ماہ ِ رمضان کے بعد ہمارے معمولات ِ زندگی

ماہ ِ رمضان کے بعد ہمارے معمولات ِ زندگی

مولانا محمد نجیب قاسمی

عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت عمل صالح کے بعد دیگر اعمال صالحہ کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد نافرمانی کی طرف عدم رجوع ہے۔ نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت، یعنی پابندی ہو، خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایام کو کسی خاص عمل کے لیے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا :اے عبداللہ! فلان شخص کی طرح مت بنو،جو راتوں کو قیام کرتا تھا ،لیکن اب چھوڑدیا۔ (بخاری ومسلم)

لہٰذا ماہِ رمضان کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمیں برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کا سلسلہ باقی رکھنا چاہیے کیوں کہ اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کام یابی وکام رانی مضمر ہے۔ چند اعمال تحریر کررہا ہوں، دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان کا بھی خاص اہتمام رکھیں۔

نمازعید الفطر کی ادائیگی
عید الفطر کی شب میں عبادت کرنا مستحب ہے اور دن میں روزہ رکھنا حرام ہے۔عید الفطر کے دن دو رکعتوں کا بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب استطاعت عمدہ کپڑے پہننا، خوش بو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے صدقہٴ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عید گاہ /مسجد جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر کہنا، یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔عید کی نماز کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوجاتاہے۔ عید کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اُس کا سننا ضروری ہے۔ جو لوگ خطبہ کے دوران بات چیت کرتے رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑکر چلے جاتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔

ماہِ شوال کے روزے
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حق دار ہوتا ہے گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورہٴ الانعام :160) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو 60 دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔ یہ چھ روزے ماہِ شوال میں عید کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے۔

فرض نماز کی پابندی
نماز ایمان کے بعد دین اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے، جس کی ادائیگی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن انتہائی تشویش وفکر کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اِس اہم فریضہ سے بے پروا ہے۔ رمضان کے مبارک ماہ میں تو نماز کا اہتمام کرلیتے ہیں مگر رمضان کے بعد پھر کوتاہی اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن وحدیث میں اِس فریضہ کی بہت زیادہ اہمیت اور تاکید وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر وقت (رمضان اور غیر رمضان) نماز کا پابند بنائے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یقیناًنماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔ (سورہٴ النساء:103 ) دن رات میں کل 17رکعتیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں:2 رکعتفجر کی 4رکعت ظہر کی،4 رکعت عصر کی ، 3رکعتمغرب کی اور عشاء کی 4رکعت۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کام یاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد ، مسند احمد)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اس کو عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کردے۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، ابوداود ، مسند احمد)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی:نماز، نماز…(یعنی نماز کا اہتمام کرو)۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نماز کی پابندی کرکے اس کی حفاظت کی اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا مالک)

نمازِ وتر کی پابندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یقیناًاللہ تعالیٰ نے تم پر ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے، جس کا وقت عشا کی نماز سے طلوعِ فجر تک ہے۔ (ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد) حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت مسلمہ کو نمازِ وتر پڑھنے کا امر (حکم) موجود ہے، جو عموماً وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بعد نمازِ عشا یا اذانِ فجرسے قبل وتر پڑھنے کی پابندی کرنی چاہیے۔احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز وتر کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر دوسرے دن طلوع آفتاب کے بعد کسی بھی وقت قضا کرلینی چاہیے۔

سنن مؤکدہ کا اہتمام
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جس شخص نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں (فرض کے علاوہ) پڑھیں، اُس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیا گیا۔ (مسلم) ترمذی میں یہ حدیث وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دن رات میں مندرجہ ذیل بارہ رکعتیں پڑھے گا اُس کے لیے جنت میں گھر بنایاجائے گا: 4ظہر سے پہلے، 2ظہر کے بعد، 2مغرب کے بعد،2 عشاء کے بعد اور2 فجر سے پہلے۔ ان سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر سنن غیر مؤکدہ، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیة الوضو اور تحیة المسجد کا بھی اہتمام فرمائیں۔

قرآن کی تلاوت کا اہتمام
تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں، خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ علماء ِ کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں کو پہنچائیں۔ یہ میری ، آپ کی اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنی چاہیے کیوں کہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لیے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ا لم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)

حلال رزق پر اکتفا
حرام رزق کے تمام وسائل سے بچ کر صرف حلال رزق پر اکتفا کریں ،خواہ مقدار میں بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کل قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا، یہاں تک کہ وہ پانچ سوالوں کے جواب دے دیے۔ ان پانچ سوالات میں سے دو سوال مال کے متعلق ہیں کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفا کرے، جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مسند احمد) نیز نبی اکرم اکا فرمان ہے کہ حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں؟! (صحیح مسلم)

عصر حاضر میں بعض ناجائز چیزیں مختلف ناموں سے رائج ہوگئی ہے، ان سے بچنا چاہیے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اُس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا، اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ چرواہے کی تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے وہ بکریاں دوسرے کی چراگاہ سے کچھ کھالیں۔ (بخاری ومسلم)

بچوں کی دینی تعلیم وتربیت
ہماری یہ کوشش وفکر ہونی چاہیے کہ ہماری اولاد اہم وضروری مسائل شرعیہ سے واقف ہوکر دنیاوی زندگی گزارے اور اخروی امتحان میں کام یاب ہوجائے، کیوں کہ اخروی امتحان میں ناکامی کی صورت میں دردناک عذاب ہے، جس کی تلافی مرنے کے بعد ممکن نہیں ہے، مرنے کے بعد آنسو کے سمندر بلکہ خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزاریں گے تو ہمارا بچوں کی تعلیم میں مشغول ہونا، ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا اور ہر عمل دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی دلانے والا بنے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بالغ ہونے کے باوجود نماز وروزہ کا اہتمام نہیں کرایا جاتا کیوں کہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ کے استعمال سے دوری
معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہٰذا فحش وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں اور اپنی اولاد وگھر والوں کی بھی خاص نگرانی رکھیں، تاکہ یہ جدید وسائل آپ کے ماتحتوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں، کیوں کہ آپ سے ماتحتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(سورة التحریم :6)

اللہ تبارک وتعالیٰ مغفرت اور رحمت والے مہینہ میں کیے گئے ہمارے تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔