مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کے ملفوظات

مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کے ملفوظات

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

دارالتصنیف کے اجلاس میں اساتذہ سے فرمایا: ہم تصنیفی کام میں مشغول ہیں، اس میں اخلاص نیت کا اہتمام ہو، ہم یہاں قرآن کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، حدیث توضیح وتشریح کا کام کر رہے ہیں اور ہم قرآن وحدیث کی عظمت سے بخوبی واقف ہیں، چناں چہ اس عظیم او راہم کام کو سرانجام دیتے ہوئے ہمارا ربط الله تعالیٰ سے مضبوط ہو اور اس میں بتدریج ترقی ہو، صرف کتاب لکھ لینا اور شائع کر دینا کافی نہیں، بلکہ اس میں اخلاص اور الله تعالیٰ سے ربط ضروری ہے، اگر اس کے بغیر کتاب لکھ لی تو تنکے کے برابر بھی فائدہ نہیں، ہم جانتے ہیں، بڑی علمی تحقیقات ہوئی ہیں، بڑی کتابیں لکھی گئیں، لیکن ان کو عند الله قبولیت کا شرف نصیب نہیں ہوا، وہ گوداموں میں رکھی ہوئی ہیں او رکتنی ایسی کتابیں ہیں کہ ایسے اخلاص سے لکھی گئیں کہ آج تک مقبو ل ہیں اور امت ان سے استفادہ کر رہی ہے۔

اور یہ علمائے دیوبند کی شان ہے کہ علم برائے علم نہیں، بلکہ علم برائے عمل ہوتا ہے ، ابھی قریب میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے سنا، فرمایا: میں پوری دنیا گھوما ہوں اور پوری دنیا میں میرا جانا علمی حوالے سے ہوتا ہے، لیکن دنیا بھرمیں کہیں پر بھی علمائے دیوبند کی جھلک بھی نظر نہیں آئی۔

فرمایا: 1984ء میں جامعہ فاروقیہ میں ”دورہ تدریب اللغة العربیہ“ ہوا، اس میں جامعہ ام القری سے اساتذہ تشریف لائے تھے، علمی اعتبار سے بہت مضبوط، نحو کے قواعد اتنے بہترین انداز میں پڑھاتے کہ ہم حیران رہ جاتے، لیکن داڑھیاں بالکل صاف ۔

فرمایا: ہمارے حضرت نوّر الله مرقدہ کا تصنیفی مزاج نہیں تھا، دارالعلوم کے زمانے سے حضرت کی ترمذی شریف کے دروس کی کاپی پورے ملک میں مشہو رتھی، اسی طرح مشکوٰة کے دروس کی کاپی پورے ملک میں مشہور تھی، بہت سے لوگ حضرت سے عرض کرتے کہ آپ ان کو کتابی شکل میں شائع کر دیں، لیکن حضرت انکار فرما دیتے۔

پھر حضرت نے ایک دفعہ جامعہ کے چمن میں بیٹھ کر خواب کا تذکرہ فرمایا کہ خواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اس تصنیفی کام کو شروع کرنے کی طرف شارہ کیا گیا۔تو آج کشف الباری کو جو مقبولیت حاصل ہے حضرت کے اخلاص اور للہیت کی وجہ سے ہے ۔

فرمایاحضرت نوّر الله مرقدہ کی زندگی میں جب بھائی جان حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمہ الله موجو دنہیں تھے، میں ہر روز فیزII جاتا، وہاں کی مصروفیات، یہاں مرکز کی مصروفیات ،میں حضرت کے پاس اس حوالے سے عشاء کے بعد ملنے جاتا، تو حضرت کمرے میں دعا میں مشغول ہیں، نماز میں مشغول ہیں، بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ حضرت دعا میں مشغول ہیں، میں حضرت کی پشت کی جانب انتظار میں بیٹھ جاتا تو کئی دفعہ گھنٹے سے بھی زائد وقت انتظار میں گزر جاتا، حضرت دعا میں مشغول ہیں او رانتظار اس لیے کرنا پڑتا ،کیوں کہ نماز، دعا سے فارغ ہو کر حضرت سیدھا بستر پر او رحضرت کی آنکھ لگنے میں ایک منٹ نہیں لگتا تھا، فوراً آنکھ لگ جاتی تھی۔

ایک اور اجلاس میں اساتذہ کرام سے فرمایا کہ ہمارے علمائے دیوبند کی علم دین کی اشاعت میں بڑی قربانیاں ہیں، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله 1857 کی جنگ آزادی میں بنفس نفیس شریک ہوئے، حافظ ضامن رحمة الله علیہ اسی میں شہید ہوئے، اس زمانے کا اگر آپ مطالعہ کریں گے تو بہت خوف ناک، ایسا لگتا تھا کہ اب یہاں الله کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا، لیکن ہمارے بڑوں نے جنگ کا رخ تبدیل کیا، اسی کے نتیجے میں دارالعلوم قائم ہوا اور دارالعلوم کے قیام کا جو سب سے بڑا امتیاز ہے وہ یہ کہ علم برائے علم نہیں تھا، بلکہ علم برائے عمل تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ دارالعلوم کا فاضل صحرا میں، جنگل میں، جہاں بیٹھ گیا پروانے جمع ہو گئے، پاکستان، افغانستان، ایران، سمرقند اور پوری دنیا میں۔

فرمایا: ہمارے حضرت نوّرالله امرقدہ کو اپنے اساتذہ سے بہت تعلق تھا، جب اساتدہ کا تذکرہ فرماتے تو آنکھیں بھیگ جاتیں، اساتذہ کی دعائیں تھیں اور حضرت کا اخلاص تھا جو الله نے جامعہ فاروقیہ کو اس مقام تک پہنچایا، جامعہ فاروقیہ آج جہاں قائم ہے، یہاں کچرے کی کوڑی تھی، یہاں شیعہ، بریلوی، جامعہ کے اساتذہ کرام اور طلباء پر آوازیں کستے تھے، جامعہ کے کنارے پر بریلوی کی بسیں کھڑی ہوتی، ربیع الاول کے مہینے کے علاوہ بھی، کبھی کیا تماشا ہو رہا ہے، کبھی کیا، لیکن الله تعالیٰ نے آج جامعہ فاروقیہ کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔

ایک او رموقع پر فرمایا: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کا مزاج مناظرانہ تھا، شیخ محمد تھانوی نے ایک دفعہ کوئی بات لکھی تو مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله مناظرے کے لیے گنگوہ سے تھانہ بھون آئے، مسجد میں داخل ہوئے تو حافظ ضامن شہید رحمہ الله سے ملاقات ہوئی، انہوں نے آنے کا مقصد پوچھا تو بتایا،حافظ ضامن شہید رحمہ الله نے فرمایا: مناظرہ چھوڑو ،وہ حاجی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی مجلس میں چلے جاؤ، چناں چہ حاجی صاحب کی مجلس میں گئے او رپھر واپس جانے کی اجازت مانگی تو حاجی صاحب نے رات ٹھہرنے کے لیے فرمایا، رات کو ٹھہر گئے، رات کو دیکھا ایک صاحب یہاں کھڑے ہیں، نماز پڑھ رہے ہیں، ایک صاحب وہاں بیٹھے دعا مانگ رہے ہیں، ماحول سے متاثر ہوئے او رکئی دن وہاں قیام کیا اورحاجی صاحب سے خلافت مل گئی، حاجی صاحب نے ان سے فرمایا: جاکر اپنے حالات سے آگاہ کرتے رہنا، جب کچھ عرصہ ہو او رمولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کا کوئی خط نہیں آیا، تو حاجی صاحب نے خود خط لکھا اور خیر خبر معلوم کی کہ آپ کا کوئی خط نہیں آیا، تو حضرت گنگوہی رحمہ الله نے اپنے حالات لکھے کہ حضرت اب مادح اور ذام نظر میں برابر ہو گئے اور شریعت طبیعت بن گئی، حضرت حاجی صاحب کو جب خط ملا تو وہ خط سر پر رکھا اور فرمایا: یہی تو مقصد ہے ۔

یکم رجب1443ھ کے اجلاس میں اساتذہ کرام سے فرمایا:
الحمدلله یہ سال بھی اختتام کو ہے، جامعہ فاروقیہ میں اتنا بڑا نظام ہے تو کوتاہی بھی ہوتی ہے، لیکن دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ کوتاہی کا ازالہ کیا جائے، کوتاہی انفرادی بھی ہوتی ہے اور کوتاہی اجتماعی بھی ہوتی ہے، چناں چہ ہم سب اس کا جائزہ لیں،سمجھد ار تاجر وہ ہے جو اپنے کاروبار کا مسلسل جائرہ لیتاہے، اگر ایک تاجر اپنے کاروبار کا جائزہ نہیں لیتا، نفع ،نقصان پر اس کی نظر نہیں تو وہ کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ سمجھ دار لوگ کوتاہی کا جائزہ لیتے ہیں او راصلاح کرتے ہیں، وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں۔

الله تعالیٰ نے ہمیں ایک بڑے عالم ربانی کے ادار ے میں خدمت کا موقع عنایت فرمایا، ہم میں سے بہت سوں کو حضرت نورالله مرقدہ سے تلمذ کا شرف بھی حاصل ہے اور پھر اپنے ہی ادارے میں الله نے خدمت کا موقع نصیب فرمایا ہر سال سینکڑوں طلباء فاضل بنتے ہیں، ظاہر ہے سب کو تو جامعہ میں نہیں رکھا جاسکتا، صرف چند ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو موقع ملتا ہے، اس لیے ہمیں الله کا شکر ادا کرنا چاہیے او راپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور کوتاہیوں میں سب سے پہلی کوتاہی جس پر ہماری مسلسل نظر ہو اور اس کو دور کرنا چاہیے، وہ یہ کہ صرف حروف شناسی نہ ہو، صرف علم ہی پر محنت نہ ہو، بلکہ الله او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مضبوط تعلق ہو، اگر ہم سبق پر محنت کر رہے ہیں ، سبق پڑھا دیتے ہیں اور خدانخواستہ الله اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق مضبوط نہیں، تو وہ بے روح سبق ہے، اس طرح سبق سے کتاب بھی ختم ہو جائے گی، طلباء کو اگلا درجہ بھی مل جائے گا، لیکن سبق میں روح نہیں ہوگی ،ہمارے اکابر کی جیسے علمی شناخت ہے اس کے ساتھ ساتھ عملی شناخت بھی ہے، میں طلباء کو ایک شعر سناتا ہوں #
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

ہمارا کام عقل والا نہیں، ہمارا کام عشق والا ہے۔
ہم نے اپنے اساتذ ہ کو دیکھا، عجیب کیفیات ہوتی تھیں، کمرے سے درس گاہ تک، درس گاہ سے کمرے تک، اپنے اساتذہ کو ایصال ثواب کرتے تھے۔

جامعہ کے ایک استاد تھے انہوں نے حضرت نوّرالله مرقدہ سے عرض کیا کہ میں حافظ ہوں اور قرآن کریم کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن یاد نہیں ہوتا تو حضرت نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا اور فرمایا: مولوی صاحب! کبھی حفظ کے استاد کو ایصال ثواب کیا ہے یا نہیں؟ کہا: نہیں، حضرت نے فرمایا: پھر قرآن کیسے یاد ہو گا؟

چناں چہ ہم میں سے ہر ساتھی اپنے اساتذہ کوایصال ثواب کرنے کی کوشش کرے، ایصال ثواب کریں گے تو الله تعالیٰ فیض جاری کریں گے اور وہ فیض شاگردوں تک پہنچے گا۔

دوسری بات حاضری سے متعلق ہے کہ ہم درس گاہ میں طلبائے کرام کو پورا وقت دیں، ہم گھنٹہ لگتے ہی درس گاہ میں داخل ہوں اور وقت پورا ہونے کے ساتھ درس گاہ سے نکلیں۔

ہمارا جامعہ کے ساتھ معاملہ ہے، سبق کا وقت50 منٹ کا ہے اور ہم 40 منٹ30 منٹ دیتے ہیں، تو یہ اس معاملے میں کوتاہی ہے او ریہ کوتاہی بہت خطرناک ہے،اس سے آپ شاگردوں کو بھی اچھا پیغام نہیں دے رہے، یہی طلباء فاضل ہو کر پڑھائیں گے تووہ بھی وہی کریں گے جو انہوں نے آپ حضرات سے سیکھا ہے۔

ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ اپنے استاد حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ الله کے بارے میں بتاتے تھے کہ پہلے گھنٹے میں ہدایہ پڑھاتے تھے او روقت سے بھی پہلے آجاتے تھے، درس گاہ میں اندھیرا ہوتا تھا توکتاب اٹھا کر آنکھوں کے قریب کرکے اس انداز سے پڑھاتے تھے۔

اسی طرح جیسے ہی گھنٹہ لگتا تھا تو ان کا قدم درس گاہ کے اندر ہوتا تھا اور دوسری خصوصیت حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ الله کی یہ بتاتے تھے کہ کوئی بھی شخص سلام کرنے میں ان سے پہل نہیں کرسکتا تھا، سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، بہت سے لوگوں نے کوشش کی سلام میں پہل کرنے کی کہ ہم شیخ الأدب رحمہ الله کو پہلے سلام کریں، لیکن وہ کام یاب نہ ہو سکے۔

ایک تو درس گاہ کو پورا وقت دینے کے حوالے سے اہتمام ہواور جو کوتاہی ہوئی ہے اس پر توبہ اور استغفار ہو او رآئندہ کے لیے احتیاط کرنا چاہیے اور دوسرا معاملہ حاضر ی کا ہے کہ ہم حاضری کا اہتمام کریں، غیر حاضری نہ کریں، ایک استاد کی غیر حاضری کی وجہ سے سینکڑوں طلباء کانقصان ہوتا ہے، اسی طرح سبق کی خوب تیاری کرکے درس گاہ میں جانا چاہیے اور ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں درس وتدریس او رانتظام کے حوالے سے کم زوری ہے، بلکہ الحمدلله ہمارے ہاں جو درس وتدریس کا معیار ہے وہ بہت سے ہم عصر اداروں سے بہتر ہے، ہم اس پر الله کا شکر ادا کریں او راس کو اور بڑھائیں اورجہاں کچھ کمی ہے اس کو دور کریں۔

فرمایا: میری سوچ یہ ہے کہ اگر اساتذہ اور طلباء میں گہری وابستگی ہے، آپ خوب محنت کرر ہے ہیں، تو ان شاء الله سب قدیم طلباء جامعہ آئیں گے۔

جامعہ فاروقیہ جب قائم ہوا تو مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله حیات تھے، ان کا ادارہ دارالعلوم موجو دتھا، اورمحدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ الله حیات تھے، اورجامعہ فاروقیہ میں نہ کمروں کی سہولت، نہ درس گاہوں کی سہولت، نہ کھانے کی سہولت، طلبا کہتے حضرت! ہمیں صرف سبق چاہیے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جماعت جمع ہوئی؟ تو دنیاوی اعتبار سے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، صرف وابستگی تھی۔

فرمایا: ہم نے اپنے والدماجد نوّرالله مرقدہ سے کبھی بھی اپنے استاد کا ذکر سر سری انداز میں نہیں سنا، بلکہ جب اساتذہ کا تذکرہ کرتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے، حضرت فرماتے کہ جب حضرت مدنی رحمہ الله جاہ وجلال کے ساتھ تشریف لاتے تو ہم سوچتے کہ جب ہمارے استاد کا یہ حال ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا کیا حال ہوگا؟

اور وابستگی کے لیے صرف سبق پڑھا لینا کافی نہیں بلکہ روحانیت ضرور ی ہے حضرت فرماتے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتاکہ جس میں جامعہ کے اساتذہ او رطلباء کے لیے دعا نہ ہو اور الحمدلله حضرت نوّرالله مرقدہ کے اس معمول کو میں نے بھی معمول بنایاہوا ہے۔

ہم جیسے اپنے اساتذہ کے لیے دعاؤں اور ایصال ثواب کا اہتمام کریں، اپنے طلباء کے لیے بھی دعاؤں کا اہتمام ہو۔
فرمایا: ہم طلباء کے لیے صرف سبق کے حوالے سے نافع نہ ہوں بلکہ تمام چیزوں کے حوالے سے نافع ہوں، سب کے مسائل ہوتے ہیں، کوئی ان مسائل کی وجہ سے شوگر کا مریض بنا ہوا ہے، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بنا ہوا ہے ، کوئی ڈپریشن کا مریض بنا ہوا ہے، کوئی بے خوابی کا مریض بنا ہوا ہے تواگر آپ کے ساتھ وابستگی ہے تو طلباء آپ کی طرف رجوع ہوں گے اورآپ کے لیے ان مسائل کو حل کرنا کوئی مشکل نہیں۔

فرمایا: الحمدلله ہمارے اساتذہ کرام کی غالب اکثریت سبق کی مقدار کے حوالے سے بھی اہتمام کرتی ہے، لیکن بعض حضرات کچھ سستی کرتے ہیں،میں نے26 سال طحاوی شریف پڑھائی ہے اور میری کتاب پر ہر سال کے ہر سبق پر تاریخیں لکھی ہوئی ہیں ،اس طرح کتاب کے لیے نظام بنانے سے کتاب بہتر طریقے سے مکمل ہو جاتی ہے، آخر میں دوڑ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

جب ہم اپنی کتاب کے لیے شروع سے ایک نظم بنا لیں گے تو طلباء کو بھی خوشی ہو گی اور آپ کو بھی اطمینان رہے گا۔

فرمایا: اسی طرح طلباء کی عادات ، اخلاق پر بھی گہری توجہ ہو، ہمارے اساتذہ کرام کا یہ معمول تھا کہ ہفتے میں کم ازکم ایک مرتبہ گھنٹے میں دس پندرہ منٹ اصلاحی باتیں کیا کرتے تھے، ترغیب دیتے تھے، دل چسپ واقعات بیان فرماتے تھے۔

فرمایا: ہم خو دبھی اس کا اہتمام کریں اور طلباء کو بھی ترغیب دیں کہ ہوٹلوں کا کھانا نہ کھائیں، جامعہ کا کھانا صحت کے اعتبار سے بالکل محفوظ ہے، سالن میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ڈالی جاتی جو خراب ہو،جب کہ باہر ہوٹلوں میں چوں کہ ہمارے ہاں حکومت نہیں، کوئی حکومتی رٹ نہیں، پتہ نہیں آپ کو کیا کیا کھلایا جارہا ہے، جب کہ باہر کی دنیا میں اس حوالے سے حکومتی رٹ موجودہے۔

مسجد نبوی، باب عبدالمجید کے سامنے آئسکریم کی دکان تھی، آئسکریم طیبہ کے نام سے، ہمارے سب اکابر بھی وہاں کی آئسکریم بڑے شوق سے کھاتے تھے، ہم عصر کے وقت مسجدنبوی جاتے اور عشاء کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے، ایک دن جب ہم عصر کے وقت مسجدنبو ی گئے تو وہ دکان کھلی ہوئی تھی، رش لگا ہوا تھا، لیکن جب ہم عشاء کی نماز پڑھ کر واپس نکلے تو دکان بند،ہم نے دکان بند ہونے کی وجہ پوچھی تو بتایاگیا کہ ایک مصری کی آئسکریم میں مکھی نکل آئی، وہ کپ لے کر بلدیہ چلا گیا اور شکایت لگا دی، چناں چہ فوراًبلدیہ والے آئے، دکان کو سیل کر دیااور اس دکان کے مالک کو پانچ سال قید اور 5 لاکھ ریال جرمانے کی سزاہوئی۔

فرمایا: ہمار ے پاکستان میں 30 سال میں جس چیز میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی وہ عدم برداشت ہے اوراتنی خوف ناک عدم برداشت ہے کہ ایک انسان دوسرے کو جان سے ماردیتا ہے ۔ایک صحابی نے جب آپ صلی الله علیہ وسلم سے نصیحت کی درخواست کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:لا تغضب، اس نے دوسری مرتبہدرخواست کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا لاتغضب پھر تیسری بار بھی فرمایا: لا تغضب، غصہ مت کرو۔
فرمایا: ایک مرتبہ حضرت نوّرالله مرقدہ اسلام آباد تشریف لے گئے، اس وقت گھر میں ایک فون ہوتا تھا، فون کی گھنٹی بجی تو میں نے فون اٹھایا، ادھر سے حضرت نے سلام کیا توفون میرے ہاتھ سے گرگیا، کیوں کہ اس وقت میرے سر پر ٹوپی نہیں تھی، بعد میں خیال آیا کہ حضرت تو اس وقت سامنے نہیں، بلکہ اسلام آباد میں ہیں۔ یہ چیزیں اساتذہ نے سکھائیں، والدین کا ادب، بڑوں کا ادب قطرہ قطرہ سکھایا، لہٰذا ہم بھی وہ صفات اوراخلاق جن کی شدید ضرورت ہے طلباء میں پیدا کریں۔

فرمایا: جب ہم طلباء میں اچھی صفات پیداکرنے کی کوشش کریں گے، ترغیب دیں گے تو الله تعالیٰ ہم میں بھی وہ صفات پیدا فرمادیں گے۔

فرمایا: ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ فرماتے تھے کہ مدارس کو کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی، اگر مدرسہ ختم ہو گا تو وہ ہمارے خراب ہونے کی وجہ سے ختم ہو گا، جب ہم خود خراب ہوں گے، ہم خائن بن جائیں گے تو مدرسہ ختم ہو جائے گا۔

فرمایا: الحمدلله مدارس چل رہے ہیں، لیکن اسباب کے درجے میں معاملہ کیا ہوتاہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن الله تعالیٰ نے کسی کا محتاج نہیں بنایا، کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جامعہ کی شاخ رفاہ عام مدرسہ کے سامنے ایک پلاٹ فروخت ہو رہا تھا، مجھے بتایا گیا تو میں فوراً وہاں پہنچا ،مالک سے بات کی تو وہ اس وقت پلاٹ کے 25 لاکھ روپے مانگنے پر مصر تھا، لیکن بہرحال بات کرتے کرتے وہ 21لاکھ پر راضی ہو گیا، جب کہ اس وقت ہماری حالت یہ تھی کہ کچھ بھی نہیں تھا اور معاملہ اس پر طے ہوا کہ ایک لاکھ ابھی ادا کریں گے او ربقیہ رقم6 مہینے تک ادا کریں گے، ہم نے اس وقت ایک لاکھ کاکہیں سے انتظام کر لیا او ربقیہ رقم کا الله تعالی نے چھ مہینے سے بھی پہلے انتظام فرمایا اوراب الحمدلله جامعہ کا وہ پلاٹ کافی قیمتی ہے۔

فرمایا: سیہون میں جامعہ کی شاخ ہے، حاجی ہارون صاحب جنہوں نے شرک وبدعت کے خلاف بہت کام کیا، انہوں نے سیہون میں بدعتیوں کے سینے میں مدرسہ بنایا، فرماتے تھے کہ مدرسے کی تعمیر کے لیے کوئی مزدور نہیں ملتا تھا کہ یہ تووہابیوں کا مدرسہ ہے ،حیدرآباد سے مزدور لے کر جاتا تھا، مدرسہ تعمیر کیا اور پھر وہ مدرسہ کئی لوگوں کے سپرد کیا، لیکن جن کے بھی سپرد کیا، تھوڑا عرصہ چلایا اور پھر بند، بالآخر وہ حضرت کے پاس آئے اورحضرت نے مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ مشکل ہے، ہمارے لیے اس کو سنبھالنا مشکل ہو گا تو وہ حضرت کے سامنے رونے لگے او رکہا کہ میں آخری آسرا سمجھ کرآیا ہوں۔ چناں چہ حضرت راضی ہو گئے اور آج الحمدلله وہاں پر 70 طلباء رہائشی ہیں اور 100 سے زائد محلے کے بچے پڑھنے آتے ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ الحمدلله بھرپور کام ہو رہا ہے۔
اسی طرح مقرثانی ہے، وہاں الحمد لله بھرپور کام ہو رہا ہے ۔

فرمایا: جامعہ کی شاخ رفاہ عام وہاں سے تفصیلات جمع کر رہے ہیں کہ اس وقت تک کتنے بچے حفظ مکمل کرچکے ہیں وہ تفصیلات ابھی مکمل نہیں ہوئیں، لیکن اب تک جو تفصیلات جمع ہوئی ہیں وہ یہ کہ ڈھائی ہزار بچے الحمدلله حفظ مکمل کرچکے ہیں۔

فرمایا:الحمدلله ادارہ”الفاروق“کی خدمات ہیں، اس وقت ادارہ ”الفاروق“ سے 26 جلدیں کشف الباری کی، 25 جلدیں فتاوی محمودیہ کی،14جلدیں کفایت المفتی، 6جلدیں نفحات التنقیح اور اس کے علاوہ ایک جلد پر مشتمل کئی کتابیں چھپ رہی ہیں۔

اسی طرح جامعہ کے شعبہ تصنیف میں خدمات سرانجام دی جارہی ہیں، جامعہ کے دارالافتاء میں ، تخصص فی الحدیث میں خدمات سرانجام دی جارہی ہیں، الحمدلله یہاں سے تخصص فی الفقہ کے فضلا کئی اداروں میں دارالافتاؤں کے رئیس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اسی طرح ساکران میں جامعہ کی80 ایکڑ پر مشتمل زرعی زمین ہے اور وہ زمین جس کا اکثر حصہ غیرآباد او رجنگل تھا، اب الحمدلله وہ ساری زمین قابل کاشت ہے او راس میں مختلف قسم کی فصلیں کاشت ہو رہی ہیں۔

فرمایا: تصویر کے معاملے میں ہم اپنے اکابر کے نقش قدم پر رہیں اور ایسے پروگراموں میں بالکل شرکت نہ کریں جہاں تصویر سازی ہو رہی ہو اور ہم منع نہ کرسکتے ہوں۔

خیبر پختونخواہ میں ایک دفعہ حضرت اقدس نوّرالله مرقدہ کے ساتھ ایک مدرسے کے پروگرام میں جانا ہوا، ہم مسجد میں محراب سے داخل ہوئے، جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے، سب طلبا نے بڑے بڑے موبائل ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے، تصویر لے رہے تھے، حضرت نے مجھ سے فرمایا فوراً واپس چلو او رمدرسے کے دفتر نہیں جانا بلکہ سیدھا گاڑی کی طرف چلو، وہاں کی انتظامیہ حضرت کے پاؤں میں گر گئی کہ حضرت! معاف کر دیں، لیکن حضرت نے فرمایا چلو، چناں چہ وہاں سے نکل آئے اور بالکل نہیں رکے۔