صفائی نصف ایمان اور قومی فریضہ

صفائی نصف ایمان اور قومی فریضہ

محترم عثمان یاسین

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانیت کی ہرپہلو سے مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو ذہن، روح او رجسم کی صفائی وپاکیزگی کو پسند کرتا ہے او راس کا درس بھی دیتا ہے۔ قرآن کی بہت سی آیات او رحضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے پاکیزگی اور صفائی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ پاکیزہ جسم اور روح نہ صرف دل کو خالص رکھتے ہیں بلکہ یہ ہماری صحت کے بھی ضامن ہیں۔ صفائی اورپاکیزگی کے بغیر ہماری کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی۔ صفائی درحقیقت الله تعالیٰ کی محبت اور خوش نودی حاصل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں صفائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف غسل اور وضو کا اہتمام کرتا ہے ،بلکہ اس جگہ کو بھی صاف رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس جگہ وہ نماز ادا کرتا ہے۔ بالوں کو کنگھی کرنا، بڑھتے ہوئے ناخن کاٹنا اور تیل لگانایہ سب صفائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا آقا علیہ الصلوٰة والسلام کی سنت ہے، جس پر عمل کرنے سے مسلمان ثواب حاصل کرنے کے ساتھ بہت سارے طبی فوائد سے مستفید اور کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

اسلام میں صفائی کے معاملے پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ طہارت کے نام پر فقہ اسلامی میں پورا ایک باب موجود ہے۔ انسان کی صحت اور تن درستی کے لیے صفائی کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ صفائی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ ہمیشہ صحت مندوتوانا رہتے ہیں۔ صاف ستھرا رہنے والے شخص کی عزت ووقار میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے او ربات چیت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ جو شخص پراگندہ ہو، منھ پھاڑ، سر جھاڑ ہو تو ایسے شخص سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح صفائی پسند انسان بہت ساری بیماریوں سے محفوظ ومامون رہتا ہے اور ہمیشہ چاق وچوبند نظر آتا ہے، سستی او رکاہلی اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتی ،اس لیے وہ اپنا ہر کام جوش وجذبہ اور لگن سے کرتا ہے۔ صفائی جہاں انسان کو صاف ستھرا رکھتی ہے وہیں برے خیالات اور وسوسوں سے نجات دلاتی ہے اورصفائی سے آدمی کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔

صفائی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ انسان کی صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اپنے گھر، محلے اور علاقے کو بھی صاف رکھیں، کیوں کہ افراد سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے، جب ہر آدمی اپنے گھر، محلے اور شہر کو صاف ستھر ا رکھنے کی کوشش کرے گا تو پورا ملک صاف ستھرا بن جائے گا اوریوں ایک صاف ستھرا ماحول تشکیل پائے گا۔ ایک ضروری امر یہبھی ہے کہ عوام میں صفائی ستھرائی کا شعور اُجاگر کیا جائے۔ اگر ہر فرد میں یہ شعور پیدا ہو جائے تو کافی حد تک صفائی کا نظام گلیوں اورمحلوں میں بہتر ہو جائے گا۔ آج چودہ سو سال بعد سائنسی تحقیق سے وہ باتیں ثابت ہو رہی ہیں کہ جس کو ہمارے پیارے نبی ختم الرسل صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب سائنس کا نام ونشان تک بھی نہ تھا۔

کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت ہے او رتحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہاتھ دھو کر کھانے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جہاں سنت کے عمل میں ثواب ہے وہیں بہت ساری حکمتیں بھی پوشیدہ ہیں۔ پانی کو دیکھ کر اور تین سانس میں پینا صفائی کا ایک عمل ہے اور ساتھ ساتھ سنت پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔اسی طرح نماز سے قبل وضو کرنا مسلمان کے لیے ایک صفائی کا فعل ہے، گرمیوں میں پانچ مرتبہ مسلمان جب وضو کے دوران ہاتھ منھ دھوتا ہے او رمسح کرتا ہے تو وہ باد ِ سموم کے اثرات اور پاگل پن سے محفوظ رہتا ہے۔ نیز طبی نقطہ ٴ نظر سے بھی صفائی اورستھرائی انسانی معاشرے میں بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ ایک خوش گوار اور صحت مند معاشرہ صحت مند افراد پر موقوف ہے، کیوں کہ انسانی جسم کو جراثیم سے پاک غذا اور ہوا(آکسیجن) مہیا ہو تو وہ ایک صحت مند فرد ہوتا ہے، لیکن اگر غذا یا ہوا صافستھری نہ ہو تو کبھی بھی صحت مند معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا، بلکہ صفائی نہ ہونے سے مختلف قسم کیجراثیم پیدا ہوتے ہیں، جن سے معاشرے میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جو بعض اوقات متعدی ہونے کی وجہ سے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ جب کہ اسلام ایسے معاشرے کو قطعا پسند نہیں کرتا جوصفائی نہ ہونے کے باعث بیماریوں میں گھر چکا ہو۔ اس لیے قرآن وحدیث میں طہارت اور نظافت دونوں کی بہت زیادہ تاکیداور ترغیب دی گئی ہے۔ جس طرح اسلام ایک ایک فرد کو پاکیزگی اور صفائی کی تعلیم دیتا ہے اسی طرح اسلام اپنے معاشرے کو بھی نہ صرف صاف ستھرا رکھنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اس کا حکم بھی دیتا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تین چیزوں میں خاص طور پر پاکیزگی اور صفائی کا خیال رکھے:

الف: سب سے پہلے انسان اپنی ذات او راپنے کپڑوں وغیرہ کو پاک صاف رکھے، جس میں درج ذیل چیزوں کا اہتمام کرے:
1.. وضو کرتے وقت مسواک اور اگر ہو سکے تو دن میں ایک آدھ بارٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کیا جائے، نیز روزانہ یا کم از کم دو تین دن بعد غسل کیا جائے۔

2.. ہر ہفتے یا کم از کم چالیس دن گزرنے سے پہلے پہلے جسم پر موجود زائد بالوں کی صفائی کی جائے، داڑھی اور سر کے بالوں کو بھی وقتاً فوقتاً درست رکھنے کا اہتمام کیا جائے اورتیل لگانے کی عادت ڈالی جائے۔

3.. سنت پر عمل کرتے ہوئے ہفتہ یا پندرہ دن بعد ناخن کاٹنے کا خاص اہتمام کیاجائے، کیوں کہ ناخن بڑھنے پر ان میں میل جم جاتی ہے، جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔

4.. صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں، خصوصاً جب کسی مجلس میں شرکت یا نماز کے لیے جانا ہو تو صاف دُھلے ہوئے کپڑے اور خوش بو کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے راحت محسوس کریں۔

ب: اپنے گھر اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے، اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے:

1.. گھر کی صفائی او رگھر کے سامنے کی روزانہ یا کم از کم ہر دوسرے دن اس کا اہتمام کیا جائے۔ جس کے لیے بہتر یہ ہے کہ خود یہ کام کیا جائے، خود نہ کرسکتے ہوں تو خاکروب سے اجرت پر یہ کام کروایا جائے۔

2.. سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو گھر کے سامنے نہ پھینکا جائے، بلکہ ڈسٹ بن میں ڈال کر کچرا کنڈی تک پہنچائے جائیں۔ اگر جانور، مثلاً مرغیاں اوربکریاں وغیرہ پالنی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ان کو سوسائٹی میں رکھنے کے بجائے آبادی سے باہر کسی جگہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے، کیوں کہ شہری علاقوں میں جانور کے گوبر اور پیشاب کی وجہ سے بدبو پھیلتی ہے، جس سے آبادی کا ماحول اور فضا خراب ہوتی ہے اور شہروں میں آبادی کی کثرت کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔

3.. اپنے شہر، وطن کے مجموعی ماحول اور معاشرے کوبھی صاف رکھنے کی کوشش کی جائے، خصوصاً سرکاری اور حکومتی جگہوں میں صفائی ستھرائی رکھنا از حد ضروری ہے، کیوں کہ یہ ہمارا وطن ہے، اس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا اور اس کو کوڑا کرکٹ سے بچانا ہر شخص کی ذمے داری ہے، لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے وطن کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرے اوراس سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھے:

1.. اپنے دفتر میں خاص طور پر صفائی کااہتمام رکھیں، ردی کاغذات ، پھلوں اور چھلکوں وغیرہ کو نیچے نہ پھینکیں، بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈسٹ بن رکھی جائے۔ایک میں ردی کاغذ اور دوسرے میں چھلکے ڈالے جائیں۔

2.. دفتر میں موجود کچن اور برتنوں کو روزانہ دھونے کا اہتمام کیا جائے۔اَن دُھلے برتنوں سے جراثیم اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

3.. واش روم کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔

4.. ایسی چیزیں جو استعمال کے قابل نہ ہوں ان کے بارے میں متعلقہ افسران کو مطلع کیا جائے، تاکہ ان کو بیچ کر اور چیزوں کا بندوبست کیا جاسکے۔

5.. سڑکوں ، پارکوں اور دیگر سیر وتفریح کی جگہ پر کچرا وغیرہ نہ پھینکا جائے، بلکہ انہیں قریب پڑے کوڑ ادان میں ڈالا جائے۔ بس آخر میں یہ کہنا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنے جسم اور روح کو پاک وصاف رکھنے کی سعی کریں، تاکہ الله کے بتائے ہوئے راستوں پر اپنا سفرحیات جاری رکھ سکیں۔