مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی

مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی

مولانا محمد ناظم اشرف عثمانی

کبھی کبھی ہماری بے بسی ہمیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں سے واپسی کسی بھی صورت میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ ایسے ہی موڑ کا سامنا مجھے اس وقت کرنا پڑا جب میرے محبوب ترین ،بے مثال استاذ، میرے ماموں زاد بھائی اور میرے مشفق ومہربان سسر حضرت مولانا مفتی محمو داشرف عثمانی  اپنی زندگی کی تقریباً ستر بہاریں دیکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی محبتیں، شفقتیں، مہربانیاں او راحسانات بیان کرنے کے لیے نہ میرے پاس الفاظ ہیں اور نہ اظہار کی ہمت، یہ وہ مقام ہے جہاں جذبات کی فراوانی الفاظ کی کمی کی شکایت کرتی نظر آتی ہے، جب کہ اظہار سے عاجزی بے تابی کے سیلاب میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی  مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ کے سب سے بڑے صاحب زادے جناب مولانا زکی کیفی کے سب سے بڑے فرزند تھے، جب کہ حضرت مولانا محمد ولی رازی مدظلہم، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہم او رحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کے بھتیجے تھے۔

آپ نے ملک کی دو عظیم درس گاہوں جامعہ اشرفیہ لاہور اور جامعہ دارالعلوم کراچی میں طویل عرصے تک تدریسی ذمہ داریاں انجام دیں، جس کا دورانیہ نصف صدی سے کچھ زائد بنتا ہے۔ اس دوران ان سے استفادہ کرنے والے بلاواسطہ ہزاروں او ربالواسطہ لاکھوں شاگرد ملک کے طول وعرض اور بیرون کے مختلف ممالک میں دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث ہیں۔

شہرت، نام وری او رنمایاں ہونے سے کوسوں دور رہ کر اخلاص وللہیت سے دین کی خدمت کرنا حضرت کا وصف خاص تھا۔ جلسے، جلوس ، تقریریں اور اسفار کی بجائے خالصتاً افتا وتدریس کو ترجیح دینا اور یکسو ہو کر ان میں اپنی محنت او رتوانائیاں صرف کرنا ان کے نزدیک زیادہ فائدہ مند سودا تھا، چناں چہ یہ سودا وہ پہلے ہی طے کرچکے تھے، اسی لیے افتاو تدریس کے دونوں میدانوں میں وہ ایسے شہسوارنظر آتے تھے جن کی مثالیں زمانے میں کم ملتی ہیں۔

علم وعمل پر جب حسن اخلاق کا زیور چڑھ جائے تو وہ نور علی نور بن کر شخصیت کو ممتاز کر دیتا ہے۔ حضرت مفتی محمود اشرف عثمانی کو الله تعالیٰ نے حسن اخلاق سے خوب خوب نوازا تھا، حضرت سے تعلق رکھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ فتویٰ یا کسی مسئلے کے سلسلے میں حضرت سے رابطہ کرنا اورمسئلے کا حل تلاش کرنا جتنا آسان تھا عموماً اتنی آسانی او رجگہوں پر کم میسر ہوتی ہے، وقت بے وقت لوگوں کے مسائل سننا او رپھر بغیر تیوری چڑھائے جلد از جلد انہیں حسن اخلاق سے تسلی بخش جواب دے کر مطمئن کر دینا مفتی صاحب  کا طرہٴ امتیاز تھا، جس میں ظاہر ہے کہ صبر، برد باری، تحمل اوربرداشت جیسے اعلیٰ اخلاق سے متصف ہونا ناگزیر ہے۔

آپ کے دروس، مواعظ اور بیانات کی شان ہی نرالی تھی، مشکل سے مشکل موضوع اورپیچیدہ ترین مباحث نرم گفتاری اور شیریں بیانی سے پانی ہوتے چلے جاتے تھے، خشک اور سنگلاخ چٹانوں جیسے مسائل میں دور جدید کی نئی مثالیں مضمون میں چاشنی پیدا کر دیتی تھیں، ٹھہر ٹھہر کر گفت گو زبان کی سلاست کو چار چاند لگا دیتی تھی، منفرد لب ولہجہ جب تفہیم کے ملکہ سے مزین ہوتا تو سننے والا متاثر ہوئے بغیرنہ رہ پاتا۔

مفتی صاحب  سے شرف تلمذ حاصل کرنے والے حضرات پر یہ ہر گز مخفی نہیں ہے کہ ان کے مزاج میں نہایت اعتدال تھا، گفت گو ہو یا تحریر اعتدال کے دامن سے لبریز ہوتی، اپنے طلباء او رمتعلقین کو وقتاً فوقتاً اعتدال کی تعلیم دیتے او رانہیں اس کی اہمیت اور فوائد سے روشناس کراتے، فرماتے دین ہو یا دنیا اعتدال دونوں میں ضروری ہے۔
مفتی محمود اشرف عثمانی ان خوش نصیب اساتذہ میں سے ایک تھے جن کے ناصحانہ جملے او رملفوظات اہل علم، اساتذہ اور طلباء کے حلقوں میں گردش کرتے سنائی دیتے ہیں، تصنع اور بناوٹ سے دور، آپ کے سادگی بھرے درس کے اہل علم میں چرچے ہیں، طلباء کی دکھتی رگ سے واقف تھے، اسی لیے آپ کی موقع بموقع نصیحتیں زخموں پر مرہم کا کام دیتی تھیں۔ ان کے درس وتدریس کی مٹھاس ان سے محبت وتعلق رکھنے والوں کے دلوں میں آج بھی باقی ہے۔ حضرت مفتی صاحب  گزشتہ کئی برسوں سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ مگر غیر معمولی ہمت اور حوصلے سے اپنے دینی کاموں کو بدستور جاری رکھے ہوئے تھے۔ آخری کئی سالوں سے دارالعلوم کراچی ان کا اوڑھنا بچھونا بنا ہوا تھا۔ ان کی زندگی کا محور درس قرآن، درس بخاری اور دارالافتاء کی وہ ذمہ داریاں تھیں جس میں انہوں نے اپنے آپ کو سمیٹ لیا تھا۔ اس چکاچوند دنیا سے انہوں نے اپنا رخ شروع ہی سے موڑ رکھا تھا۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبتی کی نہ صر ف بہترین مثال تھے، بلکہ مندرجہ ذیل شعر کے بہترین مصداق بھی تھے #
           دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
           بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

حقیقت بھی یہ ہے کہ وہ اس دنیا کے آدمی تھے ہی نہیں، انہوں نے تو دنیا کی بجائے آخرت بنانے او رسنوارنے میں اپنی انتھک محنت صرف کی تھی اور یہ بات تو ہم نے بچپن سے سن رکھی ہے کہ الله تعالیٰ کسی کی محنت کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتے۔

دوران بیمار ی انہیں کئی بار ہسپتال میں داخل ہونا پڑا، ہر بار مرض کی پیچیدگی کے باوجود انہیں شفاء نصیب ہوتی۔ اس بار تقریباً پچھلے ایک سال سے دل کے عارضے کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض نے بھی گھیر رکھا تھا، پے درپے شدید امراض نے دل او رجسم دونوں کو بہت ہی کم زو رکر دیا تھا، غذا بدستور کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی، اس کے باوجود ہمت او رحوصلہ قابل دید تھا۔

اس دوران سب گھر والوں، تینوں فرزندوں اور بے تکلف خدمت گاروں نے جس جاں فشانی ، محبت او رایثار سے اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کیا اس کی مثال کم ملتی ہے۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہر طرح کے علاج ومعالجے کے لیے غیر معمولی تگ ودو کرنا ان سب کے لیے بہت بڑی سعادت تھی، جس کے لیے انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے نہ انہوں نے وقت دیکھا نہ آرام، سب کے سب ایک ٹانگ پر کھڑے جان نچھاور کرتے نظر آئے۔

جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا، دل کے ساتھ ساتھ دیگر امراض میں بھی شدت آتی چلے جارہی تھی، جس کی وجہ سے کئی بار غشی بھی طار ی ہوئی، مگر اس دوران زبان پر صبر وشکر نمایاں تھے اور کیوں نہ ہوتے؟ جس شخص کی ساری زندگی قال ا لله وقال الرسول کے مطابق صبر وشکر میں گزری ہو، الله تعالیٰ اسے آخری وقت میں بھی ان اعمال کی توفیق عطا فرماتے ہیں، جو الله تعالیٰ کو پسند ہوں۔

بالآخر وہ دن آہی گیا جس کا سامنا ہم میں سے ہر شخص کو کرنا ہے۔ آخری بار ہسپتال لے جاکر علاج کی ہر ممکن کوشش کی جاچکی تھی، محبت کرنے والے ڈاکٹرز نے بھی امکانی حد تک تدبیر وعلاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر الله تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، حضرت  کی خواہش کے مطابق تمام تر حفاظتی آلات سمیت حضرت کو گھر لے آیا گیا، غشی کا سفربدستور جاری تھا، سانس بھی اپنی پہلی کیفیت بدل چکا تھا،جیسے الله تعالیٰ محبت اور خدمت کرنے والوں کو کسی اچانک خبر کے لیے تیار کر رہے ہوں ، انداز بتا رہا تھا کہ یہ دنیا کے غموں سے رہائی پانے کی آخری کوشش ہے۔

عصر کے بعد مغرب سے پہلے کا وقت تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی ایک طویل عرصے تک دنیا کی تکالیف برداشت کرتے کرتے اس دنیا سے منھ موڑ چکے تھے، عرصہ دراز سے مصائب وتکالیف کا سامنا کرنے والے چہرے پر اب ابدی سکون چھا چکا تھا، دنیا ان کے آخرت کے سفر میں حائل نہیں رہی تھی، وہ اس فانی دنیا سے آزاد ہو کر 27 فروری بروز اتوار شام6 بج کر10 منٹ پہ اپنے آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔

انتقال کی خبر ملک کے طول وعرض میں تیزی کے ساتھ پھیل چکی تھی، جنازے کا وقت رات ساڑھے گیارہ بجے رکھا گیا تھا، اس دوران غسل،کفن اور قبر کی تیاری کے مراحل طے ہونے تھے جو بفضلہ تعالیٰ وقت کی رعایت کے ساتھ بڑے احسن انداز میں انجام پا گئے۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو ایک الله والے کے جنازے میں شریک ہونے اور کندھا دینے آیا تھا، اگرچے اگلی صبح وفاق المدارس کا پرچہ پورے پاکستان میں ہونا تھا، جس کی وجہ سے علما طلبا اور نگران اپنے اپنے شہروں او رمراکز سے نہیں نکل سکتے تھے، پھر جنازے کا وقت بھی تقریباً آدھی رات کا رکھا گیا تھا، اس کے باوجود دارالعلوم آنے والے لوگوں کا مسلسل تانتا بندھا ہوا تھا، جو ایک مرددرویش کے چہرے کی ایک جھلک دیکھنے دیوانہ وار چلے آرہے تھے۔

ہم سب کے مخدوم استاذ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے ایک جم غفیر میں اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی، علما، طلبا او رمحبت کرنے والوں نے ایک متبع السنت، باکمال مدرس، عالم باعمل، فقیہ النفس بزرگ کو آنسوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا۔

اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وابدلہ دارا خیرا من دارہ واھلا خیرا من اھلہ وزوجاخیرا من زوجہ، وقہ فتنة القبر وعذاب النار․ آمین!