صحابہ مثل انجم ہیں بہ فرمان رسول حق !

صحابہ مثل انجم ہیں بہ فرمان رسول حق !

مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانی

حضراتِ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے ۔انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں جس جماعت کو اللہ رب العزت کے یہاں سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، وہ آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام  کی مقدس وبابرکت جماعت ہے ؛ جس جماعت کا ہر ہر فرد صلاح وتقویٰ، اخلاص وللہیت اور زہد واطاعت سے آراستہ و مزین ہے ، جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معاونت و نصرت اور دین کی دعوت واشاعت کے لیے منتخب فرمایا اور ان ہی کے طفیل دین اسلام بھرپور حفاظت و صیانت کے ساتھ، بلا تحریف وترمیم اگلی نسلوں تک پہنچا ۔ اگر مشیت ایزدی کے مطابق یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہو جاتی؛ اسی لیے نبی علیہ السلام نے ان سے محبت کو اپنی ذات اقدس سے محبت کامعیارقراردیا اور یوں فرمایا: خدارا!میرے صحابہ کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، ان کو میری وفات کے بعد ہرگز ہدف ِ تنقید مت بناوٴ !جو کوئی ان سے محبت کرے گا تو وہ مجھ سے محبت کی دلیل ہوگی او ر جو کوئی ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی بنیاد پر(ان سے بغض)رکھے گا ۔(ترمذی )اسی طرح حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ستارے آسمان کے لیے باعث ِامن ہیں ، جب وہ غائب ہو جائیں، تو آسمان پر وہ مصیبت آجائے گی، جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے اور میں میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے امن کا باعث ہوں ، جب میں چلا جاوٴں گا؛ تو ان کو وہ مصیبت پیش آئے گی، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لیے باعث امن ہیں ، جب وہ چلے جائیں؛ تو امت پر وہ مصائب پیش آئیں گے ، جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم)

ان سب فضیلتوں کے علی الرغم اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی صالحیت وراست گوئی ، دیانت و امانت داری کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے تو دراصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ و منابع کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتاہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ حضرت مصعب بن سعد نے سچ ہی فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں منقسم ہیں ، جن میں سے دو درجے تو گزر چکے، یعنی مہاجرین و انصار ، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا ، یعنی وہ جو صحابہ کرام سے محبت رکھے ، ان کی عظمت پہچانے ، اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہو جاؤ ۔

صحابہ معیار حق ہیں !
صحابہ کے مستند و معیار حق ہونے پر اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک نے انہیں دنیا ہی میں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمادیا اور جنت ومغفرت کی بشارت سنادی ،چند آیتوں کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں!

ارشاد ربانی ہے :بے شک الله مومنوں سے راضی ہو گیا، جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ، سو جو (جذبہٴ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا الله نے معلوم کر لیا تو الله نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ خیبر کا انعام عطا کیا۔(الفتح: 18)

ایک اور موقع پر فرمایا: لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لیے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں ،اللہ نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں، جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ،وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کام یابی ہے ۔(التوبہ:89-88)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے : جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے ۔(الانفال: 74)

نیزسورة النساء کی آیت 110 کا مطالعہ کیجیے !اللہ پاک فرماتے ہیں : اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ” المؤمنین“سے صحابہ کرام کی جماعت مراد ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں وہ لوگ اندازہ لگائیں جو صحابہ کرام کی عظمت، ان کے وقار، ان کی دین متین سے وابستگی اور تعلق کو کالعدم قرار دیتے ہیں، دین کے راستے میں ان کی کاوشوں او رمحنتوں کے منکر ہیں، ان کی زندگی میں انہیں مکمل معیار نظر نہیں آتا، ان کا اعتراف ان کے حلق سے نہیں اترتا،وہ خود اپنا انجام سوچ سکتے ہیں؛کیوں کہ صحابہ کرام کی عظمت و محبت ، ان کے طریقے سے اعراض وروگردانی ضلالت و گم راہی کا پیش خیمہ ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اگر وہ اپنے دل میں ان کی طرف سے کینہ رکھتا ہے تووہ دراصل شیطان کا پیرو ہے؛ کیوں کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور امت محمدیہ کے بہترین طبقہ کے خلاف اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے ۔ اگر وہ مرنے سے پہلے اپنی اس روش سے توبہ نہیں کرتا تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہیں ہے ؛کیوں کہ صحابہ کرام اسلام کی ایسی بیش قیمت اور زریں زنجیریں ہیں کہ اگر اس کے ایک حلقہ (کڑی)کو بھی جدا کردیا جائے تو ہمارا سارا دین غیر مستند قرار پائے گا، ہمارا علمی تفوق و بالادستی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا سارا ذخیرہ ملیا میٹ ہوکر رہ جائے گا۔اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا ایک چشم کشااقتباس ذکر کرنا مناسب ہے، جو بڑی اہمیت کا حامل ہے :

”صحابہ کرام ایمان کی کھیتی،نبوت کی فصل،دعوت اسلامی کا ثمر اور رسالت محمدیہ کا عظیم الشان کارنامہ ہیں، ان کی سیرت و اخلاق میں جو حسن نظر آتا ہے وہ نبوت محمدی کی جلوہ سامانیوں کا پرتو ہے ، ان سے زیادہ عظیم الشان اور تاب ناک تاریخ کسی دوسرے طبقہ کی ملنی مشکل ہے “۔

مشاجرات صحابہ اور اہل سنت والجماعت کا اجماعی موقف
مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسن ِظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف کو باغی سمجھتا تھا اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ اور طعن و تشنیع بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے تعلق سے بُرا بھلاکہنے سے منع کرتے ہوئے ارشادفرمایا:جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو خاموش رہو، جب بھی ستاروں سے متعلق بات ہورہی ہو تو خاموش رہو اور جب بھی تقدیر سے متعلق بات ہورہی ہو تو خاموش رہو!۔(المعجم الکبیرللطبرانی )

معروف تابعی حضرت حسن بصری(م110ھ) سے صحابہ کے درمیان ہونے مشاجرات کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:اس لڑائی میں صحابہ کرام موجود تھے اور ہم نہیں تھے، اُن کا جن باتوں میں اختلاف ہوا وہ اُن کا خوب علم رکھتے تھے ، جب کہ ہم ان باتوں سے جاہل ہیں، جن باتوں پر ان کا اتفاق ہوا ہم ان کی پیروی کرتے ہیں اور جن باتوں میں ان کا اختلاف ہوا ہم وہاں توقف کرتے ہیں“۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج 19، ص382 بحوالہ:مقام صحابہ)

امام احمد بن حنبل (م241ھ)سے سوال کیا گیا:اے ابو عبداللہ (امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) جو کچھ حضرت علی ومعاویہ کے درمیان ہوا آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میں اس بارے میں سوائے اچھی بات کے کچھ نہیں کہتا، اللہ کی ان سب پر رحمت ہو۔“(السنة لابی بکر الخلال، الجزء الثانی، ص460، روایت نمبر 713، طبع دار الرایة، الریاض)

امام ابو الحسن علی بن اسماعیل الاشعری (م 324ھ) اہل سنت کے عقائد کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان کے مابین جو اختلافات ہوئے ان (کے بیان کرنے) سے رُک جاتے ہیں (کفِ لسان کرتے ہیں)۔ (الابانة عن اصول الدیانة، ص 11، دار ابن زیدون، بیروت)

امام حافظ ابو القاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی (م535ھ) لکھتے ہیں:سنت (کا مقتضیٰ) یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مابین جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے فضائل بیان کیے جائیں اور ان کی اقتدا کی جائے۔ (الحجة فی بیان المحجة وشرح عقیدة اہل السنة، ج1/ص236) اسی کتاب میں دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:حضرت علی اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہما) کے مابین جو اختلافات ہوئے، اس سلسلے میں سلف کا موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا سنت (کا مقتضیٰ) ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ)اس حوالے سے قول فیصل نقل کرتے ہیں :اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر بھی طعن وتشنیع کرنے سے اجتناب واجب ہے، اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف حق تھا ؛کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بنا پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے ؛بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔ (فتح الباری ج13ص43 ،کتاب الفتن، باب اذا التقیٰ المسلمان)

خلاصہٴ کلام
آج ملت کا شیرازہ مختلف جماعتوں،فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر ملتِ واحدہ کی شناخت کھوچکا ہے ، ہر جماعت خود کو برحق، ہر فرقہ خود کو صحیح اور ہر گروہ خود کو جنتی باور کروارہا ہے، ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کسے جنتی قرار دیتے ہیں ؟اور کس کی پیروی پر جہنم سے نجات کاپروانہ عطا فرماتے ہیں ؟

چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے ، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔(ترمذی ) اس حدیث میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طریق صحابہ رضی اللہ عنہم بھی قیامت تک محفوظ رہے گا ؛کیوں کہ جو چیز محفوظ نہ ہو وہ قیامت تک نجات پانے والے گروہ کی نشانی کیسے بن سکتی ہے ؟ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کی پیروی کی تلقین فرمائی ہے ۔اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے ! اس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ؛کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابن ماجة) معلوم ہوا فتنوں کے ظہور کے وقت بچاؤ صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرنے میں ہے ۔

دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہرقسم کے انتشار سے بچاتے ہوئے اپنے راستے پرچلنے، رسول برحق صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین!