لسان نبوت سے ام الموٴمنین حضرت عائشہ کا تعارف

لسان نبوت سے ام الموٴمنین حضرت عائشہ کا تعارف

 مولانا محمد اسلم صاحب ہارون آبادی

مولانا محمد اسلم صاحب ہارون آبادی
أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ﴿النبی اولی بالموٴمنین من أنفسِھِمْ واَزواجہ اُمھاتھم﴾
یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کی تعظیم کے بعد شرع شریف میں انبیاء علیہم السلام کی اس قدر تعظیم ضروری اور واجب ہے کہ دوسروں کی ایسی تعظیم نہیں ہوسکتی اور بجز انبیاء علیہم السلام کے کوئی اور شخص اس تعظیم کا حق دار نہیں، اس طرح انبیاء علیہم السلام کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا استحقاق تعظیم نص قرآن سے اس درجہ ثابت ہے کہ ہر گز ہر گز دوسروں کے لیے یہ استحقاق ثابت نہیں، اس آیت میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت صحبت ازواجِ مطہرات کے حق میں اکثر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے زیادہ متحقق اور ثابت ہے، کیوں کہ ان کی صحبت بہ نسبت عام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی صحبت کے ایک رتبہ اعلیٰ رکھتی ہے اور فضیلت صحبت کے ساتھ امت کے لیے دینی والدہ ہونے کا رشتہ بھی ان کی تعظیم کا سبب ہوگیا۔
آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کی شان میں کوئی ادنیٰ بے ادبی اس لیے بھی حرام ہے کہ وہ امت کی مائیں ہیں اور اس لیے بھی کہ اُن کی ایذاء سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہونچے گی۔ جو اشد درجہ حرام ہے۔ (معارف القرآن، جلد ہفتم، ص 88)
احادیث مبارکہ
1- حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز مجھ سے فرمایا اے عائشہ! یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا وعلیہ السلام ورحمة اللہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو دیکھتے جس کو میں نہ دیکھتی تھی۔ (یعنی جبرئیل کو) (بخاری ومسلم)
2- حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کس کو رکھتے ہیں؟ ارشاد ہوا، عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو، عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مَردوں میں سے؟ فرمایا، ”عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے باپ کو“ (یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ)۔
3- حضرت بشر بن عقربہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں والد کے غم میں بیٹھا رو رہا تھا۔ (جنگِ احد میں ستر 70 صحابہ شہید ہوگئے تھے، جن میں ان کے والد حضرت عقربہ رضی اللہ عنہ بھی تھے) حضرت رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا:
اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ عَائشَةُ اُمُّکَ وَاکُوْنَ اَنَا اَبَاکَ؟ (الاستیعاب)
(اے بشر!) کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمہاری ماں ہو اور میں تمہارا باپ ہوں۔
4- عبد الرحمن بن الاسود رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم کو میں نے تین رات مسلسل خواب میں دیکھا، تم کو فرشتہ ریشم کے ایک ٹکڑے میں لاتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے: یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیوی ہیں، میں تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹاتا اور بعینہ تم کو پاتا۔ پھر میں اپنے دل میں کہتا: اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو خدا اس کو پورا کرے۔ (بخاری ومسلم)
5- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہ تھی، اس لیے کنیت بھی نہ تھی۔ چوں کہ عرب میں کنیت شرافت کا نشان بھی سمجھی جاتی تھی، اس لیے آپ کو اس کا زیادہ خیال تھا۔ ایک بار آپ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا نبی اللہ! اور عورتیں تو کنیت سے مشہور ہیں، میری بھی کنیت تجویز فرما دی جاوے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی کنیت عبد اللہ کے نام سے رکھ لو، عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے تھے۔ (طبقات ابن سعد ج 8، ص 43)
6- ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گڑیاں کھیل رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے، گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا، جس کے دائیں بائیں دو پَر لگے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا، عائشہ ، یہ کیا ہے؟ جواب دیا گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے، انہوں نے برجستہ کہا، کیوں؟ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بے ساختہ پن پر مسکرا دیے۔
(ف) بچیوں کا ایسے کھلونے سے کھیلنا جو جان دار کی شکل کا ہو، ناجائز ہے، یہ ایک ایسا گھوڑاتھا جس کا منھ اور گردن نہیں تھی، گردن کا صرف نشان بنا ہوا تھا اور گڑیاں بھی محض ایک ہیولے کی مانند تھیں، تصویر یا مورتی کی شکل میں نہ تھیں۔
7- بخاری ومسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَاللّٰہِ مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحِیُ وَاَنَا فِیْ لِحَافِ امرْأَةٍ مِنْکُنَّ غَیْرَھا۔ قسم خدا کی، مجھ پر کسی بیوی کی خواب گاہ میں وحی نازل نہیں ہوئی سوائے اس (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے۔
8- ایک روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت یوں ارشاد فرمائی: فَضْلُ عائشَةَ عَلَی النِّسآءِ کَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلٰی سَائرِ الطَّعَامِ․ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر۔ (حیات ام المومنین ص 10)
9- آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی، حتیٰ کہ فضل وکمال ودیگر اوصاف کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام ازواج سے زیادہ محبوب تھیں، اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوسکتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ: ”الٰہی جو چیز میرے امکان میں ہے (یعنی مساوات بین الازواج) میں اس کے بارے میں عدل میں کوتاہی نہیں کرتا لیکن جو میرے امکان سے باہر ہے (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف قلبی میلان وقدرومحبت) اس کو معاف کرنا“۔ (ابو داوٴد)
10- ایک شخص فارس کا رہنے والا تھا، جو شوربا اچھا پکاتا تھا، ایک دفعہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آج میں نے کچھ شوربا پکایا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلیں (اور شوربا نوش فرمائیں) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ بھی۔ اس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہم بھی نہیں۔ وہ واپس چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد پھر حاضر ہوا اور پھر عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، وہ پھر واپس چلا گیا۔ تیسری مرتبہ پھر حاضر ہوا اور اب چوں کہ اس کی رائے بدل گئی تھی، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی لے چلنا منظور فرما لیا۔
(ف) حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دعوت سے اولاً کیوں انکار کیا اور بعد میں کیوں منظور کیا؟ میرا خیال یہ ہے کہ شاید اوّلاً اس لیے انکار کیا ہو کہ کھانا تھوڑا ہوگا، جو دو کے لیے کافی نہ تھا، پھر صحابی رضی اللہ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے کھانے میں انشاء اللہ برکت ہوجائے گی اور سب کو کافی ہو جائے گا۔ یا گو کافی نہ ہو، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جی خوش ہو جائے گا۔ (وعظ دار المسعود ص 32)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مدعو کرنے پر اصرار فرمانا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قلبی محبت اور فضیلت کو ظاہر کرتا ہے۔ (احقر جامع)
11- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چوں کہ سب بیبیوں سے کم عمر تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی عمر کے موافق ان کی دل جوئی فرمایا کرتے تھے، چناں چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے ساتھ دوڑے بھی ہیں، چوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چھریرے بدن (ہلکے بدن) کی تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی عمر کے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر بھاری ہوچکا تھا، اس دوڑ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نکل گئیں۔ کچھ عرصہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ایک مرتبہ دوڑے، اس مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔ کیوں کہ اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جسم مبارک بھاری ہوگیا تھا۔ عورتیں بہت جلد بھاری ہو جاتی ہیں، ان کی نشوونما جلدی ہوتی ہے۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ نکل سکیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کا بدلہ ہے کہ تم پہلے آگے نکل گئی تھیں۔
(ف) سبحان اللہ! کیا ٹھکانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ دکھلانا تھا کہ جس شخص کی عمر زیادہ ہو اس کو کنواری بچی کے ساتھ کیسا برتاوٴ کرنا چاہیے، عموماً عادت یہ ہوتی ہے کہ ایسی صورت میں مرد کا برتاوٴ اپنی عمر کے تقاضے کے موافق ہوا کرتا ہے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ وہ برتاوٴ کیا جو اُن کی بچپن کی عمر کا تقاضا تھا، اُن کے بچپن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رعایت فرماتے تھے۔ چناں چہ ایک مرتبہ مسجد کے قریب حبشی لڑکے عید کے دن کھیل رہے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حبشیوں کا کھیل دیکھو گی؟ انہوں نے خواہش ظاہر کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کر کے دیر تک ان کو کھیل دکھلایا (اور وہ محض کہنے میں تو کھیل تھا، ورنہ ورزش تھی۔ اگر اچھی نیت سے ہو تو عبادت ہے۔ اور چوں کہ ان کھیلنے والوں کو دیکھنے میں کوئی فتنہ نہ تھا، اس لیے یہ شبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اجنبی مردوں کو کیسے دیکھا) اور جب تک وہ خود ہی نہ ہٹ گئیں اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کھڑے ہو کر ان کو کھیل دکھلاتے رہے۔ (اشرف الجواب ص 51)
محبتِ شوہر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کپڑوں میں انتقال فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُن کو محفوظ رکھا تھا۔ چناں چہ ایک دن انہوں نے ایک صحابی رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہہ بند اور کمبل دکھا کر کہا کہ خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کپڑوں میں انتقال فرمایا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت محبوب تھیں، لیکن اس محبوبیت کا کوئی اثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر نہیں پڑتا تھا۔ بلکہ سب سے زیادہ اُن ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف خدمت حاصل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمال طہارت کی وجہ سے مسواک کو بار بار دھلوایا کرتے تھے اور اس پاک خدمت کا انصرام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذمے تھا۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کمبل اوڑھ کر مسجد میں تشریف لائے، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس پر دھبّے نظر آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو غلام کے ہاتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا کہ دھو کر خشک کر کے بھیج دیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پانی منگایا، اپنے ہاتھ سے داغ دھوئے اور کمبل خشک کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔ (ابو داوٴد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ دس اوصاف مجھ میں ایسے ہیں جن کی وجہ سے دیگر ازواج پر مجھے ترجیح حاصل ہے:
1- بجز میرے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کوئی ناکتخدا (یعنی کنواری) نہیں آئی۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں صرف مجھی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ میرے ماں اور باپ دونوں مہاجر ہیں۔
3- اللہ عزوجل نے آسمان سے میری براء ت نازل فرمائی۔
4- جبرئیل علیہ السلام میری شکل میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح کر لیجیے۔
5- میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مصروف ہوتے تھے۔
6- نزولِ وحی کے وقت صرف میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتی تھی۔
7- جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک نے عالمِ قدس کی طرف پرواز کی اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میرے سینے پر تھا۔
8- جس شب کو میری باری تھی اُسی شب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔
9- بعض اوقات میں اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کر لیا کرتے تھے۔
10- میرے ہی حجرے کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بننے کا شرف حاصل ہوا۔ (طبقات ابنِ سعد)
”واقعہ ایلاء“ اور حضرت عائشہ r کی والہانہ قلبی محبت کا ظہور
ایلاء کی صورت یہ تھی کہ غلّہ اور کھجور کی جو مقدار ازواجِ مطہرات کے لیے مقرر تھی وہ یوں بھی کم تھی اور فیاضیوں اور مہمان نوازیوں کی بدولت اور بھی کفایت نہ کرتی تھی، اس لیے سب بیویوں نے یہ دیکھ کہ فتوحاتِ سالانہ محاصل اور اموالِ غنیمت کا کافی ذخیرہ موجود ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ناکافی مقدار میں اضافہ کی خواہش کا اظہار کیا، چوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم (روحی فداہ) کی زاہدانہ زندگی کے معنوی محرم تھے، اس لیے دونوں نے اپنی صاحب زادیوں کو سمجھا کر اس مطالبے سے باز رکھا، دیگر ازواج اپنی بات پر قائم رہیں، اتفاقاً اسی زمانے میں آپ گھوڑے سے گر پڑے، پہلوئے مبارک میں، ایک درخت کی جڑ سے خراش آگئی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے متصّل ایک بالا خانہ تھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں قیام فرما لیا اور عہد کیا کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات سے نہ ملیں گے۔ منافقین نے مشہور کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو طلاق دے دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو مسجد نبوی میں آئے، تمام صحابہ کو رنجیدہ اور سر بگریبان پایا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریابی کی اجازت چاہی، تیسری مرتبہ میں اجازت ہوئی، دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھرّی چار پائی پر لیٹے ہیں، جسم مبارک میں بان کے نشان بن گئے ہیں، ادھر ادھر چند مٹی کے برتن پڑے ہوئے ہیں، یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی؟ فرمایا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خوش خبری عام مسلمانوں کو سنائی، یہ مہینہ انتیس دن کا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: ”میں ایک ایک روز گنتی تھی، 29دن ہوئے تو آپ بالا خانے سے اُتر آئے“۔ سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، عرض کی: یا رسول اللہ! آپ نے ایک مہینہ کا عہد فرمایا تھا، ابھی تو انتیس ہی دن ہوئے ہیں؟“ ”فرمایا ”مہینہ کبھی 29 کا بھی ہوتا ہے“۔ (ابوداوٴد وصحیح مسلم باب الایلا)
اس واقعہ کے بعد ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”عائشہ ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، لیکن تم کو جواب میں بغیر والدین سے مشورہ کیے ہوئے جلدی نہ کرنا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا، یا نبی اللہ! وہ کیا بات ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاًl وَإِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّہَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنکُنَّ أَجْراً عَظِیْماًl﴾(سورہ احزاب:28 -29)
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگر تم کو دنیوی زندگی اور اُس کی آرائش مطلوب ہے تو آوٴ! میں تم کو اچھی طرح رخصت کردوں اور اگر خدا اور اس کا رسول اور گھر آخرت کا پسند ہے تو تم میں نیک عورتوں کے لیے اللہ نے بڑا ثواب رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میں والدین سے کس بات میں مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار الآخرت کو اختیار کرتی ہوں، یہ جواب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندفرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر مسرت کے آثار ظاہر ہوئے، پھر فرمایا: میں یہی بات تمہاری ساتھ والیوں سے کہوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میرے جواب سے ان کو با خبر نہ فرمائیے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا اور دیگر ازواج سے بھی یہی گفتگو فرمائی، انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
مذکورہ بالا آیت کو آیة تخییر اس لیے کہتے ہیں کہ بیویوں کی خاطر سے دنیوی آسائش طلبی پیغمبر کی شان سے بعید تھی، اس لیے اس آیت سے سب کو اختیار دیا گیا کہ جو خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کرے وہ رہے، ورنہ رخصت ہو۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی، حتیٰ کہ فضل وکمال اور دیگر اوصاف کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام ازواج سے زیادہ محبوب تھیں۔
یہی حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت کا تھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، چناں چہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رات بیدار ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاس نہ دیکھتیں تو مضطرب ہوتیں۔ ایک دفعہ یہی صورت پیش آئی اور بمقتضائے: ”عشق است وہزار بد گمانی“ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، ادھر ادھر تلاش کیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح وتہلیل میں مصروف ہیں، اپنی غلط خیالی پر نادم ہوئیں اور بے اختیار زبان سے نکل گیا: میرے ماں باپ قربان! میں کس خیال میں ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس حال میں ہیں۔ (صحابیات ص 44)
خود خدائے پاک تھا پاسبانِ عائشہ رضی اللہ عنہا
غزوہٴ مریسیع کے سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، چلتے وقت اپنی بہن اسماء سے ایک ہار عاریتہً لے لیا تھا، وہی پہنے ہوئے تھیں، اس وقت ان کی عمر چودہ سال کی تھی۔ اثنائے راہ میں ایک جگہ رات کو قافلے نے قیام کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے پڑاوٴ سے دور نکل گئیں۔ فارغ ہو کر واپس آئیں تو گلے پر ہاتھ پڑ گیا۔ دیکھا تو ہار نہ تھا اس لیے بہت گھبرائیں۔ خیال کیا کہ قافلہ کی روانگی سے پہلے وہ ہار ڈھونڈ کر پہنچ جائیں گی، ادھر قافلہ تیار تھا۔ یہ بغیر کسی کو اطلاع کیے ہوئے ہار کی تلاش میں مصروف ہوگئیں، تھوڑی دیر کی جستجو میں ہار مل گیا، اب جو آئیں تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔ مجبوراً چادر اوڑھ کر وہیں پڑ رہیں۔ صفوان بن معطل ایک صحابی رضی اللہ عنہ تھے اور انتظامی ضروریات کے لیے لشکر کے پیچھے پیچھے رہتے تھے، صبح کو وہ پڑاوٴ پر آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا، کیوں کہ نزولِ حجاب سے پہلے وہ اُن کو دیکھ چکے تھے، پاس آکر افسوس کیا اور اونٹ پر بٹھا کر منزل کا رُخ کیا دوپہر کے وقت قافلے سے مل گئے۔
اس طرف منافقین دن رات اسی کوشش میں رہتے تھے کہ جس طرح ہو سکے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ولواحق کو بدنام کریں اور ان کی یہ کوششیں بڑی شدّومد سے جاری تھیں، عبد اللہ بن اُبی اس گروہ کا سردار تھا، اُس نے مشہور کردیا کہ معاذ اللہ اب وہ پاک دامن نہیں رہیں۔ منافقوں کی اس شرارت کا اثر بعض معدودے چند مسلمانوں پر بھی ہوا اور وہ بھی غلط فہمی سے ایک حد تک اس سازش میں شریک پائے گئے، مگر واقعہ تھا بے بنیاد، جس کی ذرا بھی اصل نہ تھی، تاہم ان باتوں کا اثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہت ناگوار پڑا اور وہ مارے صدمے کے بیمار پڑ گئیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس واقعہ کے متعلق) دریافت فرمایا تو سیدہ رضی اللہ عنہا نے غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا:
”فَلَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ اِنِّیْ بَرِیَّةٌ لَا تُصَدِّقُوْنِیْ وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَکُمْ بِاَمْرٍوَّ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنِّیْ بَرِیَّةٌ مِنْہُ لَتُصَدِّقُنِیْ، فَوَاللّٰہِ لاَ اَجِدُ ِلیْ وَلَکُمْ مَثَلاً اِلاَّ اَبَا یُوْسُفَ حِیْنَ قَالَ: صَبْرٌ جَمِیْل وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی ما تَصِفُوْنَ“
(ایسی مکدّر فضا میں) اگر میں کہوں کہ میں پاک ہوں تو کون باور کرے گا اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کروں تو کیسے؟ خدا کو علم ہے کہ میں اس اتہام سے بالکل پاک ہوں اور اس کی عن قریب تصدیق ہو جائے گی، پس خدا کی قسم! میں اپنی اور آپ کی مثال پدر یوسف علیہ السلام کی سی پاتی ہوں، جنہوں نے (آزمائش کے وقت) کہا تھا کہ صبر ہی بہتر ہے اور ایسے حالات میں اللہ ہی مدد گار ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، غزوہ انمار)
اس بیان کے ایک ایک لفظ میں سچائی کا نور اور مظلومیت کا کرب موجود ہے، آج بھی صرف اس عبارت کو پڑھ کر دل کی گہرائیوں سے تصدیق وتسلیم کی پکار بلند ہوتی ہے، جب تمام ذرائع مکمل ہوگئے، حتی کہ خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ اگر عائشہ پاک ہے تو خدا خود اس کی طہارت کی گواہی دے گا، تحقیق اور اطمینان کامل کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے گناہی اور منافقین کی فتنہ پردازی ثابت ہوگئی، آیت برأت نازل ہوئی، سورہٴ نور کی دس بارہ آیتوں میں یہ بیان ختم ہوا، جس کو تفصیل مطلوب ہو قرآن شریف میں دیکھ لے۔ چناں چہ ایک روایت کے مطابق افترا پر دازوں پر شرعی حد قائم کی گئی۔
ایک پاک دامن بی بی پر یہ بہتانِ عظیم تھا، جس کا نتیجہ منافقین کے حسب منشا کسی دل سوز حادثہ کی شکل میں رونما ہوسکتا تھا، لیکن ارحم الراحمین کی شانِ عدل نے بد خواہوں کو غرق خجالت کیا اور سیّدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان کو آیات مقدّسہ کے ذریعے دو بالا فرمایا، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں، جو ہر محراب ومسجد میں شب وروز تلاوت کی جاتی ہیں۔ (حیات اُم الموٴمنین ص 112)