علماء اور عوام کے درمیان ربط و تعلق وقت کی اہم ضرورت

علماء اور عوام کے درمیان ربط و تعلق وقت کی اہم ضرورت

مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

اس عمومی دین بیزاری کے دور میں ،جب کہ ہر سَمت اسبابِ ضلالت وگم راہی کی بہتات اور روزافزونی ہے، سادہ لوح معصوم عوام کو غیر شعوری طور پر اسلامی تعلیمات اور راہِ حق سے بر گشتہ کرنے اور انھیں غلط کاری، بے راہ روی اور گم راہی میں مبتلا کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کیے جارہے ہیں، ملمع سازی اور ظاہری رعب داب کا سہارا لے کر عوام کورجھایا اور لبھایا جارہا ہے ، زہر کو تریاق بنا کر پیش کیا جارہا ہے ، عوام اپنے بھولے پن،سادگی وسادہ لوحی میں ظاہر ی چمک دمک، دل ربا دل فریب تزئین وآرائش سے مرعوب ہوکر، عواقب ونتائج سے لاپروا، اس زہر کا بے محابا استعمال کررہی ہے، منزل کی تلاش میں غیر ارادی طورپر اس کا ہر اُٹھنے والا قدم انھیں تباہی وبربادی کے گڑھے کی طرف لے جارہا ہے ۔

اس وقت آپ چاروں طرف نظر دوڑاکر دیکھیے، ہر سَمت آپ کو مختلف گم راہ کن تحریکوں اور تنظیموں کا جال بچھا ہو ا نظر آئے گا، مسلمانوں کو دین وایمان سے برگشتہ اور اسلام کے ساتھ ان کے ربط وتعلق کو کمزور کرنے کی جدوجہد اور کوششیں ہر طرف دکھائی دیں گی، الحاد ولادینی، مذہب بیزاری اور خدا نا شنا سی کی اس عمومی فضا کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شیطان نے بندوں کی گم راہی اور ان کو غلطیوں میں مبتلا کرنے کا جو عہد وپیمان باری تعالیٰ سے کیا تھا،اس نے گویا اس وعدے کی تکمیل کے لیے کمر کس لی ہے اور اپنے اس کام کی تکمیل کے لیے بطورِعملہ اور کارکنان کے ان بد قُماش اور بے دین فرقوں اور جماعتوں کو سرگرم کردیا ہے۔ دشمنوں کی اس ساری جدوجہد، سعی وعمل اور نقل وحرکت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ان کی وہ قیمتی دولت نہ رہے، ایمان وایقان کی اس عظیم ثروت سے محروم ہو جائیں، جس کے بل بوتے پر وہ ہر کام کر گزرنے کی صلاحیت وصلابت اپنے اندر رکھتے ہیں، یقین کی اس کیفیت ولذت سے وہ تہی دست ہو جائیں جس کے سہا رے وہ اپنے کھوئے ہوئے وقار اور اپنی عظمتِ رفتہ کے نقوش دوبارہ بحال کرسکتے ہیں اور اپنے اکابر واسلاف کی یادوں اور عہدِ ماضی کے مظاہرواثرات کو دوبارہ زندہ وتابندہ کرسکتے ہیں، کر سی واقتدار کی زِمام اپنے ہاتھ میں لے کر ان ظاہر پرست، محسوسات ومشاہدات کے خوگر، دولت ِ یقین سے محروم، نفسانیت کے پجاریوں اور خواہشات کے اسیروں پر لگام کس سکتے ہیں، جس کی واضح مثالیں حیاتِ صحابہ اور بعد کے دورمیں اکابرینِ امت کی زندگی میں نمایاں نظرآتی ہیں۔

عیسائی مشنریز اور قادیانیت کی جدوجہد ،دیہاتوں اور مسلم بستیوں میں ان کی تبلیغی وتبشیری سرگرمیوں کا مقصد یہ ہے کہ سادہ لوح مسلم عوام کو ان کی غربت وبے روزگاری ،مفلسی وبدحالی، زندگی میں درپیش دیگر مسائل اور کمزور یوں کا سہارا لے کر، ان کے مسائل کے حل اور ضروریات کی تکمیل کے نام پر، ان کے ایمان کی یہ مایہ ان سے چھین لی جائے اور انھیں یقین کی اس چاشنی اور دولت سے محروم کیا جائے جو قرآن کے ارشاد کے مطابق ان کی سربلندی وسرفرازی کی اصل ضامن ہے ۔

بعض ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ یہ یورپین اسلامی طرزہےئت، بودوباش ،لباس وخراش اور حقیقی ایمانی واسلامی زندگی ،روئے زمین پر اس کے نفوذواثرات اور غلبہ واقتدار سے اس قدر خائف ہیں کہ مسلمانوں میں عیسائیت کی تبلیغ، اس کی تحریف شدہ ،اصل شکل وصورت سے بگڑی ہوئی ،خود ساختہ، نفسانیت وحیوانیت ،عریانیت وفحاشیت کی طرف دعوت دینے والی تعلیمات کو عام کرنے اور ساری دنیا کو اس کے نتائجِ بد اور بھیانک انجام سے دو چار کرنے کے لیے اپنی تنخواہ کا معمولی فیصد مختص کرتے ہیں؛ بلکہ ہر گورنمنٹ ملازم کی تنخواہ سے قانونی اور دستوری طور پر اس معینہ رقم کی کٹوتی ہوتی ہے، اگر چہ یہ رقم انفرادی طور پر بالکل حقیر ہو تی ہے؛ لیکن اس رقم کی مجموعی مقدار اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ اس کے بل بوتے عیسائیت کے پرچار اور اپنے مذہب کے دائرہ کو وسیع اور کشادہ کرنے کا کام بہ آسانی انجام دے سکتے ہیں، مُخربِ اخلاق، عریاں تصاویر، برہنہ فوٹوزپر مشتمل اخبارات ومیگزین کی اشاعت اور اس کے ذریعے لوگوں کی ذہنیت کو مغربی تہذیب وثقافت کے رنگ میں رنگ دینا، اس کی کشش وجاذبیت اورس کی سحرانگیزی کا انھیں خوگر اور عادی بناکر، وقتی لذت میں انھیں مبتلا کر کے ، انجام کار سے بے خبر، حیوانیت ونفسانیت کے ہا تھوں مجبور ہو کران کا اسے گلے لگا لینا، یہ تمام امور بھی ان کی اس تبلیغی مہم کا حصہ ہو تے ہیں۔

اس وقت بعض جگہ بعضدیہاتوں کی یہ صورتِ حال ہے کہ آبادی کی آبادی، بستی کی بستی، کفار کے دامِ مکرمیں آکر ایمان واسلام سے ہاتھ دھورہی ہے۔پر مختلف پُر کشش اسکیموں سے استفادہ اور زندگی کی اہم ضروریات، جن میں مکان ودکان، کاروبار و طبی امداد کی فراہمی اور ان جیسے دیگر جاذبِ نظر،بیش قیمت اورپُرتحیّر وعدوں کو دیکھ کر لوگ دھوکا کہا رہے ہیں۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے پاس پڑوس کے ماحول پر نگاہ ڈالیے، ساری جدوجہد، دن رات کی تگ و دو اور زندگی کی محنت کا خلاصہ یہ ہو گیا ہے کہ ایک بالشت پیٹ اور اس کی خواہشات کی تکمیل ہو جائے، خواہ اس کے لیے اسلامی اور انسانی حدود کو کیوں نہ پھلانگنا پڑے، اوامرخداوندی اور ارشاداتِ ربانی کی خلاف ورزی کیوں نہ ہو، خدا کی ناراضگی اور خفگی کو دعوت کیوں نہ دی جائے،اس کے لیے خواہ نماز، روزہ اور زکوٰة جیسے اہم اوربنیادی شرعی امور کیوں نہ چھوٹ جائیں؛ لیکن مادہ اور معدہ کی پرستش ضرور ہو، کسی خواہش کا گلا نہ گھٹے۔

ان بھیانک اور پر خطراحوال میں علماء اور عوام کے درمیان ربط وتعلق کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے؛ چوں کہ علماء انبیاء کے وارث اور امین ہوتے ہیں، نبی کے بعد نبوت کے کازاور امت کی اصلاح کی ذمہ داری ان پر آن پڑتی ہے، اس لیے بے دینی اور لامذہبی کے اس دور میں عوام سے گھل مل کر ان میں ایمان واعمال کی اہمیت اور قدر کا احسا س دلانا، احکامِ خداوندی سے اِعراض اورروگردانی والی زندگی کے نتائجِ بد سے آگا ہ کرنا، اس زندگی کی حقارت اور آخرت کی ا بدُالآباد اور لامتناہی زندگی اور وہاں کے حقیقی آرام وراحت کو بتلاکر انھیں اسلامی وایمانی زندگی کا خوگر اور عادی بنانا،یہ علماء کی ذمہ داری ہے،اگر اس راہ میں کچھ سننا پڑے تو اس پر صبر وتحمل سے کام لینا اوراس پر ثواب کا امید وار ہونا، اگر اس دوران لوگوں سے خوشامدی، منت وسماجت اور ان کے سامنے عاجزی کے اظہار کے مراحل سے گزر نا پڑے تواس سے گریز نہ کرنا یہ تمام چیزیں منصبِ نبوت میں شامل ہیں۔

منصبِ نبوی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ عوام کی بے راہ روی، بد چلنی اور گم راہی علماء کو بے چین اور بے کل کردے اور وہ اس وقت تک چین وسکون کی سانس نہ لیں؛ جب تک کہ امت کے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر نہ اختیار کریں، علماء اور عوام کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے نبی اور امت کی مثال ہو تی ہے؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے لوگوں کی گم راہی اور غلط روی پر اصرار اور ان کو غلط راہ سے بچانے اور بھیانک انجام سے نجات دلانے میں اپنی انتھک کوشش اورجدوجہد کی مثال یوں بیان فرمائی ہے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ انے ارشاد فرمایا:میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی تو پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور وہ ان کو آگ سے ہٹانے لگا، میں بھی تمہاری کمروں کو پکڑکر تمہیں جہنم کی آگ سے بچارہاہوں؛ لیکن تم لوگ میرے ہاتھوں سے نکلے جارہے ہو، یعنی جہنم کی آگ میں گرتے جارہے ہو۔(مسلم شریف، باب شفقة النبی صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:2285) علماء جو کہ منصبِ نبوت کے حامل ہیں، وہ بھی عوام کی گم راہی،دین سے دوری، اسلامی تعلیمات سے بیزاری پر ایسے ہی فکر مند ہوں اور ان کو تباہی وبربادی کی راہ سے بچانے کی ایسی ہی دھن سوار ہو جیسے کوئی اند ھا شخص ہماری نگا ہوں کے سامنے گڑھے میں گررہا ہو تو ہر شخص جس میں انسانیت کا کچھ بھی مادہ ہے وہ دوڑکر اسے بچانے اور ہلاکت سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہوتاہے۔

موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ علماء اور عوام کے درمیان بے گانگی، ایک دوسرے سے دوری اور وحشت وتنفر پیدا ہوگیا ہے، موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عوام اور علماء کے طبقے کے درمیان غلط فہمی کی بنیاد پرجوبُعد اور بے گانگی ، ایک دوسرے سے وحشت وتنفر پیدا ہوگیا ہے، وہ دور ہو ، پھر ان میں دوبارہ ربط وتعلق پیدا ہو اور وہ اسلام کے لیے تعاون واشتراکِ عمل سے کام کریں ، ایک دوسرے کی تعظیم اور قدر کو جانیں اور ایک دوسرے کے محاسن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ، ایک اللہ والے نے علماء اور عوام کے درمیان ربط وتعلق کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرتے ہوئے یوں فرمایا : علماء کا عوام کے ساتھ ربط قائم رہا تو یہ امت چلنے والی ہوگی اور علماء اس کو چلانے والے ہوں گے اوراگر چلنے والے نہ ہوں تو علم کا یہ چراغ ختم ہوجائے اور اس کی روشنی سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا ۔

حضرت مولانا ابو الحسن ندوی بے دینی ، جہالت ، مذہب بیزاری، آخرت فراموشی کی اس عمومی فضا، علماء اور دُعاة کی ذمہ داریوں اوران کے لیے طریقہٴ کار اور میدانِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اہل ِنظر جانتے ہیں کہ اس وقت لا دینی تحریکات کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ وہ عوام سے براہِ راست ربط پیداکرتی ہیں ، عوام کی اپنے اصول پر تربیت کرتی ہیں ، ان کے داعی عملی لوگ ہیں، سرگرم ومتحرک ہیں،ایثار وقربانی کی روح رکھتے ہیں، اپنے مقاصد کی خاطر ہر قسم کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں ، ان کے پاس عوام کو مشغول رکھنے کے لیے کام ہے ، یہ تمام پہلو اس وقت کی مضطرب وبے چین طبیعتوں کے لیے مقناطیس کی سی کشش رکھتے ہیں ، ان لادینی تحریکات کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ محض نظری فلسفے موزوں ہیں ، نہ کاغذی خاکے ، نہ محض دلائل وبراہین اور نہ محض دعوتیں، جو خواص کے دائرہ میں محدود ہیں اور عوام کو خطاب کر کے اور ان کو کام پر لگانے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، یہ لادینی (یاکم سے کم مادی) تحریکیں تمام دنیا میں آگ کی طرح پھیل رہی ہیں اور ان کی سرنگیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، ان تحریکات کا مقابلہ صرف وہ دینی تحریک کر سکتی ہے جو عوام سے ربط وتعلق پیدا کرنا ضروری سمجھتی ہو ، اس کے کارکن کسی طبقہ کو نظر انداز نہ کریں ، وہ غریب کاکوئی چھونپڑا ، کسان کا کوئی کھلیان نہ چھوڑیں ، کارگاہوں میں جائیں، بیٹھکوں اور چوپایوں میں بھی اپنا خطاب کریں ، ان میں سرگرمی ، جفاکشی اورسخت جانی، محنت کشی، لا دینی دعوت وتحریک کے پُرجوش کارکنوں سے کم نہ ہو اور خیر خواہی ودل جوئی اور سوزی ودردمندی ان میں ان سے کہیں زائد ہو ؛ اس لیے کہ وہ صرف ان کی معاشی حالت بلند کرنا چاہتے ہیں اوران کوصرف ان کی ظاہری پست حالی کا درد ہے ؛ لیکن اس دینی دعوت کے کارکنوں کا کام اس سے کہیں زیادہ بلند ہے ، ان کی خدافراموشی ، بہیمانہ زندگی کا درد ہے، جس میں اللہ کی یہ مخلوق پڑی ہوئی ہے اور یہ ان کی دینی، اخلاقی ، روحانی اور ذہنی سطح بلند کرنا چاہتے ہیں ، مقاصد کے اسی فرق وتفاوت کے ساتھ جدوجہد ، دل سوزی ، سرگرمی میں زیادتی درکار ہے“۔ (دینی دعوت،ص:326-325)

حضرت مولانا کی اس چشم کُشا تحریر کی روشنی میں علماء اور عوام کے درمیان ربط وتعلق کی اہمیت، اس بے دینی کے ماحول میں تغیر وتبدیلی لانے اور اسے اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ فضا میں بدلنے ، غیرمذہبی تحریکات کے مقابلے میں ہماری کوشش اور مساعی کے بالکل حقیر ، معمولی اور ناتمام ہونے کا احساس اپنی محنت ، جدوجہد ، دعوت واصلاح کی راہ میں اپنی قربانی کی مقدار کو بڑھانے کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔

اس وقت لا دینی تحریکات جس سُرعت وقوت کے ساتھ اُفقِ عالم پر پھیل رہی ہیں اور جو وسعت اختیار کر رہی ہیں ، اس بے دینی کے سیلابِ بلا خیز پر اگر کوئی بند لگاسکتے ہیں اور اس کے خطرناک اور بھیانک اثرات کو روک سکتے ہیں تو وہ علماء ِ دین ہیں؛ لیکن اس کے لیے انھیں عمومی دعوت ، عمومی تعلیم وتربیت اور عمومی نقل وحرکت اور جدوجہد کی راہ اپنانی ہوگی اور عوام سے گھل مل کر حتی الامکان ان کے مسائل سے واقفیت اور ان کے حل کی حتی المقدور کوشش اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے امکانات پیدا کرنا ، ان کے درمیان رہ کر ان سے براہِ راست ربط وتعلق قائم کر کے ان کو بیرونی خطرات سے محفوظ کرنا ہوگا ، اللہ عزوجل توفیقِ ارزانی عطا کرے ۔
        وقتِ فرصت کہاں، کام ابھی باقی ہے
        نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے