صبر وشکر کی اہمیت اور اس کا طریقہ

صبر وشکر کی اہمیت اور اس کا طریقہ

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: صبر نصف ایمان ہے۔ (فروع الایمان، بیہقی)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ گھری ہوئی ہے خواہشات (اور حرام کاموں) کے ساتھ او رجنت گھری ہوئی ہے ناگوار چیزوں کے ساتھ ۔ (مسلم)

فائدہ: جو عبادتیں نفس پر دشوار ہیں او رجن گناہوں سے بچنا دشوار ہے اس میں سب آگئے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو کوئی مصیبت یا کوئی مرض یا کوئی فکر یا کوئی رنج یا کوئی تکلیف یا کوئی غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کانٹا جو چبھ جائے، مگر الله تعالیٰ ان چیزوں سے اس کے گناہ معاف فرماتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: میرے مومن بندے کے لیے جب کہ میں دنیا میں رہنے والوں میں اس کے کسی پیارے کی جان لے لوں پھر وہ اس کو ثواب سمجھ کر اس پر صبر کرے تو ایسے شخص کے لیے میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ۔ (بخاری)

وہ پیارا خواہ اولاد ہو، یا بیوی یا شوہر ہو، یا کوئی رشتہ دار ہو، یا دوست ہو۔ انسان کو جو حالتیں پیش آتی ہیں وہ دو طرح کی ہوتی ہیں یا تو وہ طبیعت کے موافق ہوتی ہیں، ایسی حالت کو خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھنا او راس پر خوش ہونا او راپنی حیثیت سے اس کو زیادہ سمجھنا اور زبان سے خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا اوراس نعمت کا گناہوں میں استعمال نہ کرنا، یہ شکر ہے۔ اور یا انسان کے ایسے حالات ہوتے ہیں جو طبیعت کے موافق نہیں ہوتے ،بلکہ نفس کو ان سے گرانی او رناگواری ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں سمجھنا کہ الله تعالیٰ نے اس میں میری مصلحت رکھی ہے اور شکایت نہ کرنا او راگر کوئی شرعی حکم ہے تو اس پرمضبوطی سے قائم رہنا او راگر وہ مصیبت ہے تو اس کو برداشت کرنا اور پریشان نہ ہونا، یہ صبر ہے۔

مثال کے طور پر نفس دین کے کاموں سے گھبراتا ہے یا گناہ کے کاموں کا تقاضا کرتا ہے، خواہ نماز روزے سے جی چرائے یا حرام آمدنی کو چھوڑنے یا کسی کا حق دینے سے ہچکچاتا ہے۔ ایسے وقت میں ہمت کرکے دین کے کام کو بجالائے اورگناہ سے رکے، اگرچہ کسی قدر تکلیف ہو ،کیوں کہ بہت جلدی اس تکلیف سے زیادہ آرام او رمزہ دیکھے گا۔

اور مثلاً اس پر کوئی مصیبت پڑ گئی ،خواہ فقر وفاقہ کی (تنگ دستی کی) ،خواہ بیماری کی، خواہ کسی کے مرنے کی، خواہ کسی دشمن کے ستانے کی ( یا اپنے گھر والوں، مثلاً شوہر کے ظلم کرنے کی )، خواہ مال کے نقصان ہوجانے کی۔

پس ایسے وقت میں مصیبت کی مصلحتوں کو یاد کرے او رسب سے بڑی مصلحت ثواب ہے، جس کا مصیبت پر وعدہ کیا گیا ہے او راس مصیبت کا بلا ضرورت اظہار نہ کرے اور دل میں ہر وقت اس کی سوچ بچار نہ کرے، اس سے ایک خاص سکون پیدا ہوتا ہے۔ البتہ اس مصیبت کے دور کرنے کی کوئی تدبیر ہو، جیسے حلال مال کا حاصل کرنا یا بیماری کا علاج کرنا یا دعا کرنا تو اس کا کچھ مضائقہ نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کوئی وقت خالی نہیں کہ انسان پر کوئی نہ کوئی حالت نہ ہوتی ہو، خواہ طبیعت کے موافق، خواہ طبیعت کے مخالف۔ پہلی حالت میں شکر کا حکم ہے اور دوسری حالت میں صبر کا حکم ہے۔ تو صبر وشکر ہر وقت کرنے کے کام ہوئے۔ ماؤ بہنو! اس کو نہ بھولنا، پھر دیکھنا کیسی راحت میں رہوگی۔

ادنیٰ مصیبت اور رنج پر اجر وثواب کا وعدہ
حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی چیز جیب میں رکھ کر بھول جائے اور اِدھراُدھر اس کو تلاش کرنے میں اس کو جو پریشانی ہو گی خدا تعالیٰ اس پر بھی ثواب عطا فرمائیں گے او رگناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔ بالکل ایسی حالت ہے جیسے ہمارا چہیتا بچہ ہو کہ اس کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، حتی کہ گر پڑنے پر بھی ہم کو پیار آتا ہے۔

اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ہم کو ہر فعل پر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ جب تک کہ وہ فعل معصیت اور عناد نہ ہو۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت گھر میں چراغ گل ہو گیا توحضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”انالله وانا الیہ راجعون“ حضرت عائشہ رضی الله عنہ فرمانے لگیں کہ حضور ! یہ بھی کوئی مصیبت ہے ؟ یعنی حضرت عائشہ کو یہ معلوم تھا کہ انا الله الخ مصیبت کے وقت پڑھا جاتا ہے، لیکن ان کو اس واقعہ کے مصیبت ہونے میں تامل تھا، کیوں کہ ظاہر میں یہ ایک معمولی بات تھی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات مومن کو ناگوار ہو وہ مصیبت ہے او رچراغ گل ہو جانے سے ناگواری ہوتی ہے، لہٰذا یہ بھی مصیبت ہوئی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ الله نے اپنے بندوں کو ثواب دینے کے کیسے معمولی معمولی طریقے رکھے ہیں۔ ( الہدی۔ آداب انسانیت)

حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کے لیے دنیوی وسعت اور عیش وعشرت کی زندگی کو پسند نہیں فرمایا
ایک مرتبہ ازواج مطہرات نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے خرچ زیادہ مانگا تھا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حالاں کہ ظاہر میں ان کی درخواست کی وجہ معقول بھی تھی، کیوں کہ اس وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کو فتوحات بہت ہونے لگی تھیں اور سب مسلمان فتوحات کی وجہ سے مال دار ہونے لگے تھے، مگر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس پر بھی اپنی خاص ذات او راپنے گھر والوں کے لیے دنیوی وسعت کو گوارہ نہ کیا تو ازواج مطہرات نے اس موقع پر زیادہ خرچ کی درخواست کی۔ تنگی کے وقت انہوں نے ایسی درخواست کبھی نہ کی تھی، حتی کہ تنگی کے زمانے میں بعض وقت پانی بھی گھر میں نہیں ہوا تو حضور صلی الله علیہ وسلم سے کچھ شکایت نہیں کی۔ ہاں! جب فتوحات سے سب مسلمان مال دار ہونے لگے او رتنگی رفع ہوگئی ،اس وقت انہوں نے اپنے لیے وسعت چاہی، مگر یہ بات حضور صلی الله علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھی۔ آپ اپنی بیویوں کے لیے وسعت کیا پسند کرتے، اپنی بیٹی تک کے لیے بھی اس کو گوارہ نہیں کیا۔

چناں چہ ایک مرتبہ کسی جہاد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بہت سی باندیاں او رغلام قید ہو کر آئے اور آپ مسلمانوں میں ان کو تقسیم فرمانے لگے تو حضرت علی رضی الله عنہ نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا کہ تم چکی پیسنے او رپانی بھرنے میں بہت تکلیف اٹھاتی ہو اور اس وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس باندی وغلام بہت سے آئے ہیں، جن کو آپ لوگوں میں تقسیم فرمارہے ہیں، اگر تم بھی حضور سے ایک باندی یا غلام مانگ لو تو اس محنت سے تم کو راحت ہو جائے گی۔ چناں چہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے گئیں۔

اس وقت حضور صلی الله علیہ وسلم گھر میں نہ تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اپنی درخواست کا مضمون بیان کر دیا۔ جب حضور صلی الله علیہ وسلم تشریف لائیں تو میری طرف سے یہ عرض کر دی جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کر دیا کہ صاحب زادی صاحبہ اس مقصد کے لیے تشریف لائی تھیں۔ آپ اسی وقت حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تم غلام یا باندی چاہتی ہو یا میں اس سے بھی اچھی چیز تم کو بتلاؤں؟ انہوں نے عرض کیا کہ جو چیز اس سے اچھی ہو وہی بتا دیجیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیٹتے وقت 33 بار سبحان الله،33 بار الحمدلله اور 34 بار الله اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ تمہارے لیے غلام اورباندی سے بہتر ہے۔ وہ ایسی لائق صاحب زادی تھیں کہ اسی پر خوش ہو گئیں اور آخرت کو دنیاوی راحت پر ترجیح دی۔

جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اولاد کے لیے بھی باندی رکھنا پسند نہیں فرمایا تو بیویوں کی ان باتوں کو کیسے پسند فرماتے؟! آپ تو ہمیشہ یہ دعا فرماتے تھے ”اللھم اجعل رزق آل محمد قوتا“ یعنی اے الله محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے گھر والوں کا رزق بقدر قوت کفایت کر دیجیے، جس سے زندگی قائم رہ سکے۔ غرض مال کا زیادہ ہونا آپ صلی الله علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھا، اس لیے ازواج کی اس فرمائش سے آپ تنگ دل ہوئے۔ (حقوق البیت)