عیش وعشرت کے ساتھ قوم کی حالت نہیں بدلی جاسکتی

عیش وعشرت کے ساتھ قوم کی حالت نہیں بدلی جاسکتی

محترم نثار احمد حصیرقاسمی

دین ومذہب کی مثال مدرسہ کی سی ہے جہاں بچوں کو خوبیوں کی تعلیم دی جاتی اوراچھائیوں اورنیکیوں کا خوگر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مذہب اسلام ایسی ہی درس گاہ کی طرح ہے جو اپنے ماننے والوں کو نیکیوں، بھلائیوں اورحسن اخلاق کا خوگر بناتی اورتہذیب وتمدن اورعمدہ عادات واطوار سے آراستہ کرتی ہے ، وہ بچپن سے اس کی تربیت کرتی اورقدم قدم پر اس کی راہ نمائی کرتی ہے، تاکہ انسان کی نشوونما اس طرح ہو اوروہ اس حال میں بڑاہو کہ اس کے اعمال واقوال، تعامل وسلوک،بات چیت، کردار وطرز عمل اور اس کے ساری حرکات وسکنات اورزندگی کے تمام میدانوں وگوشوں میں پختگی آچکی ہو۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دین حنیف کا ہر ماننے والا کمال انسانی کے پورے پورے حصے کو پانے والا ہوتاہے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اسلام کا مقصد اپنے ماننے والوں کو انسانیت کے عروج تک پہنچاناہے، اس دین حنیف کی مثال ایک ہاسپیٹل جیسی ہے، جس میں ہرانسان شریک ہوسکتاہے، ہرکوئی یہاں علاج حاصل کرتا اوربیماری کی مناسبت ونوعیت کے اعتبار سے اس کا علاج کیاجاتاہے، وہ اس ہاسپیٹل میں شریک رہتااوراس علاج سے مستفید ہوتاہے، پھر وہ بیماری سے شفایاب ہوکر یہاں سے ڈسچارج ہوتاہے، کسی کا علاج چند دنوں کا ہوتا ہے اورکسی کو مہینوں اس میں برقرار رہناپڑتاہے، کسی کی بیماری معمولی ہوتی ہے اورکسی کی خطرناک، مگر سب کا علاج ہوتا ہے اورعموما اللہ کے فضل سے سب یہاں سے شفایابی وصحت پاکر نکلتے ہیں، مگر صحت کے باوجود عافیت میں ہرکوئی یکساں نہیں رہتا، کسی کو مکمل عافیت حاصل ہوتی ہے اورکسی کو کم، کوئی اس طرح نکلتا ہے جیسے اسے کوئی بیماری لاحق ہی نہ ہوئی ہو اورکوئی پوری زندگی کمزوری ولاغری اورپرہیزودوا کے سہارے جیتاہے؛ لیکن اگر کسی کو بیماری لاحق ہوجائے اوروہ علاج کرانا نہ چاہے، دوا استعمال کرنے سے انکار کردے اورہاسپیٹل میں شریک رہنے کے باوجود ڈاکٹروں کے مشورہ پر عمل نہ کرے اورہزار سمجھانے کے باوجود دواؤں اورعلاجوں کے استعمال سے جی چرائے اوراپنی ضد پر اڑا رہے تو کیا اسے شفایابی حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا یہ ہاسپیٹل جہاں سب کا علاج ہوتاہے، اس بیمار کو کام آسکے گا؟ کیا اس کی اس حماقت کی وجہ سے ہاسپیٹل کے دروازے اس پر بند نہیں ہوں گے؟ کیا ڈاکٹر اس کی ضد سے مایوس ہوکر اسے باہر نہیں کردیں گے؟

اسی طرح اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے ہرطرح کی دوا اورہر طرح کا علاج فراہم کرتاہے، اس کے دل کی بیماریوں کو دور کرناچاہتاہے، اسے صحت مند دیکھنا چاہتاہے، ہرطرح کی اندرونی بیماری سے اسے پاک کرنے کی سعی کرتاہے، لیکن اس دین کا ماننے والا اگران دواؤں اورعلاجوں کو استعمال کرنے سے انکار کردے وہ اس دین حنیف کے ڈاکٹروں کی بات ماننے سے اپنے کان بندکرلے اوروہ اپنی بیماری کے ساتھ زندگی گذارنے پر اڑا رہے تو فطری طور پر اسے اللہ کی رضاوخوش نودی سے دور کردیاجاتا ہے، اس پر اللہ کی عنایتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اوروہ اللہ کی رحمتوں سے بہت دور ہوجاتاہے اوروہ اس مقام تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتاہے جو مقام اس کے لیے بنایاگیاتھا، کیوں کہ اس مقام تک مفسدین ومحرومین اورخواہشات نفسانی کے طلب گار نہیں پہنچتے اورنہ ہی زمین میں برتری جتانے اورتکبر کرنے والے اوردوسرے بندوں کو حقیر جاننے والے پہنچتے ہیں۔

دین وایمان اللہ رب العزت سے ایسا تعلق ہوتاہے، جو ایسے ایمان والوں کو بلندیوں تک پہنچاتاہے، جنہوں نے اپنے آپ کو شرو فساد کی گندگی اورمعاصی وگناہ کے جذبات سے صاف کررکھا ہو اوراپنی روح کو پاک اوراپنے باطن کو نکھار رکھاہو، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روحانی بلندی اور صفائے قلبی یوگا جیسی ورزشوں کے ذریعہ یا مراقبہ کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے، خواہ اس کا ایمان اللہ پر ہو یانہیں،وہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کائنات اور اس کی قدرت وکرشمہ سازیوں میں غور وفکر کرنے والا ہو یانہ ہو، اس کی نشانیوں میں تدبر کرنے والا ہویانہ ہو، نماز قائم کرتا اورزکوٰة اداکرتا ہو یانہ ہو، اس طرح کا تصور جن لوگوں کا ہے درحقیقت وہ دھوکے میں ہیں ،اللہ کے پرہیزگار بندوں میں نہ ان کا کوئی مقام ومرتبہ ہے نہ کوئی وزن، بلکہ وہ گم راہی میں پڑے ہوئے اورشیطان کے اسیر بنے ہوئے ہیں؛ کیوں کہ انسان اورانسانیت کے کمال کا پہلا اوربنیادی ستون اللہ پر ایمان رکھنا، اس کی الوہیت وربوبیت کا اقرار کرنا ، اس کے وجود اوراس کی قدرت کاملہ پر یقین رکھنا اورساتھ ہی یہ اعتقاد بھی رکھناہے کہ اللہ ہی خالق ورازق ہے، اسی کے سامنے جھکنا، اسی سے مدد طلب کرنا، اسی کے اتارے ہوئے کلام سے فیصلہ طلب کرنا اورہرمشکل کا حل اسی میں تلاش کرنا ہے، سچا مسلمان اپنی کتاب ہدایت سے مربوط وبندھا ہوتا ہے اوراس کا رشتہ سنت نبوی سے جڑا اورمستحکم ہوتاہے کہ اس سنت نبوی نے ہی قرآنی احکام کونافذ کیا اوراس کے مقاصد کو اجاگر کیاہے، اسی نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو قرآنی ہدایات سے مستفید ہونے اوراس کی روشنی سے اجالا حاصل کرنے کے قابل بنایاہے۔ سچے مسلمان کا ضمیر کبھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا، بلکہ ہروقت وہ اسے یاد رکھتاہے، وہ صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی اللہ کے سامنے کھڑا ہوجاتا اوراس سے راہ نمائی طلب کرتا اوراس کی عطا وبخشش کا طلبگار ہوتاہے، اس کا یہ عمل صبح صبح اس وقت ہوتاہے جب کہ ابھی وہ زمین کے گوشوں میں پھیلے ہوئے رزق کو تلاش کرنے اوراس کی جدوجہد میں مصروف ہونے کے لیے اپنے گھر سے قدم باہر نہیں نکالتاہے، پھر جب وہ گھر سے نکلتااوراللہ کو یاد کرتے ہوئے دن گذارتا ہے اورشام میں تھکا ماندا گھر لوٹتاہے تو اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔

من أمسی کالا من عمل یدہ بات مغفوراً لہ جو شخص اپنے ہاتھ کے عمل سے بوجھل ہو کر شام کرتا ہے وہ اس حال میں رات گذارتاہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔ اب وہ شام میں اپنے بستر پر جانے سے قبل پھر اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اورعشاء کی نماز ادا کرتاہے، اس طرح اپنے عمل کا آغاز اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اوراس کا اختتام بھی اسی طرح کھڑے ہوکر کرتاہے، سچامسلمان ایسا ہی ہوتاہے، اس کے سوا اوراس کے برخلاف جو بھی ہوتا ہے وہ نام کا تو مسلمان ہوسکتاہے، صحیح معنوں میں وہ مسلمان نہیں، بہت سے انسان، جنہیں پالتو جانور بھی کہاجاسکتا ہے، کا کہناہے: ﴿وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَة ﴾․ (الکہف:36)

ہم قیامت آنے پر یقین نہیں رکھتے، کوئی کہتاہے:ان ہی ارحام تدفع وأرض تبلع، وما یہلکنا إلا الدہر․یہ انسانی زندگی تو بس یہ ہے کہ رحم مادر ہمیں اس دنیا میں پھینک دیتی ہے اورپھر یہ زمین ہمیں نگل لیتی ہے اورہمیں تو گردش ایام ہی ہلاک کرتاہے۔ اورکچھ وہ ہیں جو قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد انہیں دوبارہ نہیں اٹھایاجائے گا اوراس دنیوی زندگی کے علاوہ کوئی اورزندگی نہیں ہے :﴿وَأَقْسَمُواْ بِاللّہِ جَہْدَ أَیْْمَانِہِمْ لاَ یَبْعَثُ اللّہُ مَن یَمُوتُ﴾لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھاکر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ تعالی زندہ نہیں کرے گا(النحل 38) اس دنیا میں انسان محکوم بھی ہیں اوربادشاہ وحکم راں بھی ، قائدین اورلیڈران بھی ہیں اور بھلے وبرُے بھی، ہر ایک کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اوران سے ہرہر نقل وحرکت کے بارے میں بازپرس کی جائے گی، اس زندگی کے لیے جنہوں نے مکمل تیاری نہیں کی ہے ان کی حالت بڑی بری اورافسوس ناک ہوگی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:”رب کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة“ بہت سے دنیامیں بالباس ہیں، جو قیامت کے دن بے لباس ہوں گے۔

آج دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے دین سے منحرف نظر آرہی ہے، انہوں نے اپنا رشتہ دین سے منقطع کررکھاہے، وہ دین وایمان اوراسلامی شریعت کی بات تو نہیں مانتے اورنہ اس کے کسی حکم پر عمل کرتے ہیں، مگر بڑے بھونڈے انداز میں بات بات پر ان شاء اللہ، بارک اللہ، اللہ یعافیک، ماشاء اللہ، اللہ تیرا بھلا کرے، اللہ تجھے خوش رکھے، اللہ نے چاہاتو، یا اس طرح کے کلمات اپنی زبانوں سے ضرور ادا کرتے ہیں جب کہ انہیں نہ اللہ پر یقین ہوتا ہے اورنہ اس کے احکام کا پاس ولحاظ ہوتاہے، انہوں نے زندگی میں کبھی مسجد کا رخ نہیں کیا، ان کا دل ویران اوراللہ کی یاد سے بالکل خالی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اوردوسرے مسلمانوں کی اصلاح ان کی ذمہ داری ہے، چاہے یہ اصلاح سراپا ضلال وفساد ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنے الحاد واباحیت پسندی کے ذریعہ دیندار اورپابند شریعت مسلمانوں کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں اورخواہش رکھتے ہیں کہ سارے مسلمان اپنارشتہ اللہ سے توڑ کر ان جیسے بن جائیں، جہاں زندگی کے لیے نہ کوئی قید وبند ہو نہ کوئی رکاوٹ، نفس جو بھی کہے آنکھ بند کرکے اس کی تکمیل کی جاتی رہے: ﴿أُوْلَئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَل﴾․ (الاعراف:179) وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اس دنیا میں جب کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کرتاہے تو اس شخص کو اس کا احسان مند ہونا پڑتاہے اورجو کوئی احسان فراموشی کرتاہے اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اوراس کے لیے دل تنگ ہوجاتاہے، اسی طرح خالق کائنات، جس کے احسانات پیدائش سے موت تک، صبح سے شام تک ہر لمحہ وہرگھڑی انسان پر ہوتے رہتے ہیں، اس محسن کی احسان فراموشی بھی موجب تحقیر بنتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی شریعت اتار کراوراپنے پیارے نبی کو مبعوث کرکے ہمیں بتادیاہے کہ ہمیں زندگی کس طرح گذارنی ہے۔ اسلام اورکفر کی لڑائی روزاول سے جاری ہے، تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جس میں یہود ونصاری نے ہمارے خلاف جنگ نہ چھیڑی ہو، ان کی ریشہ دوانیاں اورہمیں ختم کرنے کی تدبیر یں کبھی نہیں رکیں، انہوں نے ہمارا شکار کرنے کے لیے اخیر کے زمانہ میں ہمارے گرد جو جال بچھایاہے ان میں سے ایک حد سے زیادہ لذتوں اورخواہشات نفسانی کی تکمیل ہے، انہوں نے ہمارے عوام وخواص کو عیش وعشرت کے ہرممکنہ سازوسامان فراہم کرکے انہیں بے دست وپا اورنکما بنادیا ہے اوروہ اپنی عیاشی میں ڈوب کر ان کے اسیر بن گئے ہیں، اب وہ ان سے جو چاہتے ہیں کراتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ان کے ذریعہ وہ دوسرے مسلمانوں کا قتل کراتے اوراس پر ایوارڈ تقسیم کرتے ہیں،اس مغربی افکار کی یلغار نے دین حق کے نشانات کو مٹادیا اوراس کی جگہ ہمیں ایسے رسم ورواج اورعادات واطوار کا خوگر بنادیا ہے جس کے بارے میں ہم گمان کربیٹھے ہیں کہ یہ بھی ہمارے دین کا حصہ ہے یاہمارے دین سے ہم آہنگ ہے ہمارے کل اورآج کے یہ دشمن ہم سے یہی چاہتے تھے کہ ہم نام سے تومسلمان باقی رہیں، مگرہماری روح اورقلب مغرب کے تابع ہو، ہم ان کے غلام بن جائیں وہ ہمیں جدھر چاہیں ہانکتے رہیں۔

آج مسلمانوں کی غالب اکثریت خواہشات کی غلام بنی ہوئی ہے، اس غلامی نے گناہوں کے دروازے کھول دیے ہیں اوروہ اس میں جوق درجوق داخل ہورہے ہیں، میں نے کچھ دنوں قبل عربی اخبار الشرق میں شائع شدہ ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ فلسطین میں ایک کرسچن اسکول ہے، جہاں پوری قوت سے مسلمان عرب بچوں کو کرسچن بنایاجاتاہے، اس اسکول کے ڈائرکٹر سے رپورٹ طلب کی گئی کہ گزشتہ سال آپ نے کتنے فلسطینی عرب مسلم بچوں کو کرسچن بنایا؟ توانہوں نے جواب دیا کہ یہ مجھ سے سوال نہ کیاجائے کہ میں نے کتنے کو کرسچن بنایا، بلکہ یہ سوال کیا جائے کہ ہم نے ان کے ذریعہ کتنے پھاؤڑے اورسبل (ازمیل، کھنتی) تیار کئے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں ایسا ہی بنادیا ہے، ہم ان کی تعلیمات وہدایات اوران کی تربیت کے ذریعہ خواہشات اورشہوتوں کے غلام بن کر،دین ومذہب اورایمان واسلام کی بلند وبالا عمارت کو خود اپنے ہاتھوں سے منہدم کرنے میں لگے ہیں، ان کا کام صرف مشورہ دینا اوربتاناہے کہ ہمیں کیا کرناہے، باقی ساری انہدامی کارروائیاں ہم خود انجام دیتے اور اس میں اپنی پوری قوت صرف کردیتے ہیں، اس کے لیے ہم اپنا خون پسینہ ہی نہیں، بلکہ اپنا سارا سرمایہ اس میں جھونک دیتے ہیں کہ کسی طرح اسلام کا نام لینے والے پنپ نہ پائیں اوروہ ہماری عیاشی وبدکاری اورشہوت پرستی میں رخنے نہ ڈال سکیں۔ آج عالم عرب ہی نہیں سارے مسلمان ملکوں کی حالت ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ ساری دنیا میں اس وقت سچے مسلمانوں کو حیوانیت کے طوفان کا سامناہے، جس میں مغرب اوربھی شدت پیدا کرنے کی تدبیریں کررہاہے؛جب کہ یہ طوفان اسی کی پیداوار ہے، مسلمان جب تک شہوت پرستی، راحت طلبی اورنفس کی غلامی سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامیں گے انہیں اس طوفان اورسیل رواں سے کوئی نہیں بچاسکتا۔آج بھی سچے مسلمان، امانت دار صحافی اوردیانت دار اہل قلم موجودہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دانش ور طبقہ ذرا ہمت کرے اورکسی لومة لائم کی پرواکیے بغیر نفس کی غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کرے اور عوام کے اندر شعور بیدار کرے اورانہیں باورکرائے کہ ہماری نجات کا راستہ نفس کی غلامی میں نہیں، بلکہ کتاب وسنت کے بتائے ہوئے راستے کی پیروی کرنے اورمیراث محمدصلی الله علیہ وسلم کو اپنے لیے مشعل راہ بنانے میں ہے، جب تک ہم اس میراث کی حفاظت کرنے والے اوراس پر عمل کرنے والے نہیں بنیں گے ہمیں نہ دنیا کی بھلائی نصیب ہوگی نہ آخرت کی، نہ ہمیں آزادی حاصل ہوگی نہ سعادت، نہ ہماری عزت ہوگی نہ سرخ روئی اورنہ ہماری موجودہ بدتر وزوال پذیر حالت تبدیل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْن…لِلّہِ جَمِیْعاً﴾․ (النساء :39-38) منافقوں کو اس بات کی خبر پہنچادیں کہ ان کے لیے دردناک عذاب یقینی ہے، جن کی یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں، کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟! تو یاد رکھیں کہ عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے:﴿َ یُرِیْدُونَ أَن یَتَحَاکَمُواْ…ضَلاَلاً بَعِیْداً﴾ (النساء:60)وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جاناچاہتے ہیں، (ان سے فیصلے طلب کرتے ہیں)حالاں کہ انہیں حکم دیا گیاہے کہ وہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تویہ چاہتاہے کہ انہیں بہکاکر دور ڈال دے۔