قوم کی تعمیر کا صبر آزما کام

قوم کی تعمیر کا صبر آزما کام

مولانا شمس الحق ندوی

قومیں محض اُمنگوں، آرزوؤں، کاغذی خاکوں اور تجاویز سے نہیں بنتیں، قوم کی تعمیر اندرون کے تبدیل ہونے، خیالات کی اصلاح اورتعلیم وتربیت سے ہوتی ہے، مذہب کو عنوان بنا کر عوام کو جوش دلانا او راس سے اپنا کوئی دوسرا مقصد حاصل کرنا نہایت غلط راہ نمائی ہے، جس سے اُمّت کو سخت نقصان پہنچتا ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو صبر وضبط، ڈسپلن، تنظیم ، استقامت، تحمل، برداشت، ایثار، باہمی ہم دردی، اتحاد علمی او راعلی اخلاق کی تعلیم دی جائے، محض اشتعال انگیز تقریروں سے ان کو مشتعل نہ کیا جائے کہ قوم وملت کو ہلاکت وبربادی کی راہ پر لے جانے کے مترادف ہو گا، قوم کی راہ نمائی وقیادت کے لیے سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم اور اسوہٴ صحابہ کا مطالعہ او ر اس سے روشنی حاصل کرنا ضروری ہے اوراگر یہ بات نہ حاصل ہوسکے تو ان لوگوں سے رجوع کرنا او ران سے مشورہ کی روشنی میں چلنا اور قوم کو چلانا ضرور ی ہے جو اس دشت کی سیاحی میں اپنی عمریں گزار چکے ہیں، محض جذبات کو بھڑکانا نہایت ہی غلط راہ نمائی ہے، کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے خود اپنا جائزہ لینا، سب سے اہم بات ہے کہ کہیں ہمارے دل میں شہرت کی طلب یا کوئی اور دنیوی غرض تو گھر کیے ہوئے نہیں ہے؟ خاص طور سے دیکھا جائے کہ ہم غلط سیاست کے چکر میں تو مبتلانہیں ہیں، اگر خدانخواستہ قوم کی قیادت کی خواہش کے پیچھے اپنی دنیاوی اغراض شامل ہیں تو یہ قوم کی راہ نمائی نہیں، بلکہ قوم کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانا ہے اور دین کو داؤ پر لگانا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام کا سب سے پہلا اور سب سے اہم مقصد انسان کی اصلاح او راس کا سدھار ہے اور یہ کام باہر سے پہلے اندر سے شروع ہوتا ہے، پس عقائد ہوں یا عبادات، سیاست ہو یا معاشرت ، اخلاق ہوں یا معاملات ، سب کی صحت ودرستی کا مدار قلب کے سدھار پر منحصر ہے، بقول علامہ سید سلمان ندوی علیہ الرحمہ:

” دل ہی کی تحریک انسان کے ہر اچھے اوربُرے فعل کی بنیاد اوراساس ہے، اس لیے مذہب کی ہر اینٹ اسی اساس پر کھڑی ہوتی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو نیک کام بھی کیا جائے، اس کا محرک کوئی دنیوی غرض نہ ہو، بلکہ صرف الله تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری اور خوش نودی ہو۔“

پس مسلمانوں کے ہر قائد او رہر راہ نما کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنا جائزہ لے کہ اس کی سمت درست ہے یا نہیں…، اگر پیش نظر رضائے الہٰی اوراس کے تحت قوم کی تعمیر ہے تو پھر جذباتی نعروں کو اپنا شعار بنانا بالکل بے معنی ہو گا، یہ طرز عمل قوم کے حق میں سم قاتل ہے، مخلص قائدین کا امتیازیہ ہوتا ہے کہ وہ ہر موقع پر حلم وتدبیر، فکرو دوراندیشی سے کام لیتے ہیں، وہ قوم کو بیدار کرتے ہیں، بھڑکاتے نہیں، حالات سے نبرد آزما ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اندھے بہرے بن کر نہیں، بلکہ مومنانہ فراست اورایمانی بصیرت کی روشنی میں۔

اس وقت امت مسلمہ جن حالات سے دو چار ہے، چہار طرف سے وہ جس طرح باطل کے زد میں ہے، اس کو سنبھالنے او رمنجدھار میں پھنسی ہوئی اس کی کشتی کو ساحل سے ہم کنار کرنے کے لیے گہری تدبیر، جاں فشانی اور ایثار وقربانی کی ضرورت ہے، اپنے مفادات اور شہرت پر اُمت کے مفادات اور دینی تقاضوں کو مقدم رکھنے کی ضروت ہے، باہمی اتحاد وتعاون کی ضرورت ہے ،مختلف خانوں اور ٹولیوں میں بٹ کر نہ ہم قوم کو صحیح رخ پر لے جاسکتے ہیں اور نہ ان خطرات سے اس کو بچا سکتے ہیں جو غارت گردین وایمان ہیں اور اسلامی اقدار واصول کو ختم کرنے کے لیے اس کے سرپر منڈلارہے ہیں، اسلام کی گزشتہ تاریخ میں جن مردان باصفانے قوم وملت کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیا ہے، انہوں نے اپنے کومٹا کر او راپنا سب کچھ کھو کر ہی فرض منصبی ادا کیا ہے، ہم وہ نہیں کہ جن کی تاریخ کے اوراق راہ نمائی سے خالی ہوں، بلکہ ہماری تاریخ میں وہ تابندہ ودرخشاں نقوش ہیں،جن کی روشنی میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوسکتے ہیں۔

ہمارے آج کے دور میں قوم وملت کے مزاج کے بناؤ بگاڑ میں سب سے زیادہ دخل تحریر وتقریر کا ہی ہے اور یہ دونوں ہی ذریعہ دودھاری تلوار ہیں، ذرا سی بے احتیاطی سے جو شیلی اور اشتعال انگیز تقریر یا تحریر سے آگ لگ جاتی ہے، خون کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں اور یہی دونوں ذریعے ایسے ہیں کہ ان سے لگی آگ کو بجھایا جاسکتا ہے، بپھرے ہوئے غیظ وغضب کے جنون میں مبتلا لوگوں کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے، ان کے دلوں میں ہم دردی کا جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے، لہٰذا ہمارے ہر مقرر وصحافی، قائدو رہبر کو زبان وقلم کے چلانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے سدھار پیدا ہو، نہ کہ وہ بگاڑ کا ذریعہ بن جائے۔

20/نومبر1973ء کو آل انڈیا اردو ایڈیٹرز کانفرنس کے شرکاء کو (جنہیں تعمیر حیات کی طرف سے ندوہ کے عباسیہ ہال میں عصرانہ دیا گیا تھا) خطاب فرماتے ہوئے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے کہا تھا:”آج ملکوں اور قوموں کی تقدیریں نوک قلم سے وابستہ ہوگئی ہیں کی اس کی ایک غلطی اوراس کے غلط استعمال سے ملک کے ملک تاراج اور بستیوں کی بستیاں بے چراغ ہو جاتی ہیں۔“

مولانا نے فرمایا، کہنے والے نے کہاتھا:
”زیر قدمت ہزار جانست۔“
(تمہارے قدموں کے نیچے ہزاروں جان ہیں)

یہاں تھوڑی ترمیم کے ساتھ آپ سے کہنا صحیح ہو گا ”زیر قلمت ہزار جانست“(تمہارے قلم کے نیچے ہزاروں جان ہیں)

اسی طرح سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض جلسوں میں اشتعال انگیز اور غیر متوازن تقریروں کے بعد مولانا نے اپنی مدبرانہ ومبصرانہ تقریر میں فرمایا:”سرکٹانا آسان ہے، سرجھکانا مشکل ہے۔“

لہٰذا اگر ہم اُمت مسلمہ کو صحیح رخ پر لے چلنا چاہتے ہیں، اس کو ایک باعزت وباوقار قوم کے مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں تو زبان وقلم کے استعمال میں وقار، سنجیدگی ، توازن اور اعتدال قائم رکھنا ہو گا، ان جڑوں اور بنیادوں کو مضبوط کرنے کی فکر کرنی ہو گی جن سے قوم میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور مناسب انداز سے قوم کی تعمیر ہوتی ہے، حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، وہ بے اعتدال وبے راہ روی سے محفوظ رہتی ہے ، وہ زمانے کے دھارے میں بہتی نہیں بلکہ دھارے کا رخ موڑتی ہے، زبان وقلم محبت کے پیامی بنتے ہیں ، نفرت کے داعی نہیں، گویا ان کا یہ اعلان ہوتا ہے #
        بیگانہ ہوئی دنیا رسم ورہ الفت ہے
        ایک میری طبیعت ہے جو باز نہیں آتی