عادات ورسومات اوران کی اصلاح

عادات ورسومات اوران کی اصلاح

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ

موجودہ دور میں شادی کوبڑی پیچیدہ اور پریشان کن رسم بنالیا گیا
اس وقت دنیائے اسلام میں عام طور پر اور ہندوستان، پاکستان میں خاص طور پر شادی ایک بڑی پیچیدہ اور طویل رسم،نہایت پرُ مصارف کام اور شان وشوکت اور خاندان کی مالی وشہری حیثیت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی ہے، اس کی سادگی اور سہولت تقریباً رخصت ہو گئی ہے اور بعض حالات میں تو وہ ایک سخت مصیبت، پریشانی اور زیر باری کا ذریعہ اور درد سر بن کر رہ گئی ہے، جہاں تک ہمارا مطالعہ او رتجربہ ہے، جدید تعلیم اور اقتصادی انقلاب اس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوا ہے، اس کی ادائیگی میں اس نے کوئی بڑی اصلاحی خدمت انجام نہیں دی، اچھے اچھے دین دار اور تعلیم یافتہ خاندانوں میں اب بھی شادیاں بڑی دھوم دھام اور تزک واحتشام کے ساتھ کی جاتی ہیں، باراتیں بڑی دھوم کے ساتھ جاتی ہیں، محفل نکاح میں بڑی شان وشوکت کا اظہار اور بڑی زینت وآراستگی کی جاتی ہے، اس سلسلہ میں شان وشوکت او راپنے تعلقات کی وسعت کے اظہار کے لیے بہت سے ایسے نئے طریقے متعارف ہوئے ہیں، جو پہلے مروج نہیں تھے، ولیمہ بھی بڑے پیمانہ پر کیا جاتا ہے، اس میں حسب حیثیت دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے اور بہت جگہ مصارف ہزاروں کی تعداد سے لاکھوں کی رقموں تک پہنچ گئے ہیں، جن لوگوں کے پاس نقد نہیں ہوتا وہ اس کے لیے قرض اور بعض اوقات سودی قرض لیتے ہیں،نام ونمود، فخر وتعلیّ اورمقابلہ اور مسابقت کے جذبات بھی اس میں خوب کام کرتے ہیں، اس میں ہندوستان وپاکستان کے مسلمانوں کا قدم دنیا کے مسلمانوں سے آگے ہے۔

رقص وسرود اور راگ راگنی کا رواج، جو اسلام کے سراسر خلاف ہے
ان گھرانوں کو چھوڑئیے جو سختی سے پابند شریعت ہیں، یا جو اصلاحی تحریکوں سے متاثر ہوچکے ہیں، لیکن ان کے علاوہ بہت سے خاندان اورگھرانے ایسے بھی ہیں جن کے یہاں محفل سرود اورراگ راگنی، شادی کی تقریبات کا ایک لازمہ اور خوشی کے اظہار کی ایک علامت ہے، یہی نہیں، بلکہ بہت سے خاندانوں میں تو شادی سے کئی روز پہلے ہی راگ اور گیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس کے لیے نائنیں، ڈومنیاں کئی روز پہلے سے آکر مقیم ہو جاتی ہیں اور خاندان کی لڑکیاں بھی اس میں حصہ لیتی ہیں ، کئی روز پہلے سے لڑکی مایوں (مانجھے) بٹھائی جاتی ہے اور اس کا پردہ کرا دیا جاتا ہے، اب بہت جگہ گانے اور راگوں کی جگہ ریکارڈنگ نے لے لی ہے، قدیم زمانہ میں خاص طور پر رؤسا اور زمین داروں کے یہاں محفل رقص کا بھی انتظام ہوتا تھا اور اس کے لیے پیشہ ور رقاصاؤں اور گانے والوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، اب کچھ اصلاحی کوششوں اور تعلیم کے اثر سے اور کچھ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے اس میں بہت کمی آگئی ہے۔

مسلمانوں کی شادیوں کے کچھ مقامی اجزا اور طور وطریق
مسلمانوں کی شادیوں میں کچھ اجزا مقامی ہیں، جو یہیں کے مسلمانوں کی خصوصیت بن گئے ہیں اور دوسرے ملکوں کے مسلمان اس سے آشنا نہیں، مثلاً بعض صوبوں میں لڑکے کی طرف سے کچھ فرمائشیں اور مطالبات ہوتے ہیں، جن کا پورا کرنا بیٹی والے کے لیے ضروری ہوتا ہے او رجن کو بعض مقامات میں ”تلک“ کی رسم سے یاد کرتے ہیں، خود ہندوستان میں ہرجگہ اس کا رواج نہیں، عرب یا ترکی کے مسلمانوں کو اس کا سمجھنا مشکل ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کا کوئی اخلاقی جواز ہو سکتا ہے ؟ یہاں اس بحث کا موقع نہیں کہ اس سے اب لڑکیوں کو مناسب جوڑا ملنے اور ان کے والدین کے لیے ان کے فرض سے سبک دوش ہونے میں کیسی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں او رانہوں نے زندگی کو کتنا تلخ اور شادی کو کیسا عذاب بنا دیا ہے۔ اسی طرح بیٹی والوں کی طرف سے دعوت کا رواج جو ایک اچھا خاصا ولیمہ معلوم ہوتا ہے، دوسرے ملکوں میں نہیں، بیٹی کی طرف سے دیے ہوئے جہیز کی نمائش او ربارات کے شہر میں گشت کرنے کا ( جو بہت سی برادریوں کا معمول ہے) بھی دوسرے ملکوں میں پتہ نہیں ، اس کے علاوہ شادیوں میں رونمائی، سلام کرائی، نیوتا، بہنوئی سالہ کا نازک رشتہ اور آپس کا ہنسی مذاق، چوتھی وغیرہ اور بیسوں رسمیں ہیں، جو بہت سے ہندوستانی خاندانوں میں ابھی تک مروج ہیں اور جو ہندوستان کے ساتھ مخصوص ہیں او رغالباً اس عقیدے پر مبنی ہیں کہ شادی ایک جشن مسرت اور ایک عام تفریح، خوش باشی اور زندہ دلی کا موقعہ ہے، جس میں افراد خاندان اور عزیز مہمان زندگی کے لگے بندھے نظام اور یکساں چکر سے تھوڑی دیر کے لیے رہائی پاکر اور کسی حد تک اخلاقی ضابطوں او رپابندیوں کو بالائے طا ق رکھ کر زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں، یہ تخیل ہندوستان کے مزاج سے خاص مناسبت رکھتا ہے، جو ہمیشہ سے رنگ وآہنگ کا دلدادہ او رتنوع وجدت، میل ملاپ اور لطف وانبساط کا شائق رہا ہے اور جس کا اظہار یہاں کے میلوں تہواروں اور رسموں میں کیا گیا ہے۔

نکاح خوانی کی رسم اور اس کا طریقہ
محفل نکاح کی کارروائی عام طور پر اس طرح عمل میں لائی جاتی ہے کہ نوشہ نیا جوڑا پہن کر ( جو عام طور پر بیٹی والوں کے یہاں سے آتا ہے ) محفل میں نمایاں جگہ بیٹھتا ہے، ہندوستان میں بہت جگہ سہرے اور کنگنے کی بھی رسم ہے، جس کو پابند شریعت مسلمان پسند نہیں کرتے، نکاح خوانی کی رسم کوئی بھی عالم یا پڑھا لکھا مسلمان ادا کرسکتا ہے، اس کے لیے قاضی کی شرط نہیں، جن کا مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں پورے ملک میں نظام تھا او رجن کا ایک ضروری اور خوش گوار منصبی فریضہ نکاح پڑھانا بھی تھا، زیادہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ لڑکی کا باپ یا کوئی دوسرا ولی نکاح پڑھائے، اس لیے کہ حضرت فاطمہ  کا نکاح خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی  سے پڑھایا، اس وقت دو گواہ اور ایک وکیل لڑکی کے پاس جا کر اس کو اطلاع دیتے ہیں کہ اس کا نکاح فلاں مرد سے اتنے مہر پر کیا جارہا ہے، ہندوستان میں اس کا جواب عام طور پر خاموشی سے دیا جاتا ہے اور اس کو رضا مندی کی دلیل اور منظوری کا مرادف سمجھا جاتا ہے، یہ گواہ اور وکیل عام طور پر افراد خاندان اور لڑکی کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، نکاح خواں اس کے بعد بلند آواز سے قرآن شریف کی کچھ آیات، چند احادیث اور دعائیہ کلمات عربی میں کہتا ہے، جس کو خطبہ ٴ نکاح کہتے ہیں، اس کے بعد ایجاب وقبول کراتا ہے، جس کے عام الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ ”میں نے فلاں صاحب کی لڑکی، جس کا نام یہ ہے، کو ان کی طرف سے اتنے مہر پر تمہارے نکاح میں دیا، تم نے قبول کیا؟“اس پر نوشہ اتنی آواز میں، جو قریب میں سن لی جائے، کہتا ہے کہ ”میں نے قبول کیا“ پھر نکاح خواں اور شرکائے محفل دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ زوجین میں محبت والفت ہو اور ان کی ازدواجی زندگی کام یاب اور پرمسرت گزرے، یہ خطبہ عام طور پر عربی میں پڑھاجاتا ہے۔

ایک جاہلی رسم کی اصلاح
احمد خاں کا کانے سید احمد شہید سے عرض کیا کہ ہمارے اس ملک میں یہ رسم ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق لڑکے والوں سے زر نقد لیے بغیر کوئی اپنی بیٹی کا نکاح کسی کے بیٹے کے ساتھ نہیں کرتا، کوئی لڑکے والے سو روپیے، کوئی چار پانچ سو، کوئی ہزار لیتا ہے، لڑکے والے غریب روپیے کی تلاش میں حیران وسرگرداں رہتے ہیں، ان کی بیٹیاں بیچاری بیٹھی رہتی ہیں او رنکاح نہیں ہوتا، اس بستی کی عورتیں آپ سے داد خواہ او رانصاف طلب ہیں، وہ کہتی ہیں کہ سید بادشاہ کو ا لله تعالیٰ نے ہمارا امام بنایا ہے وہ خدا کے لیے ہماری بیٹیوں کا انتظام کریں اور ہم کو عذاب سے نجات دیں۔

یہ سن کر سید صاحب بڑی دیر تک عالم سکوت میں رہے، اس کے بعد فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا، جو ہم سے کہا، ان شاء الله تعالیٰ ضرور اس کا تدارک کریں گے، تم خاطر جمع رکھو اور یہ بہت ہی بری رسم تمہارے ملک میں ہے، الله تعالیٰ تم لوگوں سے اس کو چھڑادے او رتم سب لوگوں کو پورا پورا مسلمان اور متبع سنت بنا دے!

سید صاحب  نے اسی دن او راس کے اگلے دن بستی کے سب لوگوں کو بلوایا اور نرمی کے ساتھ وعظ ونصیحت فرمائی اور نکاح کی ضرورت وفضیلت اور اس رسم کی قباحت بیان کی اور فرمایا کہ تم سب صاحبوں نے میرے ہاتھ پر بیعت ہدایت اور بیعت امامت کی ہے اور شریعت کے تمام احکام قبول کیے ہیں اور ہر ایک گناہ او ربرے کام سے توبہ کی ہے، تو خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کا حکم مان کر اس گناہ سے بھی توبہ کر واور دستور شریعت کے موافق برضا رغبت اپنی بیٹیوں کا اپنی برادری میں نکاح کر دو اور یہ خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے خلاف روپیہ لینے کا دستور ترک کرو، اگر تم نہ مانوگے تو اپنے حق میں بہت برا کروگے۔

آپ کی یہ تقریر سن کر سب نے جاہلیت کی اس رسم سے طوعاً وکرہاً توبہ کی او راپنی بیٹیوں کے نکاح کر دینے کا اقرار کیا۔

لڑکیوں کی رخصتی
جن لڑکیوں کا نکاح ہو جایا کرتا تھا، وہ بھی اس انتظار میں کہ پٹھانوں کی رسوم کے مطابق رخصتی کا سامان ہو، برسوں بیٹھی رہتی تھیں، یہاں تک کہ بعض سن رسیدہ ہو جاتیں اور اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتیں۔ منظورہ میں ہے کہ اس زمانے میں تاکید ہوئی کہ جن لوگوں نے اپنی لڑکیوں کا نکاح کر دیا ہے اور وہ سن بلوغ کو پہنچ چکی ہیں، ان کو ان کے شوہروں کے گھر رخصت کیا جائے، حکم جاری ہوا کہ جن بالغ لڑکیوں کو نکاح کے باوجود ان کے شوہروں کے گھر رخصت نہیں کیا جاتا، ان کی اطلاع کی جائے، ان کے لیے کارندے مقرر ہوئے کہ جو والدین یا سرپرست ان جوان لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے، ان سے بزور حکومت رخصتی کرائی جائے او ران کے شوہروں کے حوالے کیا جائے، حافظ عبداللطیف صاحب اور خضر خاں کابلی اپنی جماعت کے ساتھ اس خدمت پر مامور ہوئے، دیہاتوں میں شوہروں کے اظہار وبیان کے مطابق ان لڑکیوں کو رخصت کرایا گیا، اس کی عملی صورت یہ تھی کہ جب شوہر حاکم (شرعی) کے یہاں نالش کرتا کہ فلاں دیہات یا موضع میں میری منکوحہ بالغ ہے اور اس کو رخصت نہیں کیا جاتا تو لڑکی کے باپ کو دوسرے اولیاء (شرعی) کے ساتھ طلب کیا جاتا اور اس کو فہمائش بلیغ کی جاتی کہ اپنی لڑکی کو رخصت کرے، اگر وہ قبول کر لیتا تو ایک دن ان کے لیے معین کر لیتا، ورنہ حاکم کی طرف سے ایک دن اس کے لیے معین ہو جاتا اور اس روز اس کا شوہر حافظ عبداللطیف یا خضرخاں کو اپنے ساتھ لے جاکر اپنی بیوی کو رخصت کرالاتا۔

بیوہ کا عقد ثانی او رہندوستانی مسلمانوں کا امتیازی معاملہ
بیوہ کا عقد ثانی شرعی نقطہٴ نظر سے اور مسلمانوں کے عرف اور رواج میں کبھی معیوب اور قابل اعتراض فعل نہیں سمجھا جاتا تھا، یہ ان کے نبی کی سنت تھی اور ہر دور میں جلیل القدر علماء، خدا رسیدہ بزرگ اور مشائخ اور باعظمت سلاطین بلا تامل بیوہ عورتوں سے خودشادی کرتے تھے اور اپنی بیوہ بہنوں اور بیٹیوں کا عقد ثانی کیا اور تاریخ میں ان کے نام عزت واحترام کے ساتھ لیے گئے ہیں، جہاں تک ہم کو علم ہے۔

محمد شاہی (1747-1719) جیسا کہ خوانی خاں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے شرفا اور اونچے خاندانوں میں اس کو قبیح اورمعیوب فعل اور عورت کی وفاداری اور عزت کے منافی سمجھا جانے لگا، یہاں تک کہ جو شخص اس کی جرأت کرتا تھا، اس کا خاندانی مقاطعہ کیا جاتا تھا اور اس کو سخت ذلت کینگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

بعض اوقات میاں بیوی دونوں کو ترک وطن ہونا پڑا ہے، تیرہویں صدی ہجری کی پہلی چوتھائی اور انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے مشہور مصلح اور دینی پیشوا حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی نے اس خلاف ِ اسلام ذہنیت کے خلاف اصلاحی مہم چلائی اور خود اس رسم کو توڑ کر اور ان کے دوسرے رفقاء ومعتقدین نے عملی اقدام کرکے اس مردہ سنت کو زندہ اور اس خیال کی عمل تردید کی کہ یہ فعل معیار شرافت او رجذبہٴ عزت کے خلاف ہے، اس وقت سے مسلمان خاندانوں میں یہ عمل اتنا قبیح اور نامانوس نہیں رہا جتنا ایک دو صدی پہلے تھا، اب بھی اگرچہ بہت سی مسلمان بیوائیں اپنی مرضی یا کسی مجبوری سے عقد ثانی کے بغیر رہتی ہیں، لیکن عقد ثانی کا اچھا خاصا رواج پایا جاتا ہے۔