موسم سرما اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

موسم سرما اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

مولانا محمد ابوبکر حنفی

فضا میں ہونے والے غیرمعمولی ردوبدل اور تغیرو تبدل کو موسم کہا جاتا ہے۔ہمارے خطے میں فلکیاتی اورماحولیاتی نظام کا حصہ قرار پانے والے موسم چار ہیں۔سرما،گرما ،خزاں اور بہار۔موقع بموقع ان چار صورتوں میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کا مقصدمزاج انسانی کی تبدیلی ہے۔ انسان کی تخلیق چوں کہ عناصر اربعہ سے ہوئی ہے، اس لیے وہ فطرتاایک حالت پر رہتے ہوئے اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت قدرے مختلف ماحول کا تقاضا کرتی ہے۔بنی نوع انسان کی خالق و مالک ہستی سے زیادہ کون اس کے مزاج،طبیعت اور فطرت سے آشنا اور اس کی رعایت کرنے والا ہوسکتا ہے ،لہٰذا اس نے اپنے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے اپنے تکوینی نظام کو ایسے منظم کیا کہ کچھ کچھ مہینوں کے وقفے سے فضا انگڑائی لیتی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں کبھی ہوا میں خنکی بڑھنے سے موسم سرد ہو جاتا ہے اور اس کے کچھ عرصہ بعدخنکی ختم ہو کر موسم معتدل ہو جاتا ہے، جسے موسم بہار کہتے ہیں۔مزید کچھ ایام کے بعدرجہ حرارت میں اضافہ ہونے کے باعث موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے اوربالآخرپت جھڑاورخزاں کا دور دورہ شروع ہوتا ہے، جس سے سرسبزوشاداب درختوں کی رونقیں ماندپڑجاتی ہیں۔رت اورموسم کی یہ متواتر تبدیلی انسانی مزاج ،منظر اور ذائقے کو بھی تبدیل کرتی ہے اور انسان کی مادی، فطری اورطبعی ضروریات جیسے خوراک اور لباس وغیرہ پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس وقت موسم سرما ہم پر سایہ افگن ہے۔جہاں ایک طرف ہم اس کی خنکی سے بھرپوریخ بستہ ہواوٴں سے نبر آزما ہیں وہیں اس کے رنگا رنگ کے ذائقوں سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ موسم سرما کے حوالے سے شریعت کی کیا تعلیمات ہیں۔

موسم سرماقدرت کی نشانی
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:﴿إِنَّ فِیْ اخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَّقُون﴾ (یونس:6) ”بلاشبہ دن اور رات کے آگے پیچھے آنے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیااس میں ایسے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں“۔اصولیین کے مطابق آیت میں مذکور حرف ”ما“ کلمہ عام ہے، جس کے عموم میں موسمیاتی تبدیلی بھی آتی ہے ۔یہ تبدیلی معرفت خداوندی کے طالب کو کائنات کے حقیقی مالک کی عظمت وجلالت اوربڑائی وکبریائی سے آشنا کرتی ہے اور اس کے قلب میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ ایسی متصرف کامل ،مالک لم یزل اور مختار کل ہستی، جس نے مخلوق کے کسی فرد کا سہارا لیے بغیر،اپنی قدرت کاملہ سے، فضا کی حرارت کو برودت اور تمازت کو خنکی میں بدل دیااور نظام کائنات میں اتنا بڑا انقلاب محض ایک امر” کن“ سے برپا کردیا،اس کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ساری مخلوق سے عداوت اور ملامت مول لینی پڑ جائے توبھی اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔نیز اس میں دہریت کے سحرزدہ،خدا کے منکر اور فطرت کے معبود کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ جب دنیا کا ایک معمولی اور سہل ترین کام کسی کے عمل دخل اور کوشش کے بغیرنہیں ہوسکتا تو یہ عظیم ماحولیاتی ردوبدل قادر مطلق اورصانع ومحرک کے تصرف کے بغیرکیسے ممکن ہے؟
کسی عربی شاعر کا شعر ہے #
ففی کل شيء لہ شاھد / یدل علی أنہ واحد
یعنی دنیا کی ہر چیز میں ایک خاموش گواہ موجود ہے، جوبزبان حال یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس چیز کو وجود کی خلعت سے نوازنے والی کوئی وحدہ لاشریک ذات موجود ہے۔

موسم سرما مقام عبرت
موسم سرمااپنی آمد کے ساتھ عاقبت سے غافل اوراپنے انجام سے بے خبر انسان کے لیے درس عبرت اور سامان نصیحت بھی لاتا ہے۔ اسے یہ پیغام دیتا ہے کہ میری ٹھنڈک اور برودت سے بھرپور ہواوٴں نے جس طرح درختوں کے سرسبز پتوں کوخشک کرکے ان کی رونق چھین لی اوران کے حسن کو ماند کردیا، پھر کچھ عرصہ بعد خزاں کی بادصرصرکے جھونکوں سے وہ اپنی ٹہنیوں سے جدا ہو کرزمین پرگرجائیں گے اور خس وخاشاک بن کر کوڑے کے ڈھیر پر جا پڑیں گے، اسی طرح تیری حیات مستعار کے چند لمحے جو عارضی خوشیوں اوروقتی آرزووٴں کے بحر فریب میں رواں ہیں،اچانک حوادث و مصائب کی تند موجیں انہیں موت کے بھنور میں گم کردیں گی اوراس کی ساری امیدیں ساحل تک پہنچنے کی ناتمام خواہشات اپنے سینے میں لیے غرق آب ہو جائیں گی۔بچپن کے ناز نخرے لڑکپن چھین لے گا،لڑکپن کی موج مستیاں شباب کی سنجیدگیوں کی نذرہو جائیں گی، شباب کی طاقتوں پر بڑھاپے کی پرچھائیاں پڑ جائیں گی اوراس کی زندگی کے سفر کا بیڑا ایسے ساحل پر آکر لنگر انداز ہو گا کہ ﴿لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا﴾ (نحل:70) دماغ میں خلل آنے کے باعث، سننے سمجھنے کے باوجود،ذہن درست سوچ اور فکر سے قاصر ہو جائے گا۔پھر بالاخرموت کی امانت زندگی کو موت کے حوالے کر کے راہی ملک بقا ہو جائے گا۔

موسمی تغیرات اور اسلامی احکامات
عام لوگوں کی نظر میں موسم اور اس کے متعلقات کے بارے میں تحقیق و تفتیش اور بحث وتمحیص صرف سائنس کا موضوع ہے، لیکن حقائق پر نظر کرنے اوراحادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ اور بہت سے احکامات دینیہ کابھی موسم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔مثلا گرمی کے موسم میں نماز ظہر کے متعلق حکم ہے کہ اسے موٴخر کر کے پڑھا جائے، چناں چہ صحیحین سمیت حدیث کی بہت سی کتب میں متعدد صحابہ کرام سے مختلف الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے:” أبردوا بالظھر فإن شدة الحر من فیح جھنم“”(گرمیوں میں) ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو ،اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی پھنکار کی وجہ سے ہے“۔اس کی مزیدتفصیل صحیح مسلم میں میں حضرت ابو ہریرة  کی روایت سے منقول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک فرمان میں ہے، جس میںآ پ صلی الله علیہ وسلم نے سردی اور گرمی کی حقیقت بیان کی،چناں چہ فرمایا:”قالت النار رب أکل بعضي بعضا فأذن لي أتنفس فأذن لھا بنفسین: نفس في الشتاء ونفس في الصیف، فما وجدتم من برد أو زمھریرفمن نفس جھنم، وما وجدتم من حر او حرور فمن نفس جہنم․“”جہنم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار!میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، لہٰذا مجھے سانس لینے کی اجازت عنایت فرمائیں،اللہ تعالی نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی،ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں،تم لوگ جوسردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو وہ جہنم کے(ٹھنڈا) سانس لینے کی وجہ سے ہے اورجو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ جہنم کے(گرم) سانس لینے کی وجہ سے ہے۔

مومن کا موسم بہار
اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی ہر مسلمان پر ہرموسم میں ضروری ہے، لیکن موسم سرما عبادت کی آسانی کے حوالے سے موسم گرما کی بنسبت زیادہ موزوں ہے۔سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی کی وجہ سے طہارت حاصل کرنے کے معاملہ میں نسبتا مشقت ضرور ہے، لیکن دن اور رات کے دورانیے کے پیش نظر اس موسم میں عبادت کرنا سہل ہے،اسی بنا پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مومن کا موسم بہار قرار دیا،چناں چہ سنن الکبری للبیہقی میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الشتاء ربیع الموٴمن، قصر نھارہ فصام، وطال لیلہ فقام․“ ”سردی کا موسم مومن کے لیے(نیکیوں کا ) موسم بہارہے،اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں جن میں یہ روزے رکھ لیتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جن میں وہ قیام کر لیتا ہے“۔موسم سرماکی اس خصوصیت کی بنا پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس کی آمد پربے حد مسرت کااظہار فرماتے اور اس کا پرتپاک طریقے سے اور شان دار الفاظ میں استقبال فرمایا کرتے تھے۔چناں چہ المقاصد الحسنة میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی روایت سے ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم منقول ہے:”مرحبا بالشتاء، فیہ تنزل الرحمة“ ․”سردی کو خوش آمدید!اس میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں“۔جن لوگوں کے ذمہ سابقہ نمازوں اور روزوں کی قضاء ہوں بالخصوص عورتیں جو مخصوص ایام میں عذر شرعی کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتیں، ان کے لیے قضا کے حوالہ سے یہ ایام قدرت کی طرف سے سنہری موقع ہیں ۔المعجم الصغیر للطبرانی میں حضرت انس  نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:”الصوم في الشتاء الغنیمة الباردة․“ ”سردیوں میں روزے رکھنا بڑی غنیمت ہے“۔