ماہ شعبان کے احکام و فضائل

ماہ شعبان کے احکام و فضائل

مولانامحمد اصغر

شعبان کی وجہ تسمیہ
شعبان المعظم ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے،شیخ عبد الحق محدث دھلوی نے اپنی کتاب ،ما ثبت بالسنہ ، میں حضرت انس بن مالک کے حوالہ سے یہ بیان فرمایا ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں(کے ثواب) میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے ، کیوں کہ شعبان کے مہینے میں بہت سی نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں،جیسے رمضان کے مہینے میں گناہ جلا دیے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس کو شعبان کہتے ہیں ۔

لفظ شعبان کی حقیقت
شعبان کا لفظ عربی گرائمر کے اعتبار سے شعب سے بنا ہے،جس کے لفظی معنی شاخ در شاخ کے ہیں،اس مہینے میں چوں کہ خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں اور روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے ،اس وجہ سے اس کو شعبان کہا جاتا ہے ۔

شیخ عبدالقادر جیلانیفرماتے ہیں کہ لفظ شعبان میں پانچ حروف ہیں اور ان میں سے ہر ایک خاص معنی کوظاہر کرتا ہے،مثلاًش سے شرفع سے علو ،یعنی بلندی ب سے بر، یعنی نیکی ا لف سے الفت ن سے نورمراد ہے ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے خصوصی انعامات ہیں۔

ماہ شعبان کی فضیلت واہمیت
اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو بڑا قیمتی بنایا ہے،اس کو اپنی رحمتِ خاصہ اور برکت تامہ سے نوازنے کے لیے مختلف مواقع عطا فرمائے ہیں،پہلی امتوں کی عمریں لمبی اور جسمانی قوتیں مضبوط ہوتی تھیں،اس کے مقابلے میں امت محمدیہ کی عمریں بھی کم ہیں اور صحت کے اعتبار سے بھی کمزور ہیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے طفیل آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کو خاص انعامات اور اعزازات سے نوازا ہے کہ محنت تھوڑی اور بدلہ لا محدود ،بے انتہا اجروثواب کی سعادت اس امت کو حاصل ہے، چوں کہ شعبان کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے ،جیسا کہ شوال کا مہینہ رمضان کا تتمہ ہے ،اسی وجہ سے اس مہینے کو خاص فضیلت حاصل ہے۔

ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چار راتیں ایسی ہیں کہ ان چار راتوں میں اللہ تعالیٰ سب لوگوں پر نیکیوں کے دروازے کھول دیتا ہے عیدالفطر کی رات عیدالاضحی کی رات 3عرفہ کی رات4 شب برأت کی رات،ان میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی عمریں،ان کا رزق اور ان کے حج کے بارے میں احکام لکھ دیتے ہیں۔(غنیة الطالبین)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ شعبان کے چاند کا شماررکھو،رمضان کے لیے(یعنی جب ماہ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی)۔(ترمذی)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ(کے چاند)کااتنا خیال نہ فرماتے تھے۔(ابوداوٴد)ان روایتوں سے قولاً وفعلاً اس ماہ کے چاند کا اہتمام ثابت ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ  روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو نہ پایا تو پھر نا گہاں وہ بقیع میں پائے گئے ،تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ !کیا تمھیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے،میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! میں نے خیال کیا کہ شاید آپ صلی الله علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، اس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہبے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں۔

موٴرخین نے لکھا ہے،کہ قبیلہ کلب کے پاس تقریباً بیس ہزاربکریاں تھی۔

حضرت عائشہ صدّیقہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم(تقریباً)پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور فرماتے :نیک عمل اتنا ہی کیا کرو جتنی تمھاری طاقت ہے، کیوں کہ اللہ ثواب دینے سے تھکے گا نہیں،تم ہی تھک جاؤگے۔(بخاری،ج:2)

بعض بزرگوں سے منقول خاص اعمال کی حقیقت
اللہ کے بعض نیک بندوں سے جو خاص قسم کے نوافل منقول ہیں،یہ ان بزرگانِ دین کی اپنی رائے اور خیالات ہیں،شریعت کا حکم سمجھے بغیر محض بزرگوں کا عمل سمجھ کر کوئی کرے تو کوئی حرج نہیں۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوّر اللہ مرقدہ بعض بزرگوں سے منقول خاص نوافل کے بارے میں فرماتے ہیں ،کہ اوراد کی بعض کتابوں میں جو پندرہویں شعبان میں خاص نوافل کی تحریر ہے،یہ کوئی قید نہیں ہے، اور جو چیز شرعاً بے قید ہو،اس کو بے قید ہی رکھو ،چوں کہ حدیث میں نوافل کی کوئی قید نہیں آئی ،بلکہ جو عبادت آسان ہو وہ کر لو، اس میں نوافل بھی آگئے اور وہ بھی کسی ہیئت کے بغیر(حقیقت عبادت: 466)۔

شب برأت (نجات کی رات)
شب کے معنی:رات کے ہیں،اور برأت کے معنی:بری ہونے کے ہیں، شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہتے ہیں، یوں تواللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہردن، ہر ہفتہ، ہر مہینہ اور ہر سال ہی محترم ہے،مگر کچھ دن اور کچھ مہینوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص فضیلت عطا فرمائی ہے ،جیسے ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعة المبارک کے دن کو خاص اہمیت وفضیلت حاصل ہے،خاص کر نماز جمعہ کی بابرکت گھڑیاں اور بعد نماز عصر کے قیمتی لمحات، جس میں 80مرتبہ خاص درود شریف پڑھنے پر80 سال کی عبادت کا ثواب اور 80 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں،اسی طرح راتوں میں سے شب جمعہ،عید الفطر کی رات،شب قدر اور شب برأت کی رات ،اسی طرح مساجد میں سے مسجد نبوی،مسجد اقصٰی اور حرمین شریفین کو خاص اہمیت وفضیلت حاصل ہے،اسی طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے شعبان المعظّم کا مہینہ بھی ہے، کیوں کہ اسی مہینے میں بنی آدم کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں۔

شب برأت اسلام میں ایک مبارک رات ہے،جس کی فضیلت بہت سی احادیث سے ثابت ہے،بعض لوگ سرے سے اس مبارک رات کے کسی قسم کی فضیلت کے ہی قائل نہیں،جب کہ بعض لوگ اس کو شب قدر کے ہم پلہ سمجھتے ہیں،یہ دونوں موٴقف درست نہیں،بموجب حدیث اس رات میں بے شمار گناہ گاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش کی جاتی ہے اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے، اس لیے عرف میں اس کا نام شب برأت مشہور ہو گیا،احادیث میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں، بلکہ لیلة النصف من شعبان کہہ کراس کی فضیلت بیان کی گئی ہے، زندگی ، موت،رزق (ایک سال )کے فیصلے اسی رات میں ہو تے ہیں۔

حضرت عائشہ صدّیقہ روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ،کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات(پندرہویں شعبان) میں کیا ہے؟ ،عائشہ صدّیقہ نے عرض کی، کہ اے اللہ کے رسول اس رات میں کیا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ،کہ جس بچے نے اس سال میں پیدا ہونا ہوتا ہے ،وہ اس رات میں لکھا جاتا ہے ،اور اس سال میں جو بنی آدم ہلاک ہونے والا ہوتا ہے اس کا نام لکھا جاتا ہے،اور اس رات میں ان کے اعمال اٹھا لیے جاتے ہیں ،اور اسی رات میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں،پھر عائشہ صدیقہ  نے کہا، کہ اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم !کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہو،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں جا سکے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کلمہ تین دفعہ ارشاد فرمایاتو میں نے کہا کہ آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جا سکیں گے؟پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک سر پر رکھ کر فرمایا، اور میں بھی نہیں جا سکوں گا،مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہجملہ تین دفعہ ارشاد فرمایا۔(رواہ البیہقي في الدعوات الکبیر)․

شب برأت کے کام
عبادت ودعاکرنا…اکثرعلماء،فقہاء اورمحدثین کی رائے یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات فضیلت والی رات ہے ،اس میں تنہا عبادت (نوافل ، دعا وغیرہ) باعث خیروبرکت اور مستحب عمل ہے،اگر اس کو واجب سمجھا جائے،تو یہ بدعت بن جائے گا۔

قبرستان جاکر دعائے مغفرت کرنا… آپ صلی الله علیہ وسلم پندرہ شعبان کی رات کو خلاف معمو ل زندگی میں صرف ایک بار قبرستان تشریف لے گئے، ہر سال آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول نہ تھا، اس وجہ سے اس کو ہر سال لازم سمجھ کر کرنا،دین میں اضافہ کرنا ہے،علماء نے لکھا ہے کہ صرف مرد حضرات کبھی کبھار جایا کریں۔

پندرہویں شعبان کے روزے کا حکم…پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنے کا ذکر ایک ضعیف حدیث (محدثین حضرات نے صرف ایک راوی کے قوت حافظہ کی کم زوری کی وجہ سے اس کو ضعیف کہا ہے) میں ملتا ہے ،چناں چہ حضرت علیسے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں رات ہو، تواس رات کو قیام( عبادت) میں گزارو،اور اس کے دن میں روزہ رکھو،اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے،پس فرماتا ہے خبردار!کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کو بخش دوں ،سنو!کوئی رزق لینے والا ہے کہ اس کو رزق دوں،سنو! کوئی مصیبت زدہ ہے کہ(وہ عافیت کی دعا مانگے اور میں) اس کو چھڑادوں، سنو!کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے؟ طلوع صبح صادق تک اللہ تعالیٰ یہی آواز دیتا رہتا ہے (رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے)۔(رواہ ابن ماجہ ،وروح المعانی )

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:المرغوبات من الصّیام أنواع: أوّلھا صوم المحرّم،والثاني صوم رجب،والثالث صوم شعبان… (ج:1/103 عالمگیری)

اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ شعبان کا روزہ عندالفقھاء شرعاً مطلوب اور مرغوب ہے ،نیزاکابر امت کا اسی پر تعامل ہے، گویا اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اور حضرات محدّثین کے اصول کے مطابق ضعیف حدیث کو اگر تلقی بالقبول حاصل ہو جائے ،تو وہ حدیث صحیح کے حکم میں ہو جاتی ہے، (ویسے بھی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کا معتبر ہونا بھی مسلّم ہے جب کہ اس کا ضعف شدید درجے کا نہ ہو )،جیسا کہ اعلاء السنن کے مقدمہ (ص39)پر ہے، قد یحکم للحدیث بالصحةإذا تلقاہ الناس بالقبول وإن لم یکن لہ اسناد صحیح․

مولانا اشرف علی تھانوی ،مفتی محمد شفیع،مفتی محمود گنگوہیودیگر علماء کی تصریحات کے مطابق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے ،رکھ لیا جائے تو ثواب ہے اور نہ رکھیں تو گناہ نہیں۔

شب برأت کی برکات سے محروم افراد
حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عز وجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرماتے ہیں،کینہ ورکسی کو نا حق قتل کرنے والا(مسند احمد بن حنبل :2 /176)

شب برأت کی بدعات
»…آتش بازی:آتش بازی مجوسیوں کی نقل ہے اور آگ قہر الہٰی کا نشان ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ قبرستان میں آگ لے جانامنع ہے اور آگ کے ساتھ کھیلنا یہ اہل اسلام کا کام نہیں، حدیث پاک میں آتا ہے ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ ترجمہ:جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا،وہ انہی میں سے ہوگا۔نیزیہ آتش بازی ہندووٴں کی مشہور تہوار دیوالی کی نقل ہے۔

اوراس کے علاوہ یہ آتش بازی،بم ،پھلجھڑی اورپٹاخے پھوڑنا کئی گناہوں کا مجموعہ ہے عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں بلا وجہ دخل اندازی کا گناہ ہے، اہل محلہ اور مریضوں کو بلا وجہ ایذا پہنچانے کا گناہ ہےاپنی جان کو بلاوجہ خطرے میں ڈالنے کا گناہ ہے بلاوجہ اسراف کا گناہ ہے،یہ رسم نہ صرف یہ کہ ایک بے لذّت گناہ ہے، بلکہ اس کی دینی ودنیوی تباہ کاریاں بھی ہمیشہ آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔

»…چراغاں کرنا:مسجدوں،بازاروں،گھروں اورخاص خاص مقامات کو سجایا جاتا ہے ،قمقمے روشن کیے جاتے ہیں،لائٹ کا اضافہ کیا جاتا ہے،ضرورت سے زائدگھروں سے باہر دروازوں پر کئی کئی چراغ روشن کیے جاتے ہیں اور بعض جگہ تو مکانوں کی چھتوں پر موم بتیاں جلائی جاتی ہیں اور دیواروں پرقطار در قطارچراغ رکھ دیے جاتے ہیں،یہ چراغاں اسلامی شعار نہیں،یہ سب بے جا اسراف اورفضول خرچی ہے، اس کو قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے۔﴿اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْااِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن﴾ ترجمہ:بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ایک اور مقام پر قرآن پاک نے اس کو یوں بیان کیا ہے۔﴿وَلَاتُسْرِفُوْا اِنَّہ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن﴾ ترجمہ: اور اسراف نہ کرو،بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

علی بن ابراہیم نے کہا ہے کہ روشنی کی بدعت اوّل برامکہ سے شروع ہوئی، جو ایک آتش پرست قوم گزری ہے، وہ قوم مسلمان توہو گئی، لیکن آتش پرستی کے اثرات پھر بھی ان کی زندگی میں نمایاں تھے،یہ لوگ اس موقع پر خاص طورسے روشنی کا اہتمام کرتے تھے،عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دورخلافت میں قوم برامکہ کو عروج حاصل تھا ،جس کی وجہ سے یہ منکرات اہل اسلام میں رواج پا گئیں۔

»…حلوہ:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا دندان مبارک جب شہید ہوا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایا تھا، اس کی کوئی اصل نہیں،نیزاس کا اعتقاد شرعاًجائز نہیں اور عقلاًبھی ممکن نہیں، کیوں کہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ شوّال کا ہے، شعبان کا نہیں۔

»…مسجدوں میں اجتماع کا اہتمام:مبارک راتوں میں عبادت کا اہتمام اپنے گھروں میں کرنا چاہیے، بالخصوص شب برأت کے موقع پر، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حجرہ مبارکہ میں ہی اس رات کی عبادت کی تھی، مسجد میں آپ تشریف نہیں لے گئے تھے،اب اگر اجتماع کا التزام ہو تو وہ بدعت شما رہوگا۔

»…نوافل کی جماعت:مبارک راتیں ہوں یا عام دن، عورتوں کا گھروں میں صلوٰةالتسبیح کی جماعت کرانااور مردوں کا مسجد میں صلوٰةالتسبیح کی جماعت میں شریک ہونا یہ درست نہیں ہے،کیوں کہ علماء عورتوں کے جماعت سے نماز پڑھنے کومنع فرماتے ہیں،جب کہ عندالاحناف نوافل کی جماعت نہیں۔

»…قبروں پر پھول ڈالنا:حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوینے قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کو سنت کی ضد قرار دیا ہے۔

»…حضرت حمزہ کی فاتحہ:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیر حمزہکی شہادت ان دنوں میں ہوئی ہے، یہ ان کی فاتحہ ہے،اس کی کوئی اصل نہیں،اوّل تو تعین تاریخ کی ضرورت نہیں اور دوسرا خود یہ واقعہ بھی غلط ہے، کیوں کہ آپ کی شہادت کا واقعہ شوّال کا ہے، شعبان کا نہیں۔

»…مردوں کی روح:بعض لوگ اعتقادرکھتے ہیں کہ شب برأت وغیرہ میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اوردیکھتی ہیں کہ کسی نے ہمارے لیے کچھ پکایا ہے کہ نہیں، اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔

»…شب برأت کی فاتحہ:بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شب برأت سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک اس کے لیے فاتحہ شب برأت نہ کیا جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتااور صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ بعض جگہ پر تو رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مر جائے تو کنبہ بھر میں پہلا تہوار نہیں منایا جاتا ہے۔ جب کہ حدیث پاک میں مذکور ہے کہ جب مردہ مرتا ہے تو مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جا پہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شب برأت تک اٹکا رہتا ہے ۔

»…ریاوتفاخر:اکثر اہل ثروت وبرادری کے لوگ ایک دوسرے کو بطور معاوضہ لیتے اور دیتے ہیں اور نیت اس میں یہی ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجا ہے، اگر ہم نہ بھیجیں گے تو وہ کیا کہے گا الغرض اس میں بھی ریا اور تفاخر ہو جاتا ہے،کیوں کہ نیت میں ہی خرابی ہے۔

»…مسور کی دال:بعض لوگ اس تاریخ میں مسور کی دال ضرورپکاتے ہیں۔ اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔

»…برتنوں کا بدلنا:یہ صرف کفّار کی نقل ہے۔

»…گھر لیپنا:یہ صرف کفّار کی نقل ہے۔

»…بی بی عائشہ کی روٹیاں بنانا:اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے،یہ سب باتیں بے بنیاداورغلط ہیں۔

»…قبرستان میں رات گزارنا:بعض لوگ شب برأ ت میں قبرستان جانے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں،جماعتیں اور گروہ بنا کر قبرستان جاتے ہیں او ر ساری ساری رات قبرستان کی حا ضری میں صرف کر دیتے ہیں،عبادت کا موقع ہی نہیں ملتا۔

»…محفل نعت خوانی:بعض لوگ شب برأت کو لاوٴڈاسپیکر کھول کر محفل نعت خوانی کا اہتمام کرتے ہیں اور بعض لوگ لاوٴڈ اسپیکر پرساری رات قرآن مجید پڑھ کر قرآن خوانی اور شبینہ کا اہتمام کرتے ہیں،جس سے دوسروں کی عبادات، ذکر واذکار اور آرام میں خلل واقع ہوتا ہے،عبادت کے نام پر دوسروں کو اذیت اور تکلیف دینے کا سبب بنتے ہیں،جو کہ حرام ہے۔

»…چھ رکعات کا اہتمام:بعض لوگ شب برأت کوبعد نماز مغرب بڑے اہتمام کے ساتھ چھ رکعتیں پڑھتے ہیں،پہلی دو رکعت درازیٴ عمر کی نیت سے،دوسری دو رکعت دفع بلا کی نیت سے،اخیر کی دو رکعت کسی کا محتاج نہ ہونے کی نیت سے اور ہر دو رکعت کے بعد سورة یاسین بھی پڑھی جاتی ہے،شریعت مطہرّہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں،البتہ اس رات میں جتنی چاہیں نفل نمازیں پڑھ سکتے ہیں،درازیٴ عمر،وسعت رزق اور آفات وبلیات سے حفاظت کی دعا وغیرہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عام دنوں میں کر سکتے ہیں۔(فتاوٰی رحیمیہ)․

رب لم یزل پروردگار عالم ہم سب کو شعبان کے برکات نصیب فرمائے اور صحت وعافیت کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور دیگر عبادات کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین، یا رب العٰلمین․