ندامت کے دو آنسو اور رحمت الہٰی کی وُسعت

ندامت کے دو آنسو اور رحمت الہٰی کی وُسعت

محترم سجاد سعدی

الله کا کوئی ایسا بندہ نہیں کہ جس کے دل ودماغ دنیا کی ہمہ ہمی ، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں او رپھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں، جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت ، شرمندگی اور الله کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے، وہ اپنے کو مجرم ، خطا وار سمجھ کر آئندہ کے لییتوبہ کرتا ہے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور وہ الله کی نظر میں اتنا محبوب اورپیارا انسان ہو جاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ واستغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی نہیں بلکہ الله تعالیٰ کی خاص عنایت ومحبت اور اس کے پیار کی بشارت بھی سنائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ان الله یحب التوابین ویحب المتطھرین﴾․ بے شک الله محبت کرتا ہے توبہ کرنے والوں سے او رمحبت کرتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے ۔ (البقرہ)

غلطی اور گناہ کا احساس او رپھر گریہ وزاری الله کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے ،گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اورالله کی عظمت کا اعتراف کر لیا اور یہی وہ تصور ہے کہ جس کے استحکام پر الله تعالیٰ نے اپنے قرب، بڑی نعمتوں او ررحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھو جائے اور وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے سو جائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے۔ (صحیح مسلم)

ظاہر ہے اگر کوئی سوار تنہا جنگل میں سفر کر رہا ہو اور راستہ بھر کے لیے کھانے، پینے کا سامان بھی اس جانور پر لدا ہوا ہو اور پھر وہ سفر کے دوران کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کی نیت سے سو گیا، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری کا جانور اپنے سارے ساز وسامان کے ساتھ غائب ہے تو اسے بہت سخت تکلیف ہوگی اور پریشانی کی شدت سے دو چار ہو کر موت کی تمنا کرے گا ،لیکن جب کچھ دیر کے بعد اسے سواری اور اس کے ساتھ تمام سامان مل جائے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہے گی اور وہ رقص وسرور کے عالم ِ کیف میں غرق ہو جائے گا، اسی طرح جب جرم و گناہ کے بعد کوئی بندہ الله کی طرف رجوع کرتا ہے اور سچے دل سے توبہ کے ذریعے الله کا قرب چاہتا ہے تو الله تعالیٰ کو اس مایوس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے خطا کار بندہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے الله کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں، ایک آنسو کا قطرہ، جو الله کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو الله کے راستہ میں گرا ہوا۔ (مشکوٰة) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ الله کے نزدیک ندامت کا آنسو شہیدوں کے خون کی مانند اہمیت رکھتا ہے۔

علامہ آلوسی رحمہ الله نے تفسیروح المعانی میں سورة القدر کے ذیل میں ایک روایت نقل کی ہے ،جس سے گناہ گاروں کی ندامت اور شرمندگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہگناہ گاروں کا رونا، آہ وگریہ کرنا، گڑ گڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان الله کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله، الله کے نزدیک بندوں کی ندامت اور آنسوؤں کے اس قدر اہم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الله کی عظمت وجلالت ِشان کی جو بارگاہ ہے وہاں آنسو نہیں ہیں، اس لیے وہ ہمارے آنسوؤں کی بہت قدر کرتے ہیں، کیوں کہ آنسو تو گناہ گار بندوں کے نکلتے ہیں، فرشتے رونا نہیں جانتے ،کیوں کہ ان کے پاس ندامت نہیں ہے، ان کو قرب عبادت حاصل ہے، قرب ندامت حاصل نہیں، قرب ندامت تو ہم گناہ گاروں کو حاصل ہے ۔

گناہ اور قصور تو انسان کی صفت ہے، کیا اس کی وجہ سے الله کا دربار چھوڑ دیا جائے او رالله کا دربار چھوڑ کر جائے پناہ بھی کہاں ہے جس کا سہارا لیا جائے؟! اس لیے الله سے توبہ کریں او رندامت کے آنسو بہا کر الله سے معافی مانگیں، وہ یقینا معاف کرے گا اور خطاؤں کو بخشش دے گا۔

گناہ پر اصرار، یعنی بے فکری او ربے خوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اور اس پر قائم ودائم رہنا بڑی بدبختی او ربہت بُرے انجام کی نشانی ہے اورایسا عادی مجرم الله کی رحمت کا مستحق نہیں، اس لیے احادیث میں گناہ پر ندامت اور توبہ کی تاکید کی گئی ہے۔ اگرچہ بظاہر گناہ کا کوئی عمل معلوم نہ ہو، پھر بھی توبہ کیعادت بنا لینی چاہیے، اس لیے کہ توبہ عاصیوں اور گنہگاروں کے لیے مغفرت ورحمت کا ذریعہ اور مقربین ومعصومین کے لیے درجات قرب ومحبوبیت میں بے انتہا ترقی کا وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ایک دن میں ستر مرتبہ او رایک روایت کے مطابق سو مرتبہ توبہ واستغفار فرماتے تھے، اس میں صالحین اور نیکوکاروں کے لیے بڑی نصیحت اورعبرت مضمر ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی گناہ ہو گیا ہو اور یا د نہ ہو تو توبہ کے ذریعے وہ معاف ہو جائے گا او راگر واقعتا کوئی گناہ نہیں ہوا ہے تو ترقی کا ذریعہ ثابت ہو گا ،جس کا ہر شخص محتاج ہے۔

آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ستر مرتبہ توبہ واستغفار کے عمل سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی گناہ پرایک مرتبہ توبہ کرنے کے بعد پھر سے وہی گناہ ہوجائے تو پھر سے توبہ کر لی جائے، اس میں شرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک گناہ کابارہا ارتکاب ہو رہا ہے، بلکہ متعدد مرتبہ غلطیوں سے استغفار سے الله تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور اس توبہ واستغفار کے نتیجہ میں گناہ کو ترک کرنے کا داعیہ پیدا کر دیا جاتا ہے، بس جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ واستغفار کر لینی چاہیے، ناجانے کب زندگی کی شام پوری ہو جائے۔