غیروں کی تہذیب سے پرہیز

غیروں کی تہذیب سے پرہیز

مولانا محمد ساجد حسن مظاہری

”اور ہر گز راضی نہ ہوں گے آپ سے یہود اور نصاریٰ، جب تک آپ تابع نہ ہوں ان کے دین کے۔ آپ بتلا دیجیے کہ حقیقت میں ہدایت کا راستہ وہی ہے جو الله نے بتلایا ہے او راگر چلے کبھی آپ ان کی پسند پر ، علم ہونے کے باوجود، جو آپ کو پہنچا، تو خدا کے ہاتھ سے آپ کو بچانے والا کوئی حمایت ہو گا، نہ کوئی مدد گار۔“ (سورہ بقرہ:120)

شان نزول
حضرت عبدالله بن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کچھ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی اور یہود اس کو اپنا قبلہ مانتے تھے، ان کو ربختوں نے یہ سمجھا کہ شاید مرورایام کے ساتھ ساتھ آپ ہمارے دین میں داخل ہو جائیں گے، جس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔

تشریح وتوضیح
یہود بے بہبود اور نصاریٰ نجران کی مذمت بیان کی جارہی ہے کہ اہل کتاب کے یہ دونوں گروہ آپ سے ناراض وناخوش ہیں اور آپ کی نبوت ومعجزات اور کلام الہٰی کے منکر ومعاند اور ان کا عناد وبغض اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ کتنی ہی مدلل، معقول، حق اور دل کو لگتی بات سنائیں اور آسمانی فرشتہ بھی آکر تصدیق وتوثیق کرے، تب بھی یہ ماننے والے نہیں،جیسا کہ ان کے پیرومرشد پولوس نے کہا ہے کہ تم کو آسمانی فرشتہ بھی کلام سنا دے تب بھی تم نہ مانو۔ (نامہ گلایتوں کا اول باب،حقانی:1/70)

چاہیے تو یہ تھا کہ رسول کی اتباع سے بہرہ ور ہو کر زمرہ سعداء میں شامل ہوتے اور پیروی حق کرکے جنت کی لا فانی نعمتوں کے حق دار بنتے۔ اس کے بجائے شیطان کے آلہ کار بن کر یہاں تک کوشاں ہیں کہ آپ کوہی اپنی راہ پر چلالیں اور اپنے دین میں داخل کر لیں اور ان کے راضی اور خوش ہونے کی صرف اور صرف یہی ایک صورت ہے، جیسا کہ حال وقال سے مترشح ہے اور یہ محال ہے۔ لہٰذا آپ زمانہ ماضی میں ایمان لانے کی توقع اور قبول حق کی امید میں بعض جائز امور میں ان کی موافقت فرماتے رہے، اس کا سلسلہ اب قطعا بند کر دیا جائے، کیوں کہ ان کے بجا تعصب، تمردوتعنت، طغیان وعناد، زیغ وضلال،ضد اور ہٹ دھرمی نے ان کے اندر موجود فطری ایمان کے چراغ کو گل کر دیا ہے، جس کے روشن ہونے کی اب کوئی توقع نہیں رہی۔

بعد ازاں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کی مخالفت فرمائی، یعلی بن شداد بن اوس سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہود موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے، تم ان کی مخالفت میں موزے پہن کر نماز پڑھا کرو۔ (ابوداؤد:1/95)

ابو امامہ کی طویل حدیث ہے، جس میں مذکور ہے کہ یہود پائجامہ پہنتے ہیں، تم ان کی مخالفت میں تہہ بند، لنگی بھی باندھا کرو۔ (مسند احمد:5/64)

پیغام
قرآن وحدیث میں، غیروں کی موافقت وموالفت سے اجتناب کا حکم ہے، حتی کہ عبادات میں بھی۔ (مسند احمد:1/241)

اب غور فرمائیں وہ حضرات جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور غیروں کی تہذیب وتمدن ، طرز معاشرت، کلچر وثقافت ان کی رگ وپے میں ایسی سمائی ہے کہ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے ،حتی کہ پیشاب کرنے میں بھی اغیار کی تقلید کرتے ہیں اور دولہا میاں تواز سرتاپا غیروں کے لباس میں ملبوس، گلے میں ٹائی ( عیسائیوں کی صلیب کا نشان) لٹکائے مسلم گھرانوں میں بڑی شان سے تشریف لاتے ہیں، مگر کسی کی بھی پیشانی پر بل نہیں آتا۔شکل وشباہت دیکھو تو غیروں کی، رسم ورواج دیکھو تو غیروں کے، اسی کو علامہ اقبال نے فرمایا #
        وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
        یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

اور آج کا مسلم نوجوان غیروں کے اشارہ پر اپنا دھن دولت، عزت وآبرو، اسلامی اقدار، اسلاف کی امانت اور اپنی متاع عزیز کو قربان کر رہا ہے اور یورپ کی طرف ہاتھ ہلا ہلا کر گویا یوں کہتے ہوئے رقصاں ہے #
        سپردم بتو مایہٴ خویش را
        تو دانی حساب کم وبیش را
ترجمہ:” میں نے اپنا پورا سرمایہ آپ کے حوالہ کر دیا ہے، آپ کمی وزیادتی کا حساب کر لیں“۔

امت مسلمہ کے افراد یہود ونصاریٰ ،مجوس ومشرکین کی خواہ کتنی بھی اقتدا کر لیں، ان کے رہن سہن کو چاہے جس حد تک اپنا لیں، بودوباش اور طرز زندگی میں کتنا بھی آئیڈیل بنا لیں، موافقت وموالفت، نرمی وملاطفت کے کتنے ہی پہلو اختیار کر لیں، مگر اسلام ومسلمین کے تئیں ان کا جو تنفر ہے، وہ کم نہیں ہوسکتا۔ تاآں کہ کوئی بد نصیب، ازلی شقی اور قسمت کا مارا، اسلام کا قلادہ نکال کر ابدی لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے او رایمان ہی کا سودا کر لے تو ان کی خوشیاں بے پناہ، عطیات بیش بہا اور داد ودہش کے انبار، تعریف وتوصیف اور دانش مندی کے وثیقے(سر ٹیفکیٹ)، بدنام زمانہ شیطان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی مثال سامنے ہے۔