قومی زبان کی اہمیت اور تعلیم کے مقاصد

قومی زبان کی اہمیت اور تعلیم کے مقاصد

مولانا سید عبدالوہاب شیرازی

پاکستان دنیا کے تمام ممالک میں تعلیم کے میدان میں 167 ویں نمبر پر ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے ہمارے لیے اس سے بڑا شرم کا مقام کیا ہو سکتا ہے ؟ ! اس وقت پاکستان کے عصری ودینی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، ایک اندازے کے مطابق صرف پرائمری اسکولوں میں چھ سے سات کروڑ بچے زیر تعلیم ہیں، لیکن اس تعلیم کے اثرات ہمارے معاشرے میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے سائنس دان، انجینئر نہ تو پیدا ہو رہے ہیں اور نہ ہی پیدا کرنے کے لیے کوشش کی جارہی ہے۔ بس ایک بھیڑ چال ہے اور اسی بھیڑ چال کے مطابق اسکول کھل رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ یہ بھیڑ چال غلامانہ ذہنیت اور احساس ِ کمتری کا شکار ہونے کی عکاس ہے۔ خاص طور پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو چلانے والے تعلیم کے مقاصد سے ہی بے بہرہ ہیں۔

تعلیم کا مقصد
تعلیم کا مقصد بچے کو علم دینا، اس کی تربیت کرنا او راس کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ اس تخلیقی صلاحیت سے اپنے آنے والے زمانے میں اس وقت کی ضرورتوں کے مطابق کسی بھی شعبے میں تخلیقی کارہائے نمایاں سر انجام دے سکے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں انگلش میڈیم اسکول کے نام سے ایسے ناسور کو پھیلا دیا گیا ہے جو لاکھوں بچوں کو تعلیم سے کوسوں دور لے جارہا ہے۔

انگلش کیا ہے؟
انگلش محض ایک زبان ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ زبان ہم سے پانچ سات ہزار میل دور کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والے انگریز کہلاتے ہیں او راس وقت دنیا میں معاشی ، سیاسی لحاظ سے ان کا غلبہ ہے۔ یہ معاشی یا سیاسی غلبہ انہیں انگریز ہونے یا انگلش بولنے کی وجہ سے نہیں ملا، بلکہ اپنی نسلوں کو اعلی تعلیم ان کی مادری زبان میں دینے اور ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے سے ملا ہے۔ کسی بھی شعبے میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اس شعبے کے تمام گوشوں کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کا ماضی،حال او رمستقبل جاننا، اس کی تاریخ، اس کے اسباب، اس کے اثرات وغیرہ کو جاننا اور جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے، چناں چہ اس مقصد کے تحت اسکولوں میں کچھ مضامین شامل ِ نصاب کیے جاتے ہیں، مثلاً انجینئرنگ میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ریاضی، معاشرے اور سیاست کو سمجھنے کے لیے معاشرتی علوم اور سوشل سائنس، اسی طرح زمین کائنات او رانسانی جسم کو سمجھنے کے لیے کیمسٹری، فزکس اور بیالوجی پڑھائی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے نظام کے لیے کمپیوٹر سائنس، ڈیٹا سائنس وغیرہ، وغیرہ پڑھائی جاتی ہے۔

پڑھنے والے کروڑوں بچوں میں سے محض چند سو بچے ان علوم میں تخلیقی صلاحیت کے مالک بنتے ہیں۔ باقی وہی پرچون کی دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، کوئی گاڑی میکینک بنتا ہے، تو کوئی سبزی منڈی میں آڑہتی یا کوئی انگلش میڈیم کی معراج، یعنی سرکاری ادارے کا نوکر بھرتی ہو جاتا ہے۔ جو چند سو بچے واقعی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بنتے ہیں، یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کے گھر میں انگریزی بولی جاتی ہے او ران کے لیے انگریزی زبان مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہے، چناں چہ وہ جب انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں تو ان کا فوکس کتاب میں لکھے ہوئے الفاظ کا ترجمہ کرنے کے بجائے پیراگراف کے مقصد پر ہوتا ہے اور وہ مقصد اُن کے علم میں آتا ہے، اس طرح ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ باقی لاکھوں بچے جن کے گھر میں پنجابی، پہاڑی، پشتو ، سندھی بلوچی، سرائیکی، کشمیری اور ہندکو بولی جاتی ہے ، وہ جب ریاضی کو انگلش میں پڑھتے ہیں تو ان کا فوکس ریاضی کے مقصد سے ہٹ کر الفاظ کا ترجمہ کرنے پر ہوتا ہے، چناں چہ وہ اسی بات میں اُلجھے رہتے ہیں کہ اس لفظ کے کیامعنی ہیں او راس کے کیا معنی ہیں؟ وہ ریاضی سیکھ ہی نہیں سکتے۔

وہ جب معاشرتی علوم کو انگلش میں پڑھتے ہیں او ران کو انگلش میں پاکستان بننے کے اسباب پڑھائے جاتے ہیں تو بھی ان کی ساری توجہ انگلش کے الفاظ کا اردو میں معنی کرنے کی طرف ہوتی ہے اور اس طرح وہ معاشرتی علوم، کلچر، تاریخ سے جاہل ہی رہتے ہیں، کیوں کہ ان کا سارا فوکس الفاظ کا ترجمہ کرنے اور کسی نہ کسی طرح امتحان پاس کرنے کی طرف ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نے کیسے ترقی کی؟
اس وقت دنیا میں سائنسی، معاشرتی، سیاسی یا معاشی لحاظ سے تین بڑی طاقتیں ہیں: ایک چائنہ، دوسری روس او رتیسری یورپ وامریکا۔ ان تمام ممالک نے سائنسی، معاشرتی، سیاسی یا معاشی لحاظ سے ترقی اس لیے کی کہ زمانہٴ سابق میں انہوں نے اپنی نسلوں کو اپنی مادری زبان میں آسان فہم انداز سے ریاضی ، سوشل سائنس اور جدید سائنس کی تعلیم دی۔

چین کے ماہرین تعلیم کسی بھی پرائی زبان میں تعلیم کے حصول کو پوری قوم اور ملک کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چینی زبان پوری طاقت اور فخر سے ملک کے طول وعرض میں نافذ ہے۔

اس کے برعکس ہم پرائی انگریزی زبان میں حصول ِ تعلیم کو باعث ِ فخر سمجھ کر قوم کے مستقبل کو تاریکیوں میں دھکیلتے چلے جارہے ہیں۔ بات صرف پڑوسی ملک چین تک نہیں، جرمنی میں بھی پورا نظام تعلیم جرمن زبان میں ہے، اٹلی میں اٹالین کو ہی ذریعہ تعلیم بنایا جارہا ہے، جاپان میں قومی زبان ہی پوری آب وتاب سے رائج ہے، خود برطانیہ او رامریکا میں بھی انگریزی کے سوا کسی پرائی زبان کو تعلیمی یا حکومتی نظام میں مداخلت کی جرأت نہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں طالب علم کے گھر اور درس گاہ کی زبان بالعموم ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ گھر میں جو زبان بولتا ہے، اسی زبان میں اسے اسکول بھی لکھنا، پڑھنا سکھاتا ہے، یہ سہولت فطری طور پر اسے نہ صرف آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے، بلکہ عملی زندگی میں خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔ وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا، پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتا اور اپنے علم اور تجربے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ اس طرح پوری قوم کے لیے ترقی کی راہیں آسان او رکشادہ ہو جاتی ہیں۔

آپ ایک دوسری کلاس کے بچے کو یہ بات سمجھانا چاہتے ہیں کہ پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے، اب اس بات کو اس کی زبان میں بتائیں تو فوراً سمجھ جائے گا، لیکن اسی بات کو آپ انگریزی میں پڑھائیں گے تو اس کی ساری توجہ الفاظ، اس کی اسپیلنگ او رمعنی کی طرف ہو گی ، جب وہ اس کام سے فارغ ہو گا، تب اس فلسفے کی طرف اس کی توجہ جائے گی، چوں کہ ایک دن میں اس نے کئی کتابوں کے کئی صفحے پڑھنے ہیں، اس لیے وہ ترجمہ یاد کرنے سے فارغ ہی نہیں ہوتا، لہٰذا اس کا دھیان اس فلسفے کی طرف مڑتا ہی نہیں، چناں چہ وہ امتحان پاس کرکے بھی اس فلسفے سے عاری او رجاہل ہی ہوتا ہے۔

ہمارے بچے چودہویں کلاس تک محض انگلش زبان ہی سیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب ان کو انگلش سمجھ آتی ہے تب تک ان کی شادی ہو کر وہ کسی کاروباری سرگرمی او رگھر پالنے کے چکر میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔ انگلش کو محض ایک لینگویج/ زبان کے طور پر ضرور نصاب میں ہونا چاہیے، لیکن تعلیم ملک کی قومی زبان میں ہونی چاہیے، تاکہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک نوجوان پیدا ہو سکیں۔

دنیا میں سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسی نسل کی ضرورت ہے جو سیاست، معاشرت، کلچر اور تاریخ سے واقف ہو، لیکن انگلش میڈیم اسکولوں میں پاکستان اسٹڈی یا معاشرتی علوم کی کتاب انگریزی میں پڑھائی جاتی ہے، ٹیچر بھی سار ی رات ڈکشنری سے الفاظ کے معانی تلاش کرتا رہتا ہے او ربچہ بھی الفاظ کے معانی ہی یاد کرتا رہتا ہے، جب کہ اس کتاب کو پڑھانے کا جومقصد تھا، وہ غائب ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ ریاضی، سائنس اور دیگر علوم کے ساتھ ہوتا ہے۔

خدا را! اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کریں اور انہیں علم سکھائیں، صرف انگریزی زبان نہیں۔ اس غلامانہ ذہنیت سے نکلیں، اپنے اندر سے احساس کمتری ختم کریں۔ اگر آپ کے پاس ایک عمارت ہے، چند ٹیچر اور ادارہ چلانے کے وسائل ہیں تو اس موقع کو غنیمت جانیں اور احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہوں، آپ پر الله نے احسان کیا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، پندرہ بیس سال اپنے پاس آنے والے بچوں کو علم اور فلسفہ ان کی اپنی زبان میں سکھا دیں، آنے والی نسلیں آپ کو یاد کریں گی، آپ کی اس کاوش سے ایک ایسی نسل تیار ہوگی جو دنیا میں انقلاب برپا کر دے گی اور آپ آنے والے دور میں انقلاب برپا کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔