صلح اور اتحاد کے متعلق ہدایات اور سنتیں

صلح اور اتحاد کے متعلق ہدایات اور سنتیں

مولانا عبدالشکور قاسمی

حضرت ام کلثوم رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جناب ِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح وصفائی کراتا ہے، بھلائی کی بات کہتا ہے او ر(ایک دوسرے کی طرف سے ) اچھی باتیں پہنچاتا ہے ( اگرچہ وہ صلح صفائی کی نیت سے جھوٹ سے کام لے)۔

مسلمانوں کے مضبوط ومستحکم ہونے کے اسباب
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں، جس رنگ ونسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں او ران کی زبان ومعاشرت میں کتنا اختلاف ہی کیوں نہ ہو، لیکن انسان ومؤمن ہونے کی حیثیت سے وہ ایک ہیں او رایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی انسانی اونچ نیچ نہیں ہے۔ تمام انسان ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
تمام مسلمان ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں، اگر وہ کڑیاں الگ الگ ہو جائیں تو زنجیر ٹوٹ جائے گی۔ اسی طرح اگر مسلمان تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں اور رنگ ونسل، زبان وکلچر اور ذات پات کے دائروں میں سمٹ جائیں، تو ان کے ملی او راجتماعی مفاد کو انتشار واضمحلال کا گھن لگ جائے گا او رجب ان کی اجتماعی حیثیت مجروح ہو کر غیر مؤثر ہوگی تو ان کا شخصی و انفرادی وجود بھی بے معنی ہو جائے گا۔

بلکہ ہر شخص مختلف آفات او رمصائب کا شکار ہوگا۔ ہر مسلمان اپنے دوسر ے بھائی سے اس طرح روابط وتعلق رکھے، جس طرح دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں۔ آپس میں سلام کرتے ہیں، باہمی میل جول اور ملاقات کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں، باہمی معاملات وتعلقات کو محبت واخوت او راتفاق واتحاد کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔ ہدایا وتحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد واستعانت کرتے ہیں۔

اسی طرح ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان کے حالات کی رعایت او راس کے طور طریقوں کی پاس داری کرے او رجب بھی دو مسلمان بھائی آپ میں ٹکرا جائیں تو یوں ان کے حال پر نہ چھوڑے، بلکہ اصلاح کی پوری کوشش کرے اور ایسی کوشش کرتے وقت الله تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے صلح وصفائی کرائے۔ قرآنِ مجید میں ایک مقام پر ارشاد ِ بار ی تعالیٰ ہے : ”مسلمان سب ( دینی رشتے سے ایک دوسرے کے ) بھائی ہیں۔ اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرا دیا کرو ( تاکہ یہ اسلامی برادری قائم رہے ) اور (اصلاح کراتے وقت) الله سے ڈرتے رہا کرو(یعنی حدود ِ شرعیہ کی رعایت رکھا کرو ) تاکہ تم پر رحمت کی جائے“۔

فائدہ
اس آیت ِ کریمہ میں رب تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے اپنی رحمت کا اعلان فرمایا ہے، جو مسلمانوں میں جھگڑا یا ٹکراؤ ہونے کی صورت میں آپس میں اصلاح کرانے کی پوری کوشش کرتے ہیں او رعدل وانصاف سے کام لیتے ہیں۔ اور دوسرے مقام پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، فرمایا:” (وہ لوگ) لوگوں میں باہم اصلاح کر دینے کی ترغیب دیتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے واسطے، سو ہم اس کو عنقریب اجر ِ عظیم عطا فرمائیں گے۔“
تیسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور صلح خوب چیز ہے“۔

یہ جملہ ایسے عام عنوان سے بیان فرمایا جس میں میاں بیوی کے جھگڑے، ہر قسم کے گھریلو اختلافات، تمام دنیا کے معاملات او رمقدمات بھی شامل ہیں، کیوں کہ الفاظ ِ قرآن عام ہیں کہ صلح بہترہے۔ یعنی طرفین کے اپنے اپنے پورے مطالبہ پر اڑا رہنے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ اپنے کچھ مطالبات سے دست بردار ہو کر کسی درمیانی صورت پر رضا مندی کے ساتھ مصالحت کرلیں۔ اسی میں طرفین کے لیے بہتری بھی ہے او رحق تعالیٰ شانہ کی خو ش نودی کا ذریعہ بھی۔

صلح اور اتحاد سے متعلق ہدایات وسنتیں
∗… اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو ان کے درمیان اصلاح کرادو، پھر اگر اصلاح کی کوشش کے بعد بھی ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ الله تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ جائے۔ پھر اگر زیادتی کرنے والا لوٹ جائے( یعنی لڑائی بند کر دے) تو ان دونوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ صلح کردو اور انصاف کا خیال رکھو۔ بے شک الله تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

∗… اگر بغاوت کرنے والا فرقہ یا فرد، برادری یا قوم بغاوت یا لڑائی سے باز آجائے تو صرف جنگ (لڑائی وغیرہ) بند کر دینے پر اتفاق نہ کرو، بلکہ اسباب ِ جنگ او رباہمی شکایت کے ازالہ کی فکر کرو، تاکہ دلوں سے بغض وعداوت نکل جائے اور ہمیشہ کے لیے بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جائے۔

بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ او ر حضرت خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک گنوار آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا او رکہنے لگا: یا رسول الله ! الله تعالیٰ کی کتاب کے موافق ہمارا فیصلہ کر دیجیے۔

پھر اس کا دشمن (یعنی فریقِ ثانی) اٹھا او رکہنے لگا کہ سچ کہتا ہے، الله کی کتاب کے موافق ہمارا فیصلہ کر دیجیے۔ اب پہلے گنوارنے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا اس شخص کے پاس نوکر تھا، اس نے اس کی جورو سے زنا کیا۔ لوگ کہنے لگے تیرا بیٹا سنگسار ہونا چاہیے۔ میں نے سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کو دے کر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا۔ پھر میں نے علم والوں سے پوچھا توانہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے پر سو کوڑے پڑیں گے او رایک سال تک پردیس میں رہے گا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں کتاب الله کے موافق تمہارا فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے پڑیں گے او رایک سال تک پردیسی میں رہے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی حضرت اُنَیس رضی الله عنہ سے فرمایا: توایسا کر اس دوسرے شخص کی جورو کے پاس جاکر اس کو رجم کر۔ چناں چہ حضرت اُنَیس رضی الله تعالیٰ عنہ نے دوسرے دن وہاں جا کر اس کو رجم کیا۔

فائدہ… اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صلح خلافِ قواعد شرع ہو ، وہ لغو اور باطل ہے۔ دوسرا یہ کہ جب معاہدہ وصلح باطل ٹھہرا تو جو معاوضہ کسی فریق نے لیا وہ واجب الرد ہو گا، کیوں کہ ناجائز معاوضہ کے بدل جو چیز لی جائے اس کا پھیرنا واجب ہے اور لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا۔

∗… قرآنِ کریم میں ہے کہ اگر میاں بیوی میں کشا کشی کا اندیشہ ہو تو دونوں طرف سے برادری کے ثالث سے صلح کرائی جائے۔ سورة النساء آیت 35 کی تفسیر میں معارف القرآن میں لکھا ہے کہ : قرآن ِ کریم کی اس تعلیم سے لوگوں کے باہمی جھگڑوں او رمقدمات کا فیصلہ کرنے کے متعلق ایک نئے باب کا نہایت مفید اضافہ ہوا، جس کے ذریعہ عدالت وحکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مقدمات او رجھگڑوں کا فیصلہ برادریوں کی پنچایت میں ہو سکتا ہے۔

∗… حضراتِ فقہاءِ کرام رحمہم الله نے لکھا ہے کہ باہم صلح کرانے کے لیے دو ثالثوں کے بھیجنے کی یہ تجویز صرف میاں بیوی کے جھگڑوں میں محدود نہیں، بلکہ دوسرے نزاعات میں بھی اس سے کام لیا جاسکتا ہے اور لینا چاہیے۔

خصوصاً جب کہ جھگڑنے والے آپس میں عزیز ورشتہ دار ہوں، کیوں کہ عدالتی فیصلوں سے وقتی جھگڑا تو ختم ہو جاتا ہے، مگر وہ فیصلے دلوں میں کدورت وعداوت کے جراثیم چھوڑ جاتے ہیں، جو بعد میں نہایت ناگوار شکلوں میں ظاہرہوتے ہیں۔

∗… امیر المؤمنین خلیفہٴ ثانی حضرت عمرفاروق رضی الله عنہ نے اپنے قاضیوں کے لیے یہ فرمان جاری فرمایا تھا:
”رشتہ داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس کر دو تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں، کیوں کہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ وعداوت پیدا ہونے کا سبب ہوتا ہے“۔

∗… حضرات فقہاءِ کرام نے یہ بھی لکھا کہ اگرچہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے فرمان میں یہ حکم رشتہ داروں کے باہمی جھگڑوں سے متعلق ہے، مگر اس کی علت وحکمت اس فرمان میں مذکو رہے کہ عدالتی فیصلے دلوں میں کدورت پیدا کر دیا کرتے ہیں۔

یہ حکمت رشتہ داروں او رغیر رشتہ داروں میں عام ہے، کیوں کہ باہمی کدورت اور عداوت سے سب ہی مسلمانوں کو بچانا ہے۔ اس لیے حکام اور قضاة کے لیے مناسب یہ ہے کہ مقدمات کی سماعت سے پہلے اس کی کوشش کر لیا کریں کہ کسی صورت میں ان کی آپس میں رضا مندی ہو جائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے، آمین!