قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں

قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

آفات وبلیات اور مصائب ومشکلات طوفان، آندھی، ہواکے جھکڑ، زلزلے اور پانی کا سیلاب ساری چیزیں خدا کی قدرت سے ہوا کرتے ہیں، ظاہری اسباب بنانے والی ذات بھی اللہ عزوجل کی ہے، ظاہری اسباب خواہ کچھ ہوں ؛ لیکن خدا کی قدرت اور اس کی لا محدود طاقت اس کے پیچھے کارفرما ہوا کرتی ہے، ہوا، آگ، پانی اورمٹی… یہ قدرت کی وہ طاقتیں ہیں، جن کے سامنے انسانی عقل گنگ رہ جاتی ہے ۔

آفات کیوں آتی ہیں؟
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ یہ آفات وبلیات، طوفان وسیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانش وروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ طوفان اور سیلاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے؛ مگر ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا؛ اس لیے ہم سب اس کو نیچرل سورسز کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھ سکتے۔

قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ سیلاب، طوفان او زلزلے و دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمارے سائنس داں اور ماہرین ان اسباب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، ہمیں ان کی کسی بات سے انکار نہیں۔ اسباب کے درجے میں ہم ہر معقول بات کو تسلیم کرتے ہیں؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، آندھیوں، طوفانوں،زلزلوں، وباؤں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔

٭… ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا ،ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح پہلی امتوں پر کی تھی۔

ترمذی شریف میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم!تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔

٭… ابو داؤد شریف میں حضرت صدیق اکبر سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات، یعنی نا فرمانی کے اعمال کو دیکھیں اوراصلاح کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے۔

ابن ماجہ شریف میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہوگا، مردوں کے سروں پر گانے کے آلات بج رہے ہوں گے اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰانہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندر اور خنزیرکی شکل میں مسخ کر دے گا۔

٭…ترمذی شریف میں حضرت علی اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰة کو تاوان سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرماں بردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچنے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شرابیں پی جانے لگیں اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو، جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگے۔

اسی طرح آقائے نام دار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی؛ اس لیے سیلاب اور آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے بچاؤ اور تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے، لیکن اس کے ساتھ، بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس پر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سزا اور تنبیہ تو مجرموں کو ہوتی ہے، جو لوگ جرائم میں شریک نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ اور معصوم بچوں اور عورتوں کا کیا جرم ہے کہ وہ بھی بہت بڑی تعداد میں زلزلہ کی زد میں آجاتے ہیں؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بات بھی جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔ جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے آنے والی ان آفتوں کا ذکر کیا تو یہ سوال خود آپ سے بھی کیا گیا تھا کہ کیا نیک لوگوں پر بھی یہ عذاب آئے گا؟ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔

٭…بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں؛ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔

٭…مسلم شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میری امت کا ایک شخص حرم مکہ میں پناہ لیے ہوگا اور میری امت کا ہی ایک لشکر اس کے تعاقب میں مکہ مکرمہ کی طرف یلغار کرے گا؛ لیکن ابھی وہ” بیدا“ کے مقام پر ہوں گے کہ سب لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ ان میں بہت سے لوگ غیر متعلق بھی ہوں گے؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان میں مستبصر بھی ہوں گے، یعنی وہ لوگ جو اپنی مرضی کے ساتھ شریک ہوں گے، کچھ مجبور بھی ہوں گے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ساتھ ہوں گے اور ابن السبیل، یعنی راہ گیر بھی ہوں گے، جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا؛ لیکن جب زمین پھٹے گی تو سب لوگ اس میں دھنس جائیں گے، البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔

٭…بخاری شریف میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش سے روایت ہے کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو ام المومنین نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا؟ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! جب خباثتوں کی کثرت ہو جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔

مسلم شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہ سے بھی اسی نوعیت کی روایت ہے کہ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جو شخص نافرمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوگا، کیا اس پر بھی عذاب آئے گا؟ آپ نے فرمایا:ہاں!دنیا کے عذاب میں سب ایک ساتھ ہوں گے، پھر قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔

چناں چہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے، جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرمارہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت ہے، جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں…
وہ رب انسان کو اپنی معرفت و قرب اور اپنی عبادت و بندگی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ندا دیتا رہتا ہے۔ جس طرح انسان کا کوئی محسن اسے تباہی سے بچانے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے۔ اسی طرح بلاتشبیہ وبلامثال وہ رب جب اپنے بندوں کو نافرمانیوں و سرکشیوں کی صورت میں ہلاکت کے گڑھوں کی طرف بڑھتے اور عبادت و معرفت سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ انہیں کبھی پیار اور کبھی زجرو توبیخ کے ذریعے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بندے پر رحمت نچھاور کرتا ہے اور کبھی غیظ و غضب نازل کرتا ہے۔ وہ پیار و محبت کے انداز میں بندے کو یوں احساس دلاتا ہے:

اے انسان!تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا؟ (الانفطار:6)

اللہ رب العزت جب انسانوں کی نافرمانیوں اور سرکشیوں پر نظر کرتا ہے۔ جب وہ لوگوں میں دنیا طلبی کو زیادہ اور خدا طلبی کو کم دیکھتا ہے۔ جب انسان زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و بغاوت کو اختیار کرلیتا ہے۔ جب انسانیت ہی ظالم انسانوں کا اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ جب انسان اللہ کے حرام کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے۔ جب اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔ جب اپنی نافرمانی اور سرکشی کو اپنی دین داری وخوبی جاننے لگتا ہے۔ جب اپنی بدکرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے۔ جب معاشرے کے کمزوروں کا خون چوسنا اور کمزور و ضعیف لوگوں کے مال کو ہڑپ کرنا اپنا فرض منصبی جاننے لگتا ہے۔ جب ایمان کی قدریں کمزور اور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔ جب نیکی کے بجائے گناہ اور اطاعت کے بجائے معصیت اپنے سائے دراز کرنے لگتی ہے اور جب عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا غضب قدرتی آفات، زلزلہ، سیلاب، وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔

آج کل ہم آئے دن زلزلوں کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے نامہ اعمال اور گناہوں کے باعث غضب الٰہی ہے کہ زمین ہمارے گناہوں کی وجہ سے تھرتھراتی و کانپتی ہے اور اس میں بے پناہ ارتعاش ظاہر ہوتا ہے۔ یہ غضب جہنم کے غضب سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ اس غضب کا مقصد بندے کے عمل کی اصلاح اور اسے اللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔

امت مسلمہ عذاب اکبر سے محفوظ ہے
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیوی زندگی میں ہم پر نازل ہونے والے یہ عذاب غضب کے معنی میں ہیں؛ اس لیے کہ باری تعالیٰ نے امت مسلمہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کے صدقے عذابِ ہلاکت سے محفوظ کرلیا ہے۔ وہ عذاب جو پہلی اقوام و امم پر نافرمانی کے باعث آتے تھے کہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا تھا۔ ان کے لیے اللہ کا عذاب دائمی موت کا پیغام لے کر آتا تھا۔ باری تعالیٰ نے چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ﴿ومآ ارسلنٰک اِلا رحمة لِلعٰلمِین﴾ کا تاج پہنایا اور سارے جہانوں کے لیے رحمت بناتے ہوئے آپ کو رحمة للعالمین کے عظیم منصب پر فائز کیا۔ لہٰذا اب اس رحمت اللعالمینی کی شان کے ساتھ بعثت کا تقاضا تھا کہ اب اللہ کا عذاب اس طرح انسانوں پر نہ آئے جس طرح سابقہ اقوام و ملل پرآتا رہا؛ اس لیے کہ رحمت اور عذاب دو متضاد چیزیں ہیں۔ وہ عذاب اکبر جو دوسری قوموں اور امتوں کو دنیوی زندگی میں اللہ کی نافرمانی پر تباہ کردیتا تھا اور ان کا وجود مٹادیتا تھا، باری تعالیٰ نے اس عذاب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت کے باعث اٹھالیا ہے۔ اب عذاب اصغر غیظ وغضب کی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا؛ تاکہ بندے رب کی بندگی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس کے احکام کو اپنی زندگی کا عمل بنائیں۔

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے عذابِ الٰہی نہ اترنے کو اس طرح بیان فرمایا گیا:

اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ)اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان کو عذاب دے، جب کہ (اے حبیبِ مکرم!)آپ بھی ان میں(موجود)ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان کو عذاب دینے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔

اس آیت کریمہ نے اس تصور کو واضح کردیا ہے کہ آپ قیامت تک ﴿وانت فیہم﴾ کی شان کے تحت ہمارے اندر موجود ہیں اور﴿وما ارسلنٰک الا رحمة للعٰالمین﴾ کے تحت باری تعالیٰ نے امت مسلمہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دنیوی عذابِ اکبر کو اٹھادیا ہے۔

اس آیت کریمہ کے اگلے حصے نے اس بات کو بھی واضح کردیا ہے کہ جب تک یہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہیں گے، باری تعالیٰ ان کو عذاب میں گرفتار نہ کرے گا۔ اگر ان کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں انفرادی واجتماعی توبہ اور استغفار کے لیے بلند ہوتے رہیں گے تو باری تعالیٰ ان کو دنیا کے سارے عذابوں اور اپنے غضبوں سے بھی محفوظ کردے گا۔ لہٰذا ہمیں حکم دیا گیا کہ:

اور تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو، اے مومنو!تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پاجاو۔ (النور:31)

اس آیت کریمہ نے واضح کردیا ہے کہ اللہ کے غضب، گرفت اور عذاب سے بچنے کا طریقہ توبہ و استغفار ہے۔ یہ توبہ و استغفار انفرادی زندگی میں بھی نظر آئے اور اجتماعی زندگی میں بھی نظر آئے۔ یعنی ہمارے انفرادی کردار پر بھی توبہ و استغفار غالب نظر آئے اور اجتماعی کردار پر بھی۔

قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اب آخری سوال کی طرف آئیے کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ واستغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کو یادکریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔

اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ تباہی کے خوف ناک مناظرجو دکھائے جارہے ہیں، ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں؛ لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے؛ اس لیے ہر شخص کو دامے، درمے، سخنے اس حوالہ سے مدد دینے اور ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے ۔