جو کہ سنت موکدہ کہلائی جاتی ہیں، البتہ چار رکعتوں کی صورت یہ ہوگی کہ دو سنت موکدہ اور دو نفل۔(معارف الحدیث)

ایک دوسری روایت کا یہ مضمون آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں جن کے درمیان سلام نہ پھیرا جائے، ان کے لیے آسمان کے دروازے (یعنی جنت کے دروازے) کھل جاتے ہیں۔(سنن ابو داوٴد، ابن ماجہ، راوی ابو ایوب الانصاری )

قال النبي صلی الله علیہ وسلم أربع قبل الظہر لیس فیھن تسلیم تفتح لھن أبواب السماء․

عصر کی سنتوں کے فضائل
نماز عصر جو دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے، اس نماز کی سنت کے سلسلہ میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترغیبی ارشاد ملتا ہے، جس کا اہتمام کرنے پر بندہ مستحق ثواب ہوتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”رحم اللہ امرأً صلیٰ قبل العصر أربعاً․“(مسند احمد بحوالہ معارف الحدیث ، راوی ابن عمر )اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے ، اگر چہ اس سنت کا حکم کوئی تاکیدی نہیں ہے، مگرطالب آخرت کے لیے اعمال صالحہ بہترین سرمایہ ہے، جو اسی دنیا میں وہ کرسکتا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عصر سے پہلے دو گانہ نماز ادا فرمانا بھی ثابت ہے؛”کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یصلي قبل العصر رکعتین“(ابو داوٴد، مشکاة، بروایت حضرت علی)چوں کہ یہ سنت،سنت غیر موکدہ ہے، اس سلسلہ میں اس سنت کا حکم یہ ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو ثواب اور نہ پڑھنے والے کو کوئی گناہ نہیں؛ البتہ سنت موکدہ باصرار چھوڑنے والا گنہگار ہوگا، اگر ہم ایسے وقت مسجد پہنچیں اور کچھ وقت جماعت کے لیے باقی ہو، تو بجائے قیل وقال کے دو یا چار رکعت پڑھ کر اس فضیلت کو حاصل کریں۔ جیسا کہ روایات سے معلوم ہوا۔

مغرب کی سنتوں کے فضائل
نماز مغرب غروب آفتاب کے فوراً بعد پڑھی جاتی ہے، اس کی سنتوں کی بھی بڑی فضیلت احادیث میں واضح طور پر آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو بندہ مغرب کے بعد چھ رکعت سنت پڑھے، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے، اگر چہ سمندر کے کف کے برابر ہوں:
”قال علیہ الصلوٰة والسلام: من صلیٰ بعد المغرب ست رکعات غفرت لہ ذنوبہ وإن کانت مثل زبد البحر۔“(طبرانی)

اللہ کی رحمت اپنے بندوں پر کس طرح مہرباں ہے، ذرا سی کوشش سے بندہ اپنی ڈھیر سارے گناہ بخشوالے اور پاک ہو جائے، درحقیقت یہ فضائل ہمارے لیے ہیں، دن رات آدمی اللہ کی کتنی نافرمانی کرتا ہے،پھر بھی اللہ ہمارے لیے بخشش کے دروازے کھولے ہوئے ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے بعد نماز مغرب بات کرنے سے پہلے دو یا چار رکعات نماز پڑھی، اللہ اس کی نماز کو جنت کے اعلیٰ مقام علیین تک اٹھائے گا۔

”قال النبي صلی الله علیہ وسلم: من صلیٰ بعد المغرب قبل أن یتکلم رکعتین․․․․وفی روایة: أربع رکعات رفعت صلاتہ في علیین․“(مشکوٰة)

مطلب یہ ہے کہ اس کے اس عمل کو ساتویں آسمان تک اٹھایاجائے گا، ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ بنے گا:”وأقربھا من اللہ في الآخرة․“ (باب السنن وفضلھا، ص892لمعات شرح مشکوٰة)

عشا کی سنتوں کے فضائل
دن کی آخری نماز عشا کی نماز ہے، اس کے سنن کا اہتمام بھی نبی علیہ الصلوٰة والسلام سے ثابت ہے،حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے گھر میں عشاء کے بعد دو رکعت نماز پڑھی۔

”صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ․․․․الخ ورکعتین بعد العشاء في بیتہ․“(بخاری ومسلم)

اور ابو داوٴد کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لاتے چار یا چھ رکعات ضرور ادا فرماتے:
”قالت: ما صلیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم العشاء قط فدخل علي إلا أربع رکعات أو ست رکعات․“ (ابوداوٴد ، معارف الحدیث، بروایت عائشہ)

اس حدیث کے ذیل میں محدثین فرماتے ہیں کہ جمہور ائمہ کے نزدیک تو وہی دو رکعت سنت موکدہ ہیں جو ابن عمر کی روایت سے منقول ہے، البتہ ان دو رکعت کے علاوہ آرام فرمانے سے پہلے مزید دو یا چار رکعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔ ان فضائل کے ہوتے ہوئے بھی سنتوں کے سلسلہ میں اگر ہمارا معاملہ کو تاہی والا ہے تو سمجھو بہت بڑی محرومی ہم اپنے سر لے رہے ہیں، جس کا اندازہ ہمیں کل قیامت میں ہوگا.