قرآن کے آداب اور ہمارا طرزِ عمل

قرآن کے آداب اور ہمارا طرزِ عمل

مولانا زین العابدین قاسمی

دنیا میں جو بھی شے وجود میں آتی ہے تواس کے کچھ نہ کچھ اصول وضوابط ہوا کرتے ہیں، اگر ان اصول وضوابط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے توہ شے اصلی روپ میں لوگوں کے سامنے آتی ہے اور لوگ اس سے وافر مقدار میں حقیقی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انسانی دلوں کا راہ نما
قرآن کریم ربّ کائنات کی جانب سے نازل کردہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ، یہ حقیقت میں عالم ِ انسانیت کے لیے خیر وبرکت کا بحر بے کراں خزانہ ہے،لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کا وہ فائدہ جو انسان کے قلوب واذہان کو منور کر دے اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب اس کے اصول وضوابط کا پورا پورا لحاظ اور حقوق کی رعایت کی جائے کہ جس کی طرف الله رب العزت نے خود توجہ دلائی ہے اور ارشاد ربانی ہے : ” وہ لوگ جن کو دی ہم نے کتاب، وہ اس کو پڑھتے ہیں جو حق ہے اس کے پڑھنے کا ، وہی اس پر یقین لاتے ہیں ۔“ (البقرہ:121) یعنی جن لوگوں کو ہم نے کتاب ( قرآن کریم) عطا فرمائی ہے وہ لوگ اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں، وہی لوگ درحقیقت اس کتاب پر ایمان لانے والے ہیں ۔ لہٰذا صرف زبانی طور پر کتاب پر ایمان لانا کافی نہیں ہو سکتا، جب کہ اس کے حقوق کی ادائی نہ ہو، اس آیت کریمہ کے ذریعے الله تعالیٰ نے اس طرف متوجہ فرمایا کہ زبان سے تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ میں الله کی کتاب پرایمان لاتا ہوں، لیکن جب تک وہ اس کی تلاوت کا حق ادا نہ کرے تو وہ اپنے دعوائے ایمان میں صحیح معنی میں سچا نہیں ہے۔

حقوق قرآنی
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کریم کے کچھ حقوق ہیں، جو الله رب العزت کی طرف سے ہمارے اوپر مقرر فرمائے گئے ہیں ، وہ تین ہیں:

اول یہ کہ قرآن کریم کی تلاوت اس اسلوب پر کی جائے جس اسلوب پر وہ نازل ہوا اور جس طریقے پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی۔

دوسرا حق یہ ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کی جائے او راس کے حقائق ومعارف کو اپنے د ل میں اتارنے کی سعی پیہم ہو۔

تیسرا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرنے کی نیت ہو، اگر قرآن کریم کے یہ تینوں حقوق کوئی شخص ادا کرے تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے قرآن کریم کا حق ادا کر دیا، لیکن اگر ان تینوں میں سے کسی ایک حق سے غافل رہا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے قرآن کی تلاوت کا حق ادا نہیں کیا۔

ہماری ستم ظریفی
آج ہمارا معاشرہ عجیب طرز فکر اختیار کیے ہوئے ہے، وہ یہ کہ امت مسلمہ کی ہر محفل ومجلس کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس وقت کلام پاک پڑھا جارہا ہوتا ہے اس وقت تک تو اس کے احترام اور تعظیم کا خیال ذہن میں رہتا ہے، لیکن جونہی قرآن پاک کی تلاوت ختم ہوتی ہے او رعملی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے تو اس مرحلے پر پہنچ کر ہمیں قرآن کی تعلیمات او راحکام یاد نہیں رہتے۔ یہذ ہنی فساد اور خرابی کہاں سے در آئی؟ اس کی بنیاد قرآن کے حقوق وآداب کی عدم رعایت اور لاپروائی ہے۔ ((اللھم احفظنا منہ)

حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت ایسی بے وقعت چیز نہیں ہے کہ جس طرح چاہا تلاوت کر لی،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو باقاعدہ تلاوت کرنے کا طریقہ سکھایا اور اس کی تعلیم دی کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، کس طرح زبان سے نکالنا ہے، اس کے لیے کچھ علوم وضع کیے گئے، جن کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی، اس لیے ان علوم کی رعایت کرتے ہوئے صحیح طریقے پر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔

آج کل لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ قرآن کریم کو طوطا مینا کی طرح رٹنے رٹانے سے کیا فائدہ جب تک کہ انسان اس کے معنی ومطلب نہ سمجھے او رجب تک اس کے مفہوم کا اس کو ادراک نہ ہو اس طریقے پر بچوں کو قرآن کریم رٹانے سے کیا حاصل ہے؟! (العیاذ بالله)

دو الگ الگ چیزیں
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کو جن مقاصدکے لیے دنیا میں بھیجا گیا ان میں سے ایک اہم ترین مقصد تلاوت کتاب بھی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اس لیے تشریف لائے تاکہ کتاب الله کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کریں اور لوگوں کو تلاوت کرنے کی ترغیب دیں۔ معلوم ہوا کہ تلاوت کرنا ایک مستقل مقصد ہے او رایک مستقل نیکی او راجر کا کام ہے، چاہے سمجھ کر تلاوت کرے یا بے سمجھے، تلاوت کرنے پر ہر حال میں اجروثواب ہے اور یہ تلاوت حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔

یاد رکھیے! جب تک کسی کو قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا نہ آیا تو وہ شخص دوسری منزل پہ قدم کیسے رکھے گا؟ قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا پہلی منزل ہے او راس منزل کو پار کرنے کے بعد دوسری منزل ( سمجھ کر پڑھنے) کا نمبر آتا ہے ،خوانخواستہ کوئی شخص پہلی منزل پار نہ کر سکا تو دوسری منزل کیسے پار کرے گا؟ او ربغیرسمجھے پڑھنے پر بھی انسان اجروثواب کا مستحق ہوتا ہے، چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو ہر حرف کی ادائی پر الله تعالیٰ کی طرف سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں او رپھر حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ”الم“ ایک حرف ہے، بلکہ ’الف“ ایک حرف ہے ، ”لام“ ایک حرف ہے اور”میم“ ایک حرف ہے۔ (ترمذی)

آج ہمارے دلوں میں نیکیوں کی فضیلت او راس کی اہمیت موجود نہیں ہے، لیکن یاد رکھیے! جب آخرت کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گا اورعالم برزخ کے دل دوز مناظر ہم دیکھ رہے ہوں گے تو اس وقت وہاں صرف یہ سوال ہو گا کہ کتنی نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں لے کر آئے ہو؟ اس وقت ان نیکیوں کی قدر وقیمت معلوم ہوگی۔

الغرض قرآن کریم کی تلاوت مستقل فضیلت کا باعث اور اجرو ثواب کا ذریعہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا معمول رہا ہے کہ صبح سویرے جب تک قرآن کریم کی تھوڑی سی تلاوت نہ کر لیتے اس وقت تک دنیا کے دوسرے کاموں میں مشغول نہ ہوتے، صبح کے وقت اگر مسلمانوں کے محلے سے گزر ہو جائے تو گھرگھرسے قرآن کریم کی تلاوت کی آوازیں آیا کرتی تھیں اور تلاوت کی آواز کا آنا یہ مسلمانوں کے محلے کی نشانی ہوا کرتی تھی۔

قرآن سے بے زاری کا نتیجہ
تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک مسلمان قرآن مجید پر عمل کرتے رہے تو الله تعالیٰ نے ایران وروم جیسی سلطنت ان کے قدموں میں ڈال دی او رجب انہوں نے قرآن مقدس کی تعلیمات کو نظر انداز کیا تو الله رب العزت نے بھی ان کو نظر انداز کر دیا، جس کی تائید ایک مشہور حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا:
”اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ بے شک تمہارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تبارک وتعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کسی قوم کو عزت اور شرف کا بلند مقام عطا فرماتا ہے اور اس کتاب کے ذریعے کسی قوم کو ذلت ورسوائی سے ہم کنار کر دیتا ہے۔“ (مشکوٰة)

قرآن کے قدر کرنے والوں کا مقام
مذکورہ حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا میں الله تبارک وتعالیٰ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں، اصول وضوابط کے ساتھ تلاوت کرنے والوں اوراس کے جملہ حقوق کی رعایت کرنے والوں کوہدایت کی دولت سے نوازتا ہے، اگرچہ وہ حسب ونسب او رمال وزر کے اعتبار سے دنیا والوں کی نظر میں بلند مقام نہ رکھتے ہوں ، مگر الله تعالیٰ کی نگاہ میں ان کا مرتبہ بلند وبالا ہوتا ہے او رایسے بوریا نشینوں کا امیر وکبیر ادنیٰ واعلیٰ سب ہی لوگ احترام کرتے ہیں تو دنیا میں انہیں یہ شرف وعزت کا مقام حاصل ہوا اور آخرت میں بھی وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے۔ ( ان شاء الله)

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
لہٰذا ہمیں اپنی اس کج روی کو بدلنا چاہیے، الله اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور قرآن کریم کے احکام وپیغام کو عملی جامہ پہنا کر تلاوت کلام پاک سے اپنے شب وروز منور کرنے چاہییں۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے کہ جسے عمل میں لانے کے بعد ہم اپنی عظمت رفتہ کو بھی حاصل کرسکیں گے، دنیا میں بھی ہم کام یاب وکام ران ہوں گے اور آخرت میں بھی سرخ رو ہوں گے۔ ان شاء اللہ العزیز۔