ماہِ محرم ۔۔ فضائل و مسائل

ماہِ محرم ۔۔ فضائل و مسائل

مولانا ندیم احمد انصاری

محرم کی وجہِ تسمیہ
علامہ سخاوی نے ذکر کیا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے، کبھی حلال کر ڈالتے، کبھی حرام کر ڈالتے۔ (تفسیر ابن کثیر)

ماہِ محرم کی فضیلت
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے ہیں۔( مسلم)اس حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا، اس مہینے کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے۔(لطائف المعارف) اس حدیث سے پورے ماہِ محرم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ (الکوکب الدری) نیز حضرت ابن عباسنے سورہ فجر میں آیت ﴿وَالْفَجْرِ﴾ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے مراد ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کی فجر ہے، جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی منقول ہے، گو اس میں بہت سے اقوال ہیں۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی)

حرمت والامہینہ
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، جس روز سے اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (التوبہ)

ماہِ محرم میں روزے کی فضیلت
حضرت نعمان بن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپرمضان کے علاوہ مجھے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے سنا۔اس وقت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!؟آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ (ترمذی)

عاشوراء کے روزہ کی فضیلت واحکام
دسویں محرم کو عاشوراء کہتے ہیں۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔(مسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے۔(مسلم)

فقہا و علما کے اقوال
اسی لیے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔(شامی )البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی نے ایک بات لکھی ہے کہ ہمارے زمانہ میں چوں کہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث)

یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے لگے۔ گناہوں پر نادم ہو اور پاک باز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں انشاء اللہ مددگار ثابت ہوں گی۔

عاشوراء کے دن اہل وعیال پر وسعت
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔ (الترغیب والترہیب)مطلب یہ ہے کہ اس دن میں جس کا نفقہ اپنے ذمّے ہے، ذرا وسعت کے ساتھ ان کو یا اس کو جس کی کفالت میں وہ ہوں دے دیا جائے، واللہ اعلم۔ (نوادر الحدیث)

یومِ عاشوراء میں کیاکیا جائے؟
عاشوراء کے موقع سے لوگوں نے بہت سی واہی تباہیں باتیں ایجاد کر رکھی ہیں۔ لیکن علامہ ابن تیمیہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں نہ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے اور نہ کسی صحابی سے(کوئی اثر)۔ اسے ائمہ مسلمین، بشمول ائمہ اربعہ و غیرہم نے مستحب گردانا ہے اور نہ کسی مستند کتاب میں اس کا تذکرہ منقول ہے۔ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین عظام سے اس کے متعلق کوئی روایت نہیں۔ نہ صحیح ، نہ ضعیف۔ نہ کتبِ صحاح میں اس کا ذکر ہے اور نہ کتبِ سنن میں اور خیر القرون سے بھی ایسی کوئی روایت معلوم نہیں ہوتی (جن میں ان کا تذکرہ ہو)۔ (مجموع الفتاویٰ) نیز مذکورہ بالاتفصیل سے معلوم ہوا کہ یومِ عاشوراء سے متعلق شریعت نے خاص دو چیزیں بتلائی ہیں: روزہ رکھنا اہل وعیال پر کھانے پینے وغیرہ میں وسعت کرنا۔نیز مصیبت کے وقت استرجاع کا حکم ہے اور اس تاریخ میں ایک الم انگیز واقعہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیش آیا، اس کی یاد سے صدمہ ضرور ہوگا، لہٰذا” انا للّٰہ وانا الیہ راجعون“ پڑھتے رہیں، اس کے علاوہ اس دن کے لیے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ (فتاوی رحیمیہ ترتیب صالح)