مومن کی شانِ صبر

مومن کی شانِ صبر

مولانا حافظ زبیر حسن

حضرت صہیب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” مومن بندہ کا معاملہ بھی عجیب ہے“ ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے او راگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبربھی اس کے لیے خیر ہی ہے۔“ (مسلم)

اس دنیا میں دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام وخوشی بھی، مٹھاس بھی ہے او رتلخی بھی، خوش گواری بھی ہے اور ناخوش گواری بھی، مومن کا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ الله تعالیٰ ہی کی طرف سے او راسی کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے ا لله تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے بندوں کا یہ حال ہونا چاہیے کہ جب کوئی دکھ اور مصیبت پیش آئے تو مایوسی کا شکار ہونے یا غلط طریقے سے اظہار غم کرنے کے بجائے، صبر سے کام لیں اور اس یقین کو دل میں تازہ رکھیں کہ یہ سب الله تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی دکھوں سے نجات دینے والا ہے۔ اس طرح جب مومن خوشی وشادمانی کے دور سے گزر رہا ہوتو اس کو اپنا کمال اوراپنی قوت ِ بازو کا نتیجہ نہ سمجھے،بلکہ یہ ذہن میں رکھے کہ یہ الله تعالیٰ کا فضل وکرم ہے، وہ کسی بھی وقت نعمت چھین بھی سکتا ہے، اس لیے نعمت ملنے پر شکر ادا کیجیے۔

ان اسلامی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا منطقی نتیجہ ایک طرف تو یہ نکلتا ہے کہ خوشی کی حالت میں بھی بندہ خدا سے وابستہ رہتا ہے اور دوسری طرف مصیبتوں او رناکامیوں سے شکست نہیں کھاتا، مایوسی اور دل شکستگی سے اس کی قوت عمل پر بُرا ا ثر نہیں پڑتا۔

حضرت بو امامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”اے ابن آدم! اگر تونے ابتدا ہی سے صدمہ کو برداشت کیا اور میری رضا او رمجھ سے ثواب کی نیت کی تو میں راضی نہیں ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے۔“

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہارنہ کرے اور نہ لوگوں سے شکایت کرے تو الله کا ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دیں۔“

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم نزع کے وقت آپ کی گود میں تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے عر ض کیا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! کیا آپ بھی روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اے ابن عوف! یہ رحمت کے آنسو ہیں، اس کے بعد پھر آنسو جاری ہو گئے، پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غمگین ہے اور ہم زبان سے کوئی بات نہیں کہتے، مگر جس سے ہمارا رب راضی ہو۔“

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے، گریبان پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کی طرح پکار پکار کر روئے۔“

ان احادیث سے معلوم ہواکہ مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ صدمہ اور غم ملنے پر صبر کرے۔ زبان پر شکوہ نہ لائے۔ فطرت انسانی میں جذبہٴ ترحم کی بنا پر آنسو نکل آئیں تو یہ صبر کے منافی نہیں۔ لیکن غم کی حالت میں اظہار غم کے ایسے طریقے جو مومن کو شرعی حدود سے باہر لے جائیں کسی بھی طرح جائزنہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں صدمہ اور مصیبت سے، غم اوررنج سے محفوظ فرمائے او راگر اس کی مشیت سے یہ غم ورنج پہنچ بھی جائیں تو ہمیں صبر پر ثابت قدم رکھ کر شرعی حدود سے تجاوز کرنے سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)