صلہ رحمی

صلہ رحمی

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی

ہمارے آقا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
∗…صلہ رحمی سے محبت بڑھتی ہے۔∗… مال بڑھتا ہے۔ ∗… عمر بڑھتی ہے۔∗… رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔ ∗…آدمی بری موت نہیں مرتا۔ ∗… اس کی مصیبتیں اور آفتیں ٹلتی رہتی ہیں۔ ∗… ملک کی آبادی اور سرسبزی بڑھتی ہے۔ ∗… جنت میں جانے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ ∗… صلہ رحمی کرنے والے سے الله اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ ∗… جس قوم میں صلہ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں اس قوم پر الله کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے نسبوں کو سیکھو،تا کہ اپنے رشتہ داروں کو پہچان کر ان سے صلہ رحمی کر سکو، فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے سے محبت بڑھتی ہے، مال بڑھتا ہے او رموت کا وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (ترمذی)

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر بڑھ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔ (بخاری ومسلم)

جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر بڑھے اور اس کے رزق میں کشادگی ہواور وہ بری موت نہ مرے تو اس کو لازم ہے کہ وہ الله سے ڈرتا رہے اوراپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہے۔

جو شخص صدقہ دیتا رہتا ہے او راپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہتا ہے اس کی عمر کو الله دراز کرتاہے اور اس کو بری طرح مرنے سے بچاتا ہے اور اس کی مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرتا رہتا ہے۔

رحم، خدا کی رحمت کی ایک شاخ ہے، اس سے الله نے فرما دیا کہ جو تجھ سے رشتہ جوڑ لے گا اس سے میں بھی رشتہ ملاؤں گا اور جو تیرے رشتہ کو توڑ دے گا اس کے رشتہ کو میں بھی توڑدوں گا۔ (بخاری)

فرمایا کہ الله کی رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتے ناطوں کو توڑتا ہو۔ بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس کا مستوجب نہیں کہ اس کی سزا دنیا ہی میں فوراً دی جائے اور آخرت میں بھی اس پر عذاب ہو۔ (الترغیب والترہیب)

فرمایا کہ جنت میں وہ شخص گھسنے نہ پائے گا جو اپنے رشتے ناطوں کو توڑ تا ہو۔ (بخاری ومسلم)

الله کے رسول صلی ا لله علیہ وسلم کہیں تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک اعرابی نے آکر آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی او رکہا کہ یا رسول الله ! مجھ کو ایسی بات بتائیے جس سے جنت ملے اور دوزخ سے نجات ہو، آپ نے فرمایا کہ تو ایک الله کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کوشریک مت کر، نماز پڑھ، زکوٰة دے اور اپنے رشتے ناطے والوں سے اچھا سلوک کرتا رہ۔ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اگر میرے حکم کی تعمیل کرے گا تو اس کو جنت ملے گی ۔ (بخاری ومسلم)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ا لله تعالیٰ کسی ایک قوم سے ملک کو آباد فرماتا ہے اور اس کو دولت مند کرتا ہے او رکبھی دشمنی کی نظر سے ان کو نہیں دیکھتا، صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول الله! اس قوم پر اتنی مہربانی کیوں ہوتی ہے؟ فرمایا کہ رشتے ناطے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ان کو یہ مرتبہ ملتا ہے۔

فرمایا جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے اس کو دنیا وآخرت کی خوبیاں ملتی ہیں او راپنے رشتے ناطے والوں سے اچھا سلوک کرنے اور پڑوسیوں سے میل جول رکھنے اور عام طور پر لوگ سے خوش خلقی برتنے سے ملک سرسبز اور آباد ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی عمریں بڑھتی ہیں۔ (الترغیب والترہیب)

ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول الله ! مجھ سے ایک بڑا گناہ ہو گیا ہے میری توبہ کیوں کر قبول ہو سکتی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا کہ خالہ زندہ ہے، اس نے کہا جی ہاں ! فرمایا کہ تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔

ایک بار سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے مجمع میں یہ فرمایا کہ : جو شخص رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرتا ہو وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے، یہ سن کر ایک شخص اس مجمع سے اٹھا او راپنی خالہ کے گھر گیا، جس سے کچھ بگاڑ تھا، وہاں جاکر اس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور قصور معاف کرایا۔ پھر آکردربار نبوت میں شریک ہو گیا ۔ جب وہ واپس آگیا تو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قوم پر الله کی رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتہ داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔

فرمایا کہ ہر جمعہ کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل او رعبادتیں الله کے دربار میں پیش ہوتی ہیں، جو شخص اپنے رشتے داروں سے بد سلوکی کرتا ہے اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ (الترغیب والترہیب)