نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تکریم کرنے والے درخت

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تکریم کرنے والے درخت

ڈاکٹر محمد نوید ازہر

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس جامع المعجزات ہے۔ انبیائے سابقین کو فرداً فرداً جو معجزے عطا کیے گئے، وہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے وجود مبارک میں جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بال بال معجزہ قرار پایا۔ ارشاد ربانی ہے: ”لوگو! بلاشبہ تمہارے پاس، تمہارے رب کی طرف سے، ایک سرتا پاروشن دلیل آئی۔“ (4/174)

آپ کے معجزات میں سے کئی جمادات، نباتات اور حیوانات سے متعلق ہیں۔ کنکریاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں تسبیح کرتیں۔ شجر وحجر آپ صلی الله علیہ وسلم پر سلام بھیجتے اور سجدہ کرتے۔ ہرنیاں آپ صلی الله علیہ وسلم کو ضامن تسلیم کرتیں ، اونٹ آپ سے افسانہ غم بیان کرتے۔ کتب احادیث وسیرت میں ایسے متعدد خوش نصیب درختوں کا ذکر بھی ملتا ہے ، جنہوں نے حضور اکرم صلی الله علیہ و سلم کی تعظیم وتکریم کی اور مقام نبوت کو پہچانا۔ کئی درخت آپ صلی الله علیہ وسلم کی پکار پر زمین کو چیرتے ہوئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اقرار نبوت صلی الله علیہ وسلم کی سعادت حاصل کی اور امام ابوحنیفہ نے اپنے نعتیہ قصیدہ میں اس معجزے کا ذکر یوں کیا ہے:

ترجمہ:” اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے درختوں کو بلایا تو وہ فرمان بردار بن کر ، دوڑتے ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر لبیک کہتے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے“۔

یہی مضمون امام شرف الدین بوصیری نے قصیدہ بردہ شریف میں یوں بیان کیا ہے: ان کی پکار پر اشجار، بغیر قدموں کے، اپنی پنڈلیوں پر چلتے ہوئے، ان کی طرف چل پڑے“۔

ان درختوں میں سے سب سے خوش نصیب درخت ”حنانہ“ ہے، جس کا ذکر بخاری شریف میں اجمالاً اور دیگر کئی کتب احادیث میں تفصیلاًمذکور ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ایک صحابی نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں رکھ دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت کا بنا ہوا وہ ستون، جس سے ٹیک لگا کر آپ صلی الله علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے، بلک بلک کر رونے لگا۔

اس کے نالہ وشیون میں اتنا درد تھا کہ مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام آبدیدہ ہو گئے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرماکر اس ستون کے پاس آئے اور اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرام سے فرمایا”یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسانہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔“

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پھر لکڑی کے اس تنے سے پوچھا ”کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے۔ وہاں تجھے ہر بھرا کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ قیامت تک مشرق ومغرب سے آنے والے ا لله کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟“

اس نے عرض کیا: ”اے پیکر رحمت صلی الله علیہ وسلم! میں تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی لمحائی جدائی برداشت نہ کرسکا، قیامت تک کی تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟“

آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا”کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبز وشاداب درخت بنا کر اُگا دوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟“

ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چناں چہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”اس نے دارفنا پر دار بقا کو ترجیح دی ہے۔ “ (بخاری شریف، کتاب الجمعہ، سنن دارمی) اس درخت کی یادگار کے طور پر اسی مقام پر ایک ستون استوانہ حنانہ کے نام سے مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں آج بھی موجود ہے۔

منقول ہے کہ جب حضرت حسن بصری یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے”اے ا لله کے بندو! لکڑی ہجر ِ رسول صلی الله علیہ وسلم میں روتی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے دیدار کا اشتیاق رکھتی ہے، انسان تو اس سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ فراق رسول صلی الله علیہ وسلم میں بے قرار رہے۔“

ادب رسول صلی الله علیہ وسلم بجالانے والا ایک ایسا ہی درخت طائف کے مقام پر تھا۔” شفاء شریف“ میں آیا ہے کہ غزوہٴ طائف میں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم غنودگی کی حالت میں تھوڑا سا چلے۔ سامنے ایک بیری کا درخت تھا۔ قریب تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر اقدس اس درخت سے ٹکرا جاتا۔ اچانک وہ پھٹ کردو ٹکڑے ہوا اور حضور صلی الله علیہ وسلم کو راستہ دے دیا۔ قاضی عیاض مالکی نے لکھا ہے، وہ سعادت مند درخت آج بھی دوتنوں پر اسی جگہ موجود ہے۔ اس کے شرفِ صحابیت کی وجہ سے وہ جگہ لوگوں میں مشہور ہے اور قابل تعظیم بھی۔ (شفا شریف، جلداول، باب چہارم)

ایسا ہی ایک خوش بخت اور سعادت منددرخت اُردن میں موجود ہے۔ اسے بھی تعظیم رسول صلی الله علیہ وسلم کے طفیل بقائے دوام حاصل ہوگئی۔ یہ درخت حجاز سے دمشق جانے والی قدیم تجارتی شاہ راہ پر استادہ خیر القرون کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ پوری شاہ راہ پر اس درخت کے علاوہ ایک پودا بھی پنپ نہیں سکا۔ لیکن اس صحابی درخت کو آب وہوا کی شدت اور موسموں کے تغیر وتبدل سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس درخت کا ذکر ترمذی شریف میں ابواب المناقب میں موجود ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک بارہ برس تھی ،جب جناب ابو طالب نے رؤسائے قریش کے ہم راہ تجارت کی غرض سے سفر شام کا عزم کیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا گیا۔ مورخین کے نزدیک یہ سفر 586ء میں ہوا۔ جب یہ قافلہ بیت المقدس کے شمال میں نزد دمشق ، تو ایک گھنے درخت کے قریب جناب ابو طالب سواری سے نیچے اترے۔ باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیر انتظام تھا۔ وہاں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔

راہب کا لقب بحیرا(Bahira) یعنی پارسا اور نام جرجیس(Georges) یاسر جیس تھا۔ بحیرا اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم اورکتاب مقدس کا درس دیا کرتا تھا۔ اسی باعث علاقے میں قدرو منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا۔ اس کے گرد تحصیل علم کرنے والے عیسائی علماء کا ہجوم رہتا۔ حضرت سلمان فارسی نے بھی قبل از اسلام اسی سے علم حاصل کیا تھا۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوة ، جلددوم میں لکھا ہے کہ بحیرا کے اس صومعہ میں مقیم ہونے کی وجہ اسی کی یہ تحقیق تھی کہ اُدھر سے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کا گزر ہو گا۔ چناں چہوہ حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو اپنی کھڑکی سے دیکھتا رہتا۔ مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کے لیے وہ سراپا انتظار تھا۔

بحیرا بلا کا تارک الدنیا اور گوشہ نشین تھا۔ کبھی گرجا سے باہر آتا تھا اور نہ ہی کبھی قافلے والوں سے ملاقات کرتا، لیکن اس مرتبہ وہ خلاف دستور قافلے پر نظریں جمائے گرجا کے دروازے پر کھڑا تھا۔ جب قافلے نے درخت کے نیچے پڑاؤ ڈالا تو وہ اہل مکہ کے قریب پہنچا اور حضو راکرم صلی الله علیہو سلم کا دست اقدس تھام کر لوگوں سے مخاطب ہو کر بآواز بلند کہنے لگا:

”یہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہیں۔ یہ رب العالمین کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں۔ الله انہیں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم بنا کر معبوث فرمائے گا۔ “ (ترمذی)

اہل قافلہ بحیرا کا یہ عمل دیکھ کر حیرت واستعجاب میں ڈوب گئے۔ روسائے قریش میں سے ایک نے پوچھا:”اے بزرگ ِ محترم! آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟“

اس نے جواب دیا: ”جب سبھی لوگ گھاٹی سے اتر کر آرہے تھے تو میں نے دیکھا کہ تمام درخت اور پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو مہر نبوت سے بھی پہچان سکتا ہوں۔“

بحیرا پھر صومعہ میں واپس چلا گیا ،تاکہ اہل قافلہ کے لیے ضیافت کا اہتمام کرسکے۔ جب وہ کھانا لے کر اہل قافلہ کے پاس پہنچا تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم اونٹ چرانے تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بلایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ایک بدلی آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر اقدس پر سایہ کناں تھی۔ جب گرجا کے قریب پہنچے تو اہل قافلہ درخت کے سائے میں بیٹھے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے از راہ ادب سب سے پیچھے بیٹھنا گوارا کیا، جہاں دھوپ تھی اور درخت کا سایہ ختم ہو جاتا تھا۔ فوراً درخت نے جھک کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے سراقدس پر سایہ کر دیا۔ البدایہ والنہایہ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بے تابانہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر اقدس پر جھک گئیں۔ یہ دیکھ کر راہب بے ساختہ پکار اٹھا ”دیکھو! درخت کا سایہ ان کی طرف جھک گیا ہے۔“

امام بیہقی نے اس واقعہ کو قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق بحیرا نے اہل قریش کو صومعہ کے اندر کھانے پر مدعو کیا۔تمام اہل قافلہ چلے گئے، جب کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نو عمری کے باعث اسی درخت کے نیچے تشریف فرما رہے۔ جب بحیرا کو حضور صلی الله علیہ وسلم قافلے میں نظر نہ آئے تو اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ چناں چہ ایک قریشی یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ لات وعزیٰ کی قسم ! ہمارے لیے لائق شرم ہے کہ ہم تو کھانا کھا لیں اور عبدالله بن عبدالمطلب کا فرزند رہ جائے۔ وہ پھر حضور صلی الله علیہ وسلم کو آغوش میں اٹھالایا۔

ابو نعیم نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم گرجا میں داخل ہوئے تو وہ نور نبوت سے چمک اٹھا۔ یہ دیکھ کر بحیرا کہنے لگا:”یہ الله تعالیٰ کے نبی ہیں،جنہیں الله عرب میں مبعوث فرمائے گا۔“ بحیرا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بغور دیکھتا او راپنی کتب میں مذکور علامات ِ نبوت کی شناخت کرتا رہا۔ جب قافلے والے کھانے سے فارغ ہو کر چلے گئے تو وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیا اور چند سوال وجواب کیے۔ بحیرا نے کہا:”بچے! میں تمہیں لات وعزیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے میرے سوالوں کے جواب دو۔“ اس نے لات وعزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا، کیوں کہ وہ اہل قافلہ کو ان کی قسمیں کھاتے ہوئے سن چکا تھا۔

حضو راکرم صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: ”آپ لات وعزیٰ کا نام لے کر مجھ سے کچھ نہ پوچھیں ۔ کیوں کہ مجھے ان سے جتنی نفرت ہے اتنی کسی اور سے نہیں۔“

بحیرا نے الله کا واسطہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اب جو مرضی ہے پوچھو۔“

بحیرانے پوچھا ”کہ کیا آپ صلی الله علیہ وسلم کی نیند پوری نہیں ہوتی؟“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”میری آنکھیں سو جاتی ہیں، مگر دل نہیں سوتا۔“

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے احوال اور دیگر امور کے بارے میں استفسار کیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اسے آگاہ فرمایا۔ تمام جوابات بحیرا کی معلومات کے مطابق تھے۔ پھر اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی پشت مبارک کی طرف دیکھا تو شانوں کے درمیان سیب سے مشابہ مہر نبوت دکھائی دی۔ تمام علامات کی تصدیق کرنے کے بعد بحیرا نے جناب ابو طالب کے پاس آکر پوچھا:”اس بچے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟“

انہوں نے جواب دیا:”میرا بیٹا ہے۔“

بحیرا نے کہا:” یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا۔ میرے علم کے مطابق بچے کے والد کو زندہ نہیں ہونا چاہیے۔“

ابو طالب نے کہا: ”آپ کی بات بالکل درست ہے۔ میں چچا ہوں“۔ بحیرا نے کہا: آپ کے بھتیجے کی بڑی شان ہو گی۔ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ آنکھ نبی کی آنکھ ہے۔“

اب بحیرا نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر بآواز بلند قسمیں کھا کھا کر لوگوں سے کہا کہ آپ کو اپنے ساتھ روم لے کر نہ جاؤ۔ رومی جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے پہچان کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی جان کے درپے ہوں گے۔ ابھی یہ گفت گو جاری تھی کہ دور ایک غباراڑتا ہوا نظرآیا۔ غور سے دیکھا تو روم کی جانب سے سات آدمی چلے آرہے تھے۔ بحیرا نے ان کا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا:”ہم اس لیے آئے ہیں کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم اس مہینے سفر پر نکلنے والے ہیں۔ ہمارے آدمی ہر راستے پر پھیل گئے ہیں۔ ہمیں خبر ملی کہ وہ اس راستے سے آرہے ہیں، لہٰذا ہم نے ادھر کا رخ کر لیا۔“

بحیرا نے ان سے کہا:”یہ بتاؤ کہ الله تعالیٰ جس معاملے کو تکمیل تک پہنچانا چاہے کیا کوئی آدمی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟“

انہوں نے انکار میں جواب دیا تو اس نے انہیں سمجھا یا کہ تمہیں چاہیے، نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لو اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھی بن جاؤ۔ چناں چہ وہ واپس چلے گئے۔ جناب ابو طالب حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ پلٹ آئے یا کسی کے ہم راہ واپس بھیج دیا #
        فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
        وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

قافلہ اس مقام سے روانہ ہو گیا، لیکن یہ ایمان افروز درخت آج بھی تروتازہ ہے۔ موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت مشرقی اردن میں، صفویٰ کے مقام پر، وادی سربان کے قریب واقع ہے۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی تجارتی شاہ راہ کے آثار بھی تلاش کر لیے ہیں۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ یہ سینکڑوں مربع کلو میٹر میں تنہا اُگا ہوا درخت ہے۔

انٹرنیٹ پر اس صحابی درخت کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے ”The Blessed Tree“ اور ”The only living Sahabi Tree“ کے عنوانات سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔

کتب سیرت میں سے سیرة حلبیہ، الخصائصالکبریٰ، المواہب اللدنیہ اور مدارج النبوہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ اگر ایک درخت کو حب رسول صلی الله علیہ وسلم کی بدولت حیات دائمی نصیب ہوسکتی ہے تو اس دل پر موت کیسے وارد ہوسکتی ہے جو محبت رسول صلی الله علیہ وسلم کا گنجینہ بن جائے؟