ملک وملّت کا اندوہ ناک سانحہ

ملک وملّت کا اندوہ ناک سانحہ
حضرت صدر دارالعلوم کراچی مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب 

مولانا عزیز الرحمن

حمدوستائش اس ذات کے لیے ہے جس نے اس کارخانہ عالم کو وجود بخشااور درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا۔

صدر دارالعلوم کراچی مفتی اعظم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب قدس اللہ سرہ اپنے بے شمار متعلقین واحباب اور ملک وبیرون ملک، علمی دینی حلقوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون، ان للہ ما اَخذ ولہ ما اعطی وکل شيء عندہ بأجل مسمّی ، وانا بفراقک یا سیدنا لمحزونون، ولا نقول الا بما یرضی ربنا ، برد اللہ مضجعہ واکرم مثواہ

اہل علم ودانش میں ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں جو اپنے وہبی اور کسبی کمالات سے بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں اور جن کے مساعی ومحاسن ہر ایک کو گرویدہ بنالیتے ہیں اورجن کی زندگی کے شب وروز بلند وبالا مقاصد کے محور سے سرموانحراف نہیں کرتے ، صدر جامعہ دارالعلوم کراچی رحمة اللہ علیہ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے، وہ علمی ودینی حلقوں کے سرخیل اور امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ تھے ، اپنی سیرت و سلوک سے ہر ایک کے لیے شفقت بھری ٹھنڈی اور راحت بخش چھاؤں تھے ، علم و دانش ، ورع وتقویٰ ، علمی اور انتظامی معاملات میں ان کی دور اندیشی ، دقیقہ رسی، تعلیمی اورتعمیری منصوبہ جات میں ان کی بلند حوصلگی ، پہاڑ کی طرح راہ حق میں ان کی استقامت اور نظم وضبط میں ان کی بالغ نظری ان کے وہ منفر داور نمایاں اوصاف تھے جن کی خوش بو کی مہک سے ہر ایک سرشار ہوجاتاتھا ، تعلیم وتدریس ، تصنیف وتالیف اور نظم وضبط کے علاوہ وہ میدان خطابت کے بھی شہ سوار تھے، اپنے پر سوز ، مؤثر اور بلیغ اسلوب بیان سے حاضرین کے دلوں میں راہ نکالتے تھے ،وہ بصیرت وفراست سے سرشار،دیدہ ور اور نبض شناس شیخ طریقت بھی تھے ،جو اپنے متوسلین کی اصلاح وتربیت کے لیے اصلاح اعمال واخلاق کے تیر بہدف ایمانی نسخہ جات تجویز کرتے تھے ، حضرت قدس اللہ سرہ خلوت نشین بھی تھے اور رونق محفل بھی ، طلبہ و مدرسین کا اجتماع ہو، عید ، جمعہ اور دیگر مواقع میں عوام الناس سے تخاطب ہو کوئی علمی، فقہی موضوع زیر بحث ہو ، عزیز واقارب کی بیٹھک ہو،یا وطن عزیز کی سیاست اوراس مملکت خداداد سے متعلق غور طلب کوئی معاملہ ہو… ہر جگہ ان کی بصیرت افروز گفت گو دل و دماغ کے دریچے کھولتی اور فکر ونظر کے افق روشن ہوتے ، عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق کوئی ناخوش گوار خبر سنتے تو ان کی بے چینی، بے قراری بہت سی خوابیدہ طبیعتوں کو مقدور بھر جدوجہد کی راہ پر گام زن کرتی ،وہ اپنے معمولات اور نظم اوقات کی پابندی میں خلل نہیں آنے دیتے تھے ، دارالعلوم اور اس کے شعبہ جات کا انہوں نے مثالی نظم قائم فرمایا تھا ،یہاں کے بندوبست سے متعلق انہوں نے تقریباً 30/شعبہ جات قائم فرمائے تھے اور ہر شعبہ سے متعلق دقیق وعمیق معاملات ومعلومات کا ان کو حیرت انگیز حد تک استحضار رہتاتھا۔

یہ وہ امور ہیں جن میں سے ہر ایک امرمستقل تصنیف کا عنوان بن سکتا ہے، ان تمام تر منصبی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ ملک وبیرون ملک اپنے عزیز واقارب اور احباب ومتعلقین کے حالات سے بھی آگاہ رہتے تھے، جب کہ ملک بھر کے اہل علم اور ارباب مدارس کا بھی ان سے رابطہ رہتاتھا ، ان کی دل داری کے لیے سفر کرکے ان کے پروگراموں میں شرکت فرماتے ، دارالعلوم کے فضلاء سے ان کا تعلق والد اور اولاد جیسا تھا، وہ بسا اوقات نامساعد حالات کے باوجود ان کی مشکلات ومسائل کے حل میں امکانی حدتک ان سے تعاون فرماتے ، حضرت اقدس نور اللہ مرقدہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کی غرض سے دو درجن سے زیادہ مسلم وغیر مسلم ممالک میں ___جو ایشیا، افریقہ ، شمالی وجنوبی امریکہ اور یورپ کے مختلف براعظموں میں واقع ہیں___ بار بار گئے ، جہاں ان ممالک کی مسلم آبادی ان کے علم وفضل سے فیض یا ب ہوتی رہی ۔

حضرت صدر صاحب رحمة اللہ علیہ مختلف ادوار میں وطن عزیز کے متعددریاستی اور غیر ریاستی اداروں میں بھی اپنے علم ودانش کی بنا پر مؤثر خدمات انجام دیتے رہے ہیں ، حضرت رحمة اللہ علیہ نے دارالعلوم کراچی میں پینسٹھ سال تک نہایت مشفق اور مربّی استاذ کی طرح مسند درس کی زینت بنے رہنے میں اپنی دیگر بھاری بھر کم ملکی وغیر ملکی ذمہ داریوں کے باوجوداس وقت تک کوئی کمی نہیں آنے دی جب تک کہ مختلف جسمانی عوارض سے وہ صاحب فراش نہیں ہوگئے ، راقم الحروف کو بھی باضابطہ ان سے تلمذ کا طالب علمانہ شرف حاصل رہا ہے ، حضرت رحمة اللہ علیہ جب مروجہ علوم وفنون کی تکمیل کرکے دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے تو اگلے سال 1960 ء سے ہی اپنی تدریسی زندگی کا آغاز فرمایا، درجہ ثانیہ کی اس جماعت کا ایک خوشہ چین یہ بندہ بھی رہا اور بحمداللہ تسلسل کے ساتھ دورئہ حدیث تک ضابطے کا طالب علمانہ تعلق جاری و ساری رہا، جب کہ بعد میں بھی یہ بندہ عاجز ان کی ہمہ جہت سرپرستی ، راہ نمائی اور ان کی مشفقانہ توجہات کا ان کی مدت حیات تک ،جب تک وہ بستر علالت کے اسیر نہیں ہوئے تھے ،مرہون منت رہا ، اب اس شجر پربہار کے سایہ عاطفت سے ہم سب محروم ہوگئے ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون

لیکن اس حقیقت کو کیوں کر نظر انداز کیاجاسکتا ہے کہ موت وزیست اس جہان بود و باش کی ناقابل تغیر خاصیت ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد اُسی لمحے واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ، ہم اپنی اپنی عمر کے ماہ وسال گنتے ہیں وہ دراصل ترقی پذیر گنتی نہیں ہے، بلکہ معکوس اعداد ، ڈاؤن کاؤنٹنگ ہے کہ آنے والے کے پاس مدت عمر کا جو ساٹھ ، ستر یا اسی سال کا ذخیرہ ہے وہ گذرتے ماہ وسال کے ساتھ زیر و(0) ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دانا وبینا انسان نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے ، انسانوں کو سرگرم عمل دیکھ کر ہمیں بالعموم اس حقیقت کا استحضار نہیں ہوتا ، لیکن یہ اسی طرح کی کھلی حقیقت ہے جس طرح طلوع شمس کے بعد شام کو اس کا زیر افق جاکر غروب ہوجانا یقینی ہے ، ہمیں یہ ہدایت بھی ہے کہ آمد کے بعد اس روانگی کو یاد رکھو اور زندگی کے شب وروز کو زیادہ سے زیادہ کار آمد اور قیمتی بناؤ،کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کی زندگی بھی مبارک گذری ہو اور جن کی روانگی بھی مبارک ہو ، رب کریم ہر بندہ مؤمن کو اس سعادت سے سرفراز فرمائے ، آمین۔

حضرت رحمة اللہ علیہ اپنی حیات مستعار کے آخری دو سالوں میں مختلف عوارض کی وجہ سے صاحب فراش رہے ، ایسے اوقات بھی آئے کہ مسلسل غنودگی کی کیفیت ہوجاتی تھی ، وفات سے آدھ گھنٹہ پہلے ان کی طبیعت میں معمول کی بشاشت آگئی تھی ، اپنے تیمار داروں سے انہوں نے گفتگو بھی کی اور عیادت کے لیے آنے والے ایک صاحب کی ضیافت واکرام کی طرف بھی توجہ دلائی، لیکن کچھ لمحوں میں حرکت قلب کی کارکردگی دکھانے والے مانیٹر کی ریڈنگ کم ہوتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مانیٹر زیرو (0)پر آگیا،معا لجین دوڑ کر آئے، جائزہ لیا اور پھر یہ الم ناک اطلاع دی کہ حضرت اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔

23/ربیع الثانی 1444ھ (18/نومبر2022م )شب شنبہ تقریباً 8 بجے وہ ہمیشہ کے لیے اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے، بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے نماز جنازہ دوشنبہ کے دن صبح9 بجے ادا کی گئی، جنازے کے لیے دارالعلوم کا وسیع احاطہ کم پڑگیا تھا ، کراچی کے طو ل وعرض کے علاوہ ملک بھر کے دور دراز علاقوں سے بھی اہل محبت پہنچ گئے تھے ، جب کہ بیرون ملک سے بھی متعدد عقیدت مند شریک نماز تھے ۔

1355ھ کو دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ کے دولت خانے واقع قصبہ دیوبند میں جس گوہر نایاب نے آنکھیں کھولی تھیں تقریباً 89 سال کے بامقصد شب وروز گذار کر اب وہ وہاں جاچکے ہیں جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی ۔

رب کریم ان کو اپنے مقربین کی صف اوّل میں رفعت وبلندیوں کا مقام رفیع عطا فرمائے ،ان کے نسبی اور نسبتی لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کے فیض کو تا ابد قائم ودائم رکھے ۔اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ ۔ آمین! یارب العلمین!