شریعت میں علمائے حق کا مقام

شریعت میں علمائے حق کا مقام

مولانا محمد سلمان منصور پوری

حکمت (علم دین) خیر کثیرہے، ارشاد خدا وندی ہے: ”الله تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سمجھ عنایت فرماتا ہے اور جس کو سمجھ ملی اس کو بڑی خوبی ملی۔“ (البقرہ:279)

مشہور مفسر حضرت مجاہد اور ضحاک رحمہم الله وغیرہ نے یہاں حکمت سے فقہ اور علم دین مراد لیا ہے۔

علم دین میں رسوخ رکھنے والے علماء قابل تعریف ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وہی ہے جس نے اتاری آپ پر کتاب، اس میں بعض آیات محکم ہیں، یعنی ان کے معنی واضح ہیں، وہ اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہ آیات ہیں، جن کے معنی معلوم یا متعین نہیں ہیں، سوجن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی، گم راہی پھیلانے کی غرض سے اور تاویل تلاش کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب الله کے سوا کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر یقین لائے جو ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جنہیں عقل ہے۔“ (آل عمران:7)

واضح رہے کہ رسوخ فی العلم ہی کا نام تفقہ فی الدین ہے۔

الله کی وحدانیت کی شہادت دینے میں اہل علم کا تذکرہ فرشتوں کے ساتھ کیا گیا، ارشاد باری تعالی ہے :
”الله نے گواہی دی کہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی ،وہی حاکم انصاف کا ہے۔“ (آل عمران:18)

اہل علم اپنے علم کے ذریعہ ہی الله تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں،اسی سے معلوم ہو گیا کہ ان کے علم کا تعلق امور دینیہ سے ہے، نہ کہ امور دنیویہ سے۔

حضرات انبیاء علیہم السلام نے اُمّت کو علم دین سیکھنے کا حکم دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”کسی بشر کا کام کوئی نہیں کہ الله اس کو دیوے کتاب اور حکمت اور پیغمبر بنائے، پھر وہ کہے لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو جاؤ الله کو چھوڑ کر، لیکن یوں کہے کہ تم الله والے ہو جاؤ، جیسے کہ تم سکھلاتے تھے کتاب او رجیسے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے تھے۔“ (آل عمران:79)

یہ انبیائے سابقین کا معمول بتایا گیا اور موجودہ دور میں یہ مقصد قرآن کریم کے علم کے ذریعہ حاصل کیا جائے گا۔

اہل علم کی اطاعت کا حکم، الله تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا:”اے ایمان والو! حکم مانو الله کا اور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں۔“ (النساء:59)

یہاں حاکموں سے مراد امراء، علماء ، مفتیان او رقضاة ہیں، جو علم دین کی روشنی میں لوگوں پر حکومت کرتے ہیں او رجو حاکم شریعت کے خلاف حکم دے اس کی اطاعت لازم نہیں ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ الله کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ (مشکوٰة)

تفقہ حاصل کرنے کا تاکیدی حکم، ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
”اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سب کے سب، سو کیوں نہ نکلاہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ، تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں او رتاکہ خیر پہنچائیں اپنی قوم کو، جب کہ ان کی طرف لوٹ کر آئیں، تاکہ وہ بچتے رہیں۔“ (التوبہ:122)

اس آیت سے صاف طورپر دینی علم کے حصول کے لیے سفر کرنے اور دین میں تفقہ اور گیرائی پیدا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور موجودہ دور میں تمام دینی مدارس جہاں علم دین اور فقہ کی تعلیم ہوتی ہے، وہ سب اسی قرآنی ہدایت کی تعمیل کی صورتیں ہیں۔ اس لیے کہ پیغمبر علیہ السلام کی ذات بجائے خود مدرسہ تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس مبارکہ علم کا سرچشمہ تھی اور سفر وحضر میں آپ کا علمی فیضان جاری رہتا تھا۔ آپ کے بعد یہ کیفیت تو باقی نہیں رہی، لیکن تفقہ حاصل کرنے کا حکم اپنی جگہ تا قیامت برقرار ہے اوراس کی آسان ترین شکل موجودہ دور میں مدارس دینیہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ الله تعالیٰ نے ان مدارس کو انبیاء کی علمی وراثت کی بقا واشاعت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

دینی مسائل جان کار علما ء سے پوچھنے کا حکم۔ ارشاد فرمایا گیا ہے:
”سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے، اگر تم کو معلوم نہیں۔“ (النحل:43)

یعنی مسائل دینیہ میں رائے زنی کی بجائے واقف کار علماء سے معلومات حاصل کرو۔

علمائے حق خشیت ایزدی کی صفت سے متصف ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا:
”الله تعالیٰ سے ڈرتے وہی ہیں، اس کے بندوں میں سے، جن کو سمجھ ہے۔“ (فاطر:68)

یعنی جتنا علم دین میں اضافہ ہو گا، اتنا ہی خشیت میں بھی اضافہ ہوگا اور جس علم سے خشیت پیدا نہ ہو وہ علم کہلائے جانے کے لائق نہیں، اسی طرح جو عالم خشیت خداوندی سے مالا مال نہ ہو وہ فی الحقیقت عالم کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہے۔

عالم اور جاہل دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ ارشاد خداوندی ہے:
”بھلا ایک جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں، سجدے کرتا ہوا اور کھڑا ہوا، خطرہ رکھتا ہے آخرت کا اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی مہربانی کی، آپ فرما دیجیے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ؟ سوچتے وہی ہیں جن کو عقل ہے۔“ (الزمر:9)

یعنی جو لوگ علم وعمل کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ جاہلوں اور بدعملوں کے برابر درجہ میں رکھے جائیں ، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، علماء عاملین کا مقام ان جاہلوں سے کہیں زیادہ بلند ہے، ہر منصف مزاج شخص اس بات سے واقف ہے۔

اسلام کی نظر میں علم کا مصداق کون سا علم ہے؟
مذکورہ بالا آیات مبارکہ صاف بتا رہی ہیں کہ اسلام کی نظر میں ہر جگہ ، ہر علاقہ میں اور ہر زمانے میں علمائے دین کا وجود ایک دینی ضرورت ہے، جس کے بغیر دنیا میں اسلامی معاشرے کی بقا وتحفظ ناممکن ہے اور کوئی یہ نہ کہے کہ ان آیات میں علم سے مراد ہر طرح کے علوم ہیں ( جیسا کہ آج کل کچھ لوگ عصری علوم کی تائید میں قرآن کریم کی ان آیات کو پیش کرتے ہیں، جن میں کسی بھی طرح لفظ علم کا ذکر آیا ہے ) اس لیے کہ شریعت کی نظر میں اصطلاحی طور پر علم کا اطلاق صرف اور صرف ایسی معلومات پر کیا جاتا ہے، جن سے رب العالمین کی معرفت انسان کو نصیب ہوتی ہے اور حلال وحرام کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے، یہی وہ علم ہے جس کے فضائل بحیثیت علم کے، قرآن وسنت میں وارد ہوئے ہیں اوراس کے حاملین آخرت میں اپنے علم کی بنیاد پر رحمت خداوندی او رانعام خدا وندی کے مستحق قرار پائیں گے۔ ان شاء الله۔

اس کے برخلاف دنیا کے دیگر علوم، خواہ کتنے ہی ضروری کیوں نہ ہوں، شریعت کی نظر میں وہ ”علم“ نہیں، بلکہ ذرائع ”معاش“ ہیں، یعنی آخرت میں محض دنیوی علم سیکھنے پر کسی اجر کا وعدہ نہیں ہے اور نہ اس علم کے سیکھنے کی کوئی اخروی فضیلت ہے، ہاں! اگر کوئی ان دنیوی علوم کو دین کی خدمت واشاعت کا ذریعہ بنالے یا ان کے ذریعے خدمت خلق کا فریضہ انجام دے تو ان خدمات کا صلہ ان شاء الله اسے عطا ہو گا۔

سیدنا حضرت علی کرم الله وجہہ پیغمبر علیہ السلام کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم کا سیکھنا ہر مومن پر فرض ہے۔ یعنی روزہ، نماز، حلال وحرام اور حدود واحکام کی معرفت حاصل کرنا۔ (الفقیہ والمتفقہ)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تودیکھا کہ لوگ ایک شخص کے اردگرد جمگھٹا لگائے ہوئے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیسا مجمع ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ”علامہ صاحب“ (بہت جان کاری رکھنے والے) ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ علامہ کا کیا مطلب ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ صاحب عرب کے نسب کے بارے میں، عربی زبان وادب کے بارے میں اور شعرو شاعری اور اختلاف محاورات کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں، یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ ایسا علم ہے جس میں نفع نہیں اور اس سے جاہل رہنا مضر نہیں۔ (مختصر جامع بیان العلم:192)

مطلب یہ ہے کہ اس علم پر اخروی کا م یابی کا مدار نہیں اور نہ اس سے جاہل رہنے پر آخرت میں کچھ نقصان ہے، اس کا جو بھی نفع ہے وہ محض دنیوی ہے۔ حسن ابن الربیع رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبدالله بن المبارک رحمة الله علیہ سے پوچھا کہ ارشاد نبوی:”علم کا سیکھنا فرض ہے“ اس کا مطلب کیا ہے؟ تو حضرت عبدالله بن المبارک رحمة الله علیہ نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلا ہو تو اس کے بارے میں پہلے جان کار لوگوں سے علم حاصل کر ے ( اس کے بعد ہی آگے قدم بڑھائے) ۔(الفقیہ والمتفقہ)۔

اس سے معلوم ہو گیا کہ علم کہلائے جانے کے لائق وہی علم ہے، جس سے آدمی الله تعالیٰ کی خشیت اور حلال وحرام کی واقفیت حاصل کرسکے اور اسی علم کے حاملین کے بارے میں آخرت میں اعلیٰ ترین درجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔

علماء فرشتوں کے جھرمٹ میں
قرآن کریم کی تعلیم وتعلم میں مشغول علماء اور طلبہ کا کچھ اندازہ ذیل کی روایت سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب بھی کچھ لوگ الله کے کسی گھر میں جمع ہو کر قرآن کریم سیکھتے ہیں اور آپس میں اس کا مذاکرہ کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت خداوندی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے او ران پر سکینت کا نزول ہوتا ہے اور الله تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر خیر اپنے یہاں کے فرشتوں کے سامنے فرماتے ہیں او رجو شخص بھی علم دین سیکھنے کی غرض سے کسی راستہ پر چلے گا تو الله تعالیٰ اس کے لیے جنت تک جانے کا راستہ آسان فرما دیں گے او رجس کا عمل اسے پیچھے کر دے تو اس کا محض نسب اسے آگے نہیں کرسکتا، (یعنی نجات کا مدار نسب پر نہیں، بلکہ عمل پر ہے)“۔ (مشکوٰة)

علم نافع صدقہٴ جاریہ ہے
انسان کے مرنے کے بعد عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، لیکن علم نافع ایسی مبارک نعمت ہے کہ اس کا اجروثواب عالم کو مرنے کے بعد برابر ملتا رہتا ہے۔ آنحضرت صلی الله عیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین کاموں کے صدقہ جاریہ علم نافع او رایسی اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔“ (ابوداؤد)

علم دین سے بڑھ کر کوئی علم نافع نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ دنیا کے تمام علوم کا نفع صرف دنیوی زندگی تک محدود ہے ،جب کہ علم دین کا نفع دائمی ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے افضل علم وہ ہے جس کی طرف لوگ محتاج ہوں اور یہ بات کامل طورپر صرف علم دین ہی میں پائی جاتی ہے، اس لیے کہ اس کے ضروری علم کے بغیر آدمی کی نجات نہیں ہوسکتی۔

فقاہت کی صفت قابل رشک ہے
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”حسد(یعنی رشک) صرف دو شخصوں پر جائز ہے: اول وہ شخص جسے الله تعالیٰ نے مال عطا کیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں بے دریغ خرچ کرتاہو، دوم وہ خوش نصیب جسے الله تعالیٰ علم وحکمت سے نوازے ، پھر وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“ (بخاری)

اس حدیث میں حکمت سے مراد سنت ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم اور تفقہ فی الدین ہے، اسی بنا پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس شخص کے ساتھ الله تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔“ ( بخاری)

اور ایک روایت میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ جب کسی بندے سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو تین صفات سے نوازتے ہیں : دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ دنیا اور اس کی زیب وزینت سے اس کا دل ہٹا دیتے ہیں ۔ اس کے عیوب اس کی نظروں کے سامنے کر دیتے ہیں۔ (بخاری)

خلق خدا کی عالم ربانی کے لیے دعا
حضرت ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”بے شک الله تعالیٰ، فرشتے اور زمین وآسمان کی تمام مخلوقات، حتی کہ اپنے بل میں رہنے والی چیونٹی اور سمندر میں تیرنے والی مچھلی بھی اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے۔ “ (مشکوٰة)

کثیر بن قیس رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ دمشق میں مقیم تھے، تو ایک صاحب مدینہ منورہ سے ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے توابوالدرداء رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے صرف حدیث کے بارے میں سوال کرنے کے لیے سفر کیا ہے؟ او رتجارت یا کوئی اور غرض تمہارے سفر سے نہیں ہے؟ ان صاحب نے عرض کیا کہ میں نے صرف حدیث ہی کی غرض سے سفر کیا ہے، اس پر حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ نے فرمایا کہ تو پھر خوش خبری قبول کرو، میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
”جو شخص بھی طلب علم کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو فرشتے اس کے اعزاز میں پر بچھاتے ہیں اور ا س کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور عالم دین کے لیے تمام زمین وآسمان کی مخلوقات، حتی کہ سمندر کی مچھلیاں تک بھی استغفار کرتی ہیں او رایک عالم کی فضیلت نرے عابد پر اس طرح ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت دیگر ستاروں پر اور علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں او رانبیاء علیہم السلام نے دینارودرہم وراثت میں نہیں چھوڑے، بلکہ انہوں نے علم دین وراثت میں چھوڑا ہے، لہٰذا جسے علم لینا ہے وہ بھرپور حصہ کے ساتھ لے لے۔“ (مشکوٰة)

علماء سے بغض موجب ہلاکت ہے
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”یا تو عالم بنو یا طالب علم بنو یا علم دین کے سننے والے بنو یا علم (اور علماء سے ) محبت کرنے والے بنو اور (ان کے علاوہ) پانچویں مت بننا، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔“ (بخاری)

یہ پانچویں موجب ہلاکت صفت کیا ہے؟ اس کے بارے میں حضرت حسن بصری کا خیال ہے کہ اس سے مراد بدعتی ہونا ہے او رعلامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ اس کا مصداق علماء سے بغض وعداوت ہے کہ جو آدمی علم دین سے جاہل ہوتا ہے، وہ عموماً علمائے دین سے بغض ونفرت کرتا ہے، تا آنکہ دنیا وآخرت میں تباہی او ربربادی کا مستحق بن جاتا ہے۔