سیلفی اورتصویر کشی ایک فعل حرام ہے

سیلفی اورتصویر کشی ایک فعل حرام ہے

مولانامفتی محمد ندیم الدین قاسمی

ہر مسلمان پر تقوی کی زندگی گزارنا صرف ضروری ہی نہیں، بلکہ فرض عین ہے، بلا امتیاز رنگ ونسل عندالله قبولیت کا دار ومدار بھی اسی پر ہے، ﴿ان اکرمکم عند الله اتقکم﴾ اور تقویٰ نام ہے دو چیزوں کے مجموعے کا امتثال اوامر اجتناب عن النواہی، تاہم ان میں بھی اہم ومقدم اجتناب عن النواہی ( گناہوں سے بچنا) ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اتق المحارم تکن اعبد الناس“ (تم حرام سے بچو، سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے) لیکن مسلمانان عالم نے اسی اہم جز کو بھلا کر، آخرت کی پرواہ کیے بغیر، جب حرام کی پر خطر اور خارداروادی میں قدم رکھا اور تسکین نفس کی خاطر حرام کو ضرورت دین واصلاح دین کا لیبل لگا کر حلال کرنے گلے، تو شیطان نے بھی انہیں ایسے ایسے حرام کاموں کا چسکا لگایا، جو غیرت ایمانی اور تقاضہٴ اسلامی کے بالکل خلاف ہے اور آج امت مسلمہ جن حرام کاموں میں سب سے زیادہ مبتلا ہے ان میں سے ایک تصویر کشی بھی ہے، جس کے بدترین شوق نے امت مسلمہ کی روحانیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور انسان بھی اس کا ایسا عادی ہو گیا کہ اس کے دل سے اس کی حرمت رفتہ رفتہ ختم ہی ہو گئی، انسان اسے اپنی زندگی کا جزءِ لاینفک سمجھنے لگا، جب کہ اس کی حرمت نصوص قطعیہ، آثار صحابہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، تقریباً چالیس احادیث اس کی حرمت سے متعلق ہیں۔

چناں چہ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” تصویر بنانے والے کو روز قیامت سخت ترین عذاب دیا جائے گا“۔ (بخاری وابن ماجہ) ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تصویر بنانے والوں کو روز قیامت حکم دیا جائے گا کہ جو بنایا ہے اس میں روح ڈال کے بتاو!“۔ ( بخاری) ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے۔ (مسلم) ایک حدیث میں ہے کہ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہو۔ ( بخاری) نیز اس میں بے شمار مفاسد بھی ہیں، چناں چہ جہاں ایک طرف یہ تصاویر بے حیائی، بد فعلی اور جذبات کو برانگیختہ کرتی ہیں تو وہیں نسل نو کے اخلاق اور دین کی تباہی کا ذریعہ بھی ہیں، جہاں ایک طرف یہ بت پرستی اور شرک کا ذریعہ ہیں تو وہیں عورتوں کی عفتوں اور عزتوں کی تباہی کا باعث بھی او رجہاں اس میں وقت کا ضیاع ہے، تو وہیں ریا کاری کا ذریعہ بھی ہیں اورجہاں یہ تصاویر غم او رگناہ کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا سبب ہیں تو وہیں کفار ومشرکین سے مشابہت بھی بدرجہ اتم اس میں موجود ہے۔

سیلفی کا جنون
جدید دورکی پیداوار اور تصویر کی ایک نئی قسم ” سیلفی“ ہے، اس کا سب سے پہلے استعمال2002ء میں کیا گیا او رجس نے 2013 میں عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا،جس نے ہر کسی کو، عوام تو عوام، خواص کو بھی اپنا ایسا دیوانہ وپاگل بنا لیا کہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے، لڑتے جھگڑتے، مانتے بگڑتے،خاندان کے ساتھ ہو یا دوستوں کی محفل میں ، ریسٹورنٹ ہو یا خاندان کے اجتماعات میں ، شادی بیاہ کا موقعہ ہو یا کوئی او رمحفل… ہر جگہ اور ہر کسی پر سیلفی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، محض اپنے فالو ورز کومتاثر کرنے کی خاطر خطرناک، اونچی اونچی پہاڑیوں اوربلند بلند عمارتوں پر سیلفی لینا انسان کا محبوب ترین مشغلہ بن گیااو رایک اچھا خاصا بظاہر سنجیدہ اور متاثر کن دکھائی دینے والا شخص جب آڑے ترچھے زاویوں سے، ٹیڑھے میڑھے منھ بنا کر، ہونٹوں کو منھ چڑانے کے انداز میں سکیٹر کر جب دیوانہ وار سیلفی لینے میں مشغول ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کی شخصیت کو گہن لگ گیا ہے۔ اس کی اصلیت عیاں ہو گئی ہے۔ اسے دیکھنے والوں کے اذہان پر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔

عیادت کرنے اسپتال جائیں تو درد سے کراہتے مریض کے ساتھ سیلفی، آخری سانس اور پھرجنازہ کے وقت سیلفی ،حتی کہ نماز پڑھتا ہے تو سیلفی لیتے ہوئے، زکوٰ ة دیتا ہے تو سیلفی لیتے ہوئے، خدمت خلق کرتا ہے تو غریبوں کی عزت کو مجروح کرکے سیلفی لیتے ہوئے، عبادات میں سیلفی سے جذبہٴ خود نمائی ظاہر ہوتا ہے، جسے آپ صلی الله علیہ وسلم نے شرک فرمایا: ”من صلی یرائی فقد اشرک، ومن صام یرائی فقد اشرک، ومن تصدق یرائی فقد اشرک․( جس نے ریا کاری سے نماز پڑھی تو اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری سے روزہ رکھا تو اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کاری سے صدقہ وخیرات کیا تو اس نے شرک کیا) یہ طوفان ِ بلا خیز یہیں تک نہیں رُکا، بلکہ حرمین شریفین کے پُرنور ماحول میں بھی پہنچ گیا، لوگ صفا ومروہ کی سعی ورمی جمار کے وقت بھی سیلفی کی لَت میں پڑ گئے، وقت ِ طواف قبلہ کے بجائے سیلفی کے شوق میں فون کی اسکرین کی طرف توجہ ہے، فیا حسرتا! اب اسے مساجد کا احترام ہے، نہ مقامات مقدسہ کا، نہ کعبة الله کی عظمت کاخیال ہے، نہ روضہٴ رسول کا ادب،جب کہ حضرت عباس بن ربیعہ کا قول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تک امت کعبة الله کی حرمت اسی طرح کرتی رہے گی جیسا کہ اس کا حق ہے، تو وہ خیر وبرکت سے بہرہ ور رہے گی،جب اس کی عظمت چھوڑ دے گی تو تباہ وبرباد ہو جائے گی۔

حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پر مجھ سے ستر غلطیاں سر زد ہو جائیں تو یہ میں گوارہ کرسکتا ہوں ، لیکن یہ گوارہ نہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک بھی غلطی سر زد ہوجائے۔ (ابن ماجہ)

الغرض اب انسان کے دن کی ابتدا وانتہا اسی سے ہے، گویا وہ اس کی ”شریک حیات“ بن چکی ہے یا دوسرے لفظوں میں سیلفی ایسی آکسیجن بن چکی ہیجس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے، اب اس کی عبادتوں میں اخلاص نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی، سیلفی کے عفریت نے انسانی رویوں میں بے اعتنائی ولا پرواہی اور بے تعلقی کے ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا، سیلفی کا یہ رحجان جتنا پر لطف ہے اتناہی خطرناک بھی، یہی وجہ ہے کہ سیلفی کی وجہ سے روز افزوں نوجوانوں کی شرح اموات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کی و جہ سے سب سے پہلی موت امریکا میں اس وقت ہوئی جب تین نوجوان چلتی ٹرین کے ساتھ تصویر لینے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن چلتی ٹرین کی وجہ سے وہ ٹرین کی زد میں آگئے او رلقمہ اجل بن گئے، تازہ ترین اطلاع کے مطابق 276 اموات سیلفی کی وجہ سے ہوچکی ہیں۔

ماہرین نفسیات نے سیلفی کو نئی نفسیاتی بیماری قرار دیا، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سیلفی کی عادت درحقیقت انسان کے اندر چھپی بدترین خود پرستی وخود پسندی کی عادت کو ظاہر کرتی ہے، جس سے انسان کی زندگی میں بناوٹ اور مصنوعی پن بڑھتا ہی جاتا ہے، اپنے خدوخال کے حوالے سے وہ منفی رویوں کا شکار ہو جاتاہے، یہی رویے اسے ذہنی دباؤ، تنہائی پسندی کا شکار بنا دیتے ہیں، ماہرین نفسیات کے مطابق اس دماغی خلل کا تاحال کوئی طریقہ علاج طے نہیں ہو سکا۔

ان سب سے بڑھ کر یہ ایک فعل حرام ہے، ایسا شخص خدا ورسول کی لعنت کا مستحق ہے، جس سے بچنا بے حد ضروری ہے اور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سیلفی لینے سے روکیں، ورنہ بچوں کا اس کی طرف بڑھتا ہوا رحجان بڑے مسائل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔