مدارس اسلامیہ کے مدرسین کے لیے تدریس کے راہ نما اصول

مدارس اسلامیہ کے مدرسین کے لیے تدریس کے راہ نما اصول

مفتی عزیز الرحمن قاسمی

الله او راس کے پیارے رسول محمد صلی الله علیہ وسلم کے بعد انسان کا سب سے بڑا محسن ومربی استاذ ہے۔ استاذ کا احسان والدین سے بھی زیادہ ہے، اس لیے کہ حیات دو طرح کی ہوتی ہے ،ایک ظاہری ودنیوی حیات اور دوسری باطنی واخروی حیات، والدین انسان کے ظاہری حیات کے لیے سبب ہیں ،لیکن استاذ کی ذات ہی ہے جو انسان کی باطنی حیات کا ذریعہ وسبب ہے، جس پر آخرت کی دائمی حیات کا دار ومدار ہے ، یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے استاذ کا مرتبہ بہت بلند فرمایا ہے۔ سید دو عالم محمد صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”انما بعثت معلما“ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔اس کے تناظرمیں ہر استاذ اپنے شاگردوں پر اس بات کا اظہار کر دے کہ ہر مسئلہ او رہر بات نہ میں جانتا ہوں اور نہ اس کا دعوی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہے کہ میرے پاس مجہولات زیادہ ہیں اور معلومات کم ہیں، جس کا لازمی فائدہ یہ ہو گا کہ کسی مسئلہ میں اگر اٹک گئے تو شرمندگی نہیں ہوگی۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں، میرے ایک ابتدائی کتابوں کے استاذ رحمة الله علیہ نے اپنی ایک حکایت بیان فرمائی تھی کہ انہوں نے کسی معلم سے فارسی پڑھنے کی درخواست کی، انہوں نے کہا کہ بھائی! پڑھنے سے پہلے یہ سن لو کہ تم مجھ کو عالم الکل سمجھ کر پڑھنا چاہتے ہو یا عالم البعض سمجھ کر؟اگر شقِ اول ہے تو مجھے معاف رکھو، کیوں کہ میں عالم الکل نہیں ہوں اور اگر شق ثانی ہے تو بے شک مجھ میں یہ صفت ہے، لیکن اس کا مقتضی یہ ہو گا کہ کبھی کسی مضمون کے بارے میں یہ کہہ دوں گا کہ مجھ کو معلوم نہیں تو مجھ کو پریشان مت کرنا اور دوسری جگہ حل کر لینا۔ سبحان الله! کیسی پاکیزہ بات انہوں نے کہی! پس ہر عالم کو یہی سمجھنا ضروری ہے۔

استاذ کو چاہیے درس گاہ میں جانے سے پہلے نظافت حاصل کرے، خوش بو لگائے، اچھا پروقار لباس زیب تن کرے۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے درس حدیث کے آداب میں لکھا ہے کہ وہ پہلے غسل فرماتے، خوش بو لگاتے، نیا لباس ملبوس فرماتے نشست پر بیٹھتے ،پھر درس شروع کرنے سے پہلے الله تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوتے۔ علم کی اشاعت، احکام دین کی تبلیغ ، اسلام اورمسلمانوں کی خیر کی نیت کرتے۔ استاذ کو چاہیے کہ اپنے حجرہ سے نکلتے وقت مسنون دعا پڑھے۔ درس سے پہلے ذکر کرے، درس گاہ میں داخل ہوتے ہی سلام کرے اور الله تعالیٰ سے توفیق، اعانت وعصمت طلب کرے، سکون، وقار، تواضع کی ہیئت اختیار کرے اور بد ہیئتی سے پرہیز کرے۔ دوران درس، بدن، لباس یا کسی چیز سے نہ کھیلے اور ہنسی مذاق سے پرہیز کرے، بھوک ، پیاس، غم وغصہ کی حالت میں درس نہ دے۔ اس امر کا بطور خاص اہتمام کرے کہ تھوڑا سا پڑھائے، مگر مطالعہ خوب کرکے، یہ خیال نہ کرے کہ زیادہ زیادہ پڑھا دوں، تا کہ کتاب جلد ختم ہو جائے ۔کتاب جلد ختم کراکر کیا کریں گے جب طلبہ سمجھیں گے ہی نہیں یا یاد نہیں ر کھیں گے؟ اور یہ بھی خیال نہ کرے کہ دوسری کتاب میں سمجھالیں گے، کیوں کہ شاید دوسری کتاب پڑھنے پڑھانے کا موقع نہ ملے۔ ہمیشہ یہ مثل پیش نظر رکھے کہ ”جو تھوڑا پڑھاتا ہے وہ تھوڑے دن میں پڑھاتا ہے او رجو زیادہ پڑھاتا ہے وہ زیادہ دن میں پڑھاتا ہے “ وجہ ظاہر ہے کہ جو زیادہ پڑھائے گا وہ مطالعہ ٹھیک طور پر نہیں کرے گا ،نہ گزشتہ سبق کی نگرانی کرسکے گا، نہ اچھی طرح سمجھے گا۔ اس لیے استاذ کو چاہیے کہ گزشتہ سبق کا ان سے سوال کر لیا کرے، یہاں تک کہ پختہ ہو جائے۔ مرشدی واستاذی حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کا یہی معمول تھا۔

ابتدا میں سبق کی مقدار کم رکھے، اس بارے میں کہنہ مشق اساتذہ اس بات پرزور دیتے ہیں کہ مبتدی کے لیے سبق کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ جس کو وہ زبانی یاد کرے، آسانی سے دو مرتبہ دہرا سکے اور روزانہ تھوڑا تھوڑا پڑھاتا رہے، تاکہ اگر سبق طویل ہو جائے اور زیادہ ہو جائے تو بھی یاد کرکے دہرانا آسان رہے، لیکن اگر سبق کی مقدار ابتدا ہی سے زیادہ ہو کہ دس دس مرتبہ میں سمجھ میں آئے تو یاد کیسے ہو گا؟ جب ابتدا میں یہ کیفیت ہو گی تو آخرتک یہی کیفیت رہے گی اور اس عادت کا چھوٹنا بہت مشکل ہے، اس لیے کم پڑھائے، مگرخوب یاد کرائے اور یہ بھی یاد رکھے کہ ابتدا ایسی چیز اور ایسی کتاب سے کرے جس کا سمجھنا آسان اور مختصر ہو۔

استاذ کے پیش نظر یہ بات ملحوظ ہو کہ سبق پڑھاتے وقت ایسی تقریر نہ کرے جو طالب علم کی فہم اور استفادہ سے بالاتر ہو، اس میں معلم دو عالم صلی الله علیہ و سلم کی پیروی کرے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم کو یہ حکم ہے کہ لوگوں کے مراتب کا لحاظ رکھیں اور ان کی عقل او رسمجھ کے مطابق ان سے گفتگو کریں اور فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی قوم کے سامنے ایسی بات کرتا ہے جس کو وہ نہیں سمجھ سکتے تو وہ بات فتنہ کا سبب بن جاتی ہے۔

اس موقع پر سیدنا حضرت علی ابن ابی طالب رضی الله عنہ کے معمولات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس میں بہت سے علوم ہیں، بشرطیکہ ان کے سمجھنے والے ہوں۔ یعنی میں ان کو اس لیے ظاہر نہیں کرتا کہ ان علوم کا کوئی متحمل نہیں ہے۔ مشاہدہ ہے کہ آج کل محض اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے ابتدائی کتابوں میں ایسی تقریر کرتے ہیں کہ اس فن کے منتہی طلبہ بھی اس کو مشکل ہی سے سمجھ سکیں ،اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو ضروری باتیں زیر سبق کی ہوتی ہیں وہ بھی طالب علم نہیں سمجھ پاتا ہے اورنہ یاد کرسکتا ہے۔

صاحب رحمة المتعلمین ایک جگہ لکھتے ہیں کہ استاذ کو چاہیے کہ ہر کتاب کا خلاصہ بیان کر دے، نئے مضامین پر ان کو مطلع کر دے، ان کو نوٹ کرادے، تاکہ یاد کرنے میں آسانی ہو۔الامام الہمام حضرت مالک علیہ الرحمة فرماتے ہیں ”لاینبغی للعالم ان یتکلم بالعلم عند من لا یطیقہ“ عالم کے لیے مناسب نہیں ہے کہ کسی شخص کے سامنے ایسی بات کرے جس کا سمجھنا اس کی طاقت سے بالاتر ہو۔ شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمة الله علیہ ”حجة الله البالغہ“ میں تحریر فرماتے ہیں ”ومنہ ان لایبین من العلم ما ھو حظ المنتھی، بل یربی بصغائر العلم قبل کبائرہ“ اس کے طریق کار میں سے یہ بھی ہے کہ وہ علوم جو منتہی کے مناسب ہیں وہ مبتدی سے نہ بیان کرے، بلکہ بڑے بڑے علوم سے پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیان کرکے تربیت کرے۔ فطرت سلیمہ کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ابتدا میں آسان اور موٹی موٹی چیزیں بیان کی جائیں ،جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے تفصیل بڑھاتے جائیں اگر ابتدا میں ہی تفصیل بیان کرنا شروع کر دی اور مشکل وعمیق بحثوں میں پڑ گئے تو طالب علم کو کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا او ربجائے فائدہ کے نقصان ہو گا۔

ہر باکمال مدرس کو چاہیے کہ جہاں پیچیدگی آجائے او ربر وقت سمجھ میں نہ آئے تو باتیں نہ بنائے، بلکہ صاف کہہ دے کہ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا ہے، دوسرے وقت کتاب دیکھ کر یا کسی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ’ ’اے لوگو! جو بات جانتے ہو وہی کہو، جو نہیں جانتے ہو اس پر والله اعلم کہو، کیوں کہ علم کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جو بات نہ جانتا ہو اس میں لاعلمی کا اعتراف کرے“۔ (مسلم)

حضرت امام شعبی علیہ الرحمہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم۔ یہ جواب سن کر ان کے کسی شاگرد نے کہا کہ آپ نے لاعلمی کا اقرار کرکے ہم کو شرمندہ کر دیا، تو امام شعبی نے فرمایا: لیکن ملائکہ مقربین تو لاعلمی کا اقرار کرکے شرمندہ نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے کہا:﴿لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم﴾ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا، میں نہیں جانتا۔ وہ آدمی کہنے لگا: عبدالله بن عمر نے کیا اچھا طریقہ اختیار کیا! جو نہیں جانتے اس سے لاعلمی کا اقرار کر لیا۔

ایک دفعہ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ سے میراث کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا تو ان سے کہا گیا آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالله بن عمر کو جو بات معلوم نہیں ہوتی تھی تو صاف صاف لفظوں میں اقرار کر لیتے کہ مجھے معلوم نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت سعید بن جبیر علیہ الرحمہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو کہنے لگے مجھے معلوم نہیں۔ اور ہلاکت ہے اس کے لیے جو علم نہ رکھنے پر علم کا دعوی کرے۔

حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے منقولات میں ہے کہ انہوں نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کا قول نقل فرمایا کہ عالم جب لاادری کہنا بھول جاتا ہے تو ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔