مرزا آستین کاسانپ

مرزا آستین کاسانپ

مولانا اسماعیل ریحان

گزشتہ دو صدیوں کے دوران انگریزوں نے مسلمانوں میں جتنے غداروں کی پرورش کی ہے، ان میں مزرا غلام احمد قادیانی کا نام سب سے نمایاں ہے۔ وہ نبوت کے جھوٹے دعوے کی وجہ سے کافر مرتد تھا او راُمّت کے لیے خطرناک گم راہ کنندہ اور بدترین دجال تھا۔ اس لحاظ سے اس کا یا اس کے پیروکاروں کا مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مرزا قادیانی او راس کے چیلے پکے کافر اور اسلام سے خارج ہیں۔ تاہم اس مضمون میں انہیں آستین کے سانپوں یعنی غداروں میں اس لیے شمار کیاجارہا ہے کہ یہ لوگ خود کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں او رمسلم معاشرے میں رہ کر ان کی بڑی بڑی حکومتوں ، اداروں اورتحریکوں کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔

قادیانی جماعت کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی عرف کانا قادیانی مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں قادیان میں پیدا ہوا۔ جاگیرداروں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے آبا واجداد انگریزوں کے وفادار تھے، اس کا باپ مرزا غلام مرتضیٰ انگریزوں کا پٹھو تھا۔

1857ء کی جنگ آزادی برپا ہوئی تو اس کے باپ او ربڑے بھائی مرزا غلام قادر نے انگریز کی دل وجان سے خدمت کی او رانگریز ی فوج کا ساتھ دے کر مسلمانوں کا خون بہایا۔

جنگ آزادی 1857ء اور اس سے کچھ عرصہ قبل سید احمد شہید رحمہ الله کی تحریک جہاد سے انگریز یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ ہے، انہیں مٹانا ناممکن ہے، چناں چہ انہوں نے مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو بالکل ختم کرنے کے لیے ایک ایجنٹ کی تلاش شروع کر دی۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ عرب سے ایک مجاہد راہ نما شیخ صالح ہندوستان آئے۔ وہ یہاں کے محکوم مسلمانوں میں جذبہ جہاد اُجاگر کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس مکہ معظمہ ومدینہ منورہ کے علمائے کرام کا یہ فتوی موجود تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔ اس فتوے کے ذریعے وہ مسلمانوں کو جھنجھوڑنا چاہتے تھے، مگر ہوا یوں کہ جوں ہی شیخ صالح ہندوستان پہنچے، انگریزوں کو مخبروں نے ان کی خبر دے دی، چناں چہ انہیں گرفتار کر لیا گیا او ران سے تحقیق وتفتیش شروع کی گئی۔ انگریز افسران یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ شیخ صالح کے رابطے کن کن مقامی لوگوں سے ہیں، تاکہ ان سب کو بھی گرفتار کر لیا جائے۔ یہ کیس سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر پارکنسن کے پاس تھا۔ شیخ صالح سے تفتیش کے دوران اسے ایک عربی جاننے والے ترجمان کی ضرورت پڑی۔ کسی نے اسے مرزا قادیانی کا نام بتایا، جوان دنوں بالکل غیر معروف تھا۔ پارکنسن نے مرزا کو شیخ صالح سے تفتیش میں ترجمان کے طور پر مقرر کر دیا۔ مرزا نے تفتیش میں زبردست کردار ادا کیا، اس سے انگریز افسران بہت خوش ہوئے اور مرزا کانا ان کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گیا۔

کچھ عرصہ بعد مرزا نے برطانوی انٹیلی جنس کے ایک افسر مسٹر ہٹلر سے مراسم بڑھانے شروع کیے۔ یہ افسر پادری کے روپ میں ہندوستان آیا تھا، مرزا نے اسے یقین دلایا کہ وہ برطانوی گورنمنٹ کے لیے ہر خدمت انجام دے سکتا ہے، چناں چہ اس افسر کی وساطت سے مرزا کو انگریر حکومت نے اپنے مہرے کے طور پر منتخب کر لیا۔

انگریز حکومت کی سرپرستی ملنے کے بعد مرزا اپنے علاقے قادیان چلا گیا او راخبارات میں مضامین لکھ لکھ کر شہرت حاصل کی۔ یہ اس کی مہم کا پہلا حصہ تھا۔ ساتھ ساتھ اس نے ہندوؤں اورعیسائیوں سے مناظرے کرکے خود کو مبلغ اسلام کے روپ میں پیش کیا۔ جب خاصے لوگ اس کے معتقد ہو گئے تو اس نے اپنی تحریروں میں جہاد کی مخالفت شروع کر دی،اس سلسلے میں اتنی کتابیں، رسالے اورمضامین لکھے کہ خود مرزا کے بقول ان سے پچاس الماریاں بھرسکتی ہیں ( لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ایک المار ی بھی یہ لوگ بھر کرنہیں دکھا سکتے)۔

مرزا کی جہاد مخالف تحریک چلانے سے انگریز بڑے خوش ہوئے، وہ اس کی تحریکوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت کے لیے خفیہ طور پر مالی تعاون کر رہے تھے۔ ادھر مرزا نے مذہبی مبلغ او رمصلح کا روپ دھارنے کے بعد خود کو ”مجدد“ مشہور کر دیا اور پھر 1891ء میں خود کو ”مہدی“ کے طور پر متعارف کرایا، جہاد کی مخالفت ساتھ ساتھ جاری رہی۔ ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک میں بھی وہ جہاد کی فضا ختم کرنے کے لیے کوشش کرتا رہا۔ اس نے لکھا ہے:

”میں نے بائیس برس سے اپنے ذمے یہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتایں جن میں جہاد کی مخالفت ہو، مسلم ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہوں، اس وجہ سے میر ی عربی کتابیں عرب ممالک میں بھی بہت شہرت پاگئی ہیں۔ جو لوگ درندہ طبع ہیں او رجہاد کے بارے میں میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ فی الفور چڑ جاتے ہیں او رمیرے دشمن ہو جاتے ہیں۔“
اس تحریر میں درندہ طبع سے مراد مجاہدین ہیں۔ (نعوذ بالله)

اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں، مگر مرزا نے کچھ عرصے بعد دعوی کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ساتھ ہی نبوت کا دعوی کرتے ہوئے خود کو مسیح موعود قرار دیا۔ مرزا قادیانی کی اس جھوٹی نبوت کو انگریر حکومت نے خوب پروان چڑھایا اور سینکڑوں لوگ گم راہ ہو کر ختم نبوت کے منکر او رانگریزوں کے ایجنٹ بن گئے۔

1908ء میں مرزا قادیانی ہیضے کے مرض میں مبتلا ہوا اور غلاظت میں لتھڑ کر بہت بری موت مر گیا۔ اس کی ساری زندگی انگریروں کی خدمت اورمسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں گزری، اس کی عمر بھر کی کارستانیاں اسلام کے خلاف استعمال ہوئیں۔ مرزا نے کوئی ایک تحریر بھی ایسی نہیں لکھی جس میں مسلمانوں کی آزادی ، خود مختاری، خود داری اور غیرت قومی کا احساس اجاگر ہوتا ہو۔ اس نے پوری کوشش کی کہ مسلمان قرآن وسنت سے دور ہو کر اس کی جھوٹی نبوت کے جال میں آجائیں اور یوں انگریز کے غلام بن جائیں، مگر علمائے امت نے اس کی ناپاک سازش کو ناکام بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کی۔

مولانا سیّد انور شاہ کاشمیری، مولانا سیّد عطا ء الله شاہ بخاری، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا لال حسین اختر، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہم الله جیسے بزرگوں نے تحریک ختم نبوت چلا کر قادیانیوں کے چھکے چھڑا دیے۔

قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں نے اپنا مرکز قادیان سے چناب نگر (ربوہ) منتقل کر لیا اور سازشوں میں مصروف رہے۔ آخر کار 1953 میں دوبارہ ان کے خلاف زبردست تحریک چلی، مختلف مراحل کے بعد ستمبر1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیت کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔1984ء میں صدر ضیاء الحق کی طرف سے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہونے کے بعد قادیانیوں کا سربراہ مرزا طاہر لندن بھاگ گیا اور وہیں مرا۔

قادیانی اگرچہ اپنی کوششوں کے ذریعہ سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے میں اب بھی مصروف ہیں، مگر اتنی بات یقینی ہے کہ غدار ِ امت مرزا گامے قادیانی کی جھوٹی نبوت کو نہ قبولیت عامہ حاصل ہوئی تھی نہ ہوسکتی ہے۔ ان شاء الله وہ دن دور نہیں جب قادیانیوں کو کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی۔