سچائی اور راست بازی

سچائی اور راست بازی

مولانا یحییٰ نعمانی

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم میں جن اخلاق حسنہ کی بہت تاکید کی گئی ہے اور جن پر بہت زور دیا گیا ہے، ان میں صدق وسچائی اور راست بازی کا خاص مقام ہے۔ صدق وسچائی کا ایک بنیادی اور سادہ مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی گفت گو میں جھوٹ او رخلاف واقعہ باتوں سے پرہیز کرے اور ہمیشہ وہی بات کرے جو مطابق واقعہ اور سچ ہو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایات میں سچائی کی اس بنیادی قسم پر بھی بہت زور دیا گیا ہے اور اس کو ایمان کی نشانی او رجھوٹ بولنے کو ایک طرح کے نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

ایمان لانے کے بعد صدق وسچائی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان الله سے کیے گئے اس عہد کو پورا کرے اور اس وعدے میں سچائی دکھائے جو ایمان لاتے وقت وہ الله سے کرتا ہے۔ اب اس کی مکمل اطاعت کرے اور نفس کی خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے بجائے الله کی اطاعت فرماں برداری اوراس کے احکام کی تابع داری کرے او راسی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنالے… قرآن وحدیث سے بھی یہ پتہ چلتا ہے اور علمائے ربانیین کی تشریحات میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ صدق وسچائی کا ایک خاص مقام ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”اصل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو الله پر ایمان لائے اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت کے باوجود رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں اور مسافروں کو اور سائلوں کو اورغلاموں کے آزاد کرنے کے لیے۔ اور جس نے نماز قائم کی اور زکوٰة دی اور ان کی جو عہد کرے اس کو پورا کرتے ہیں اور جو صبر کرتے ہیں تکلیف میں اور (جمے رہتے ہیں) سخت حالات میں اور جنگ کے وقت یہی لوگ ہیں سچے اور یہی متقی ہیں۔“

اس طرح راست بازی اور سچائی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہر طرح کے معاملاتی جھوٹ اور مکروفریب سے آدمی بچے اور کسی قسم کے دھوکے وغیرہ کا ارتکاب نہ کرے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص جھوٹ سے اور اس پر عمل ( یعنی دھوکہ فریب) سے نہ بچے الله تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔

لیکن قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق کا کمال اور اس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک صاحب ایمان الله سے محبت میں ایسا سچا اور صادق ہوکہ وہ اس کی راہ میں ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہے، ضرورت پڑنے پر اس کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرے، اس کے لیے اپنوں سے رشتہ توڑلے، اپنے مفادات کو نظر انداز کردے اور اس کی راہ میں اپنے جان ومال کو بے قیمت کرے، ایک مومن اپنے ایمان کے ساتھ ہی الله سے اس وفاداری کا معاہدہ کرتاہے، پھر اس کو نباہتا ہے تو وہ ”صادق “ اور مکمل”سچا“ قرار پاتا ہے۔”صدق“ کا یہ حال انسان کو ”صدیقیت“ کے مرتبے تک پہنچاتا ہے۔

یہ دین کا وہ مقام ہے جو نبوت کے بعد اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ قرآن مجید نے بلا مبالغہ دسیوں جگہ اس آزمائش میں ( جب دین کی خدمت اور اس کی نصرت کے لیے اپنے مفادات کی اور اپنی قربانی کی ضرورت پڑے) پورا اترنے والوں کو ہی خدا کی نگاہ میں ”سچا“ اور”صادق“ قرار دیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اس صفت میں بھی امت میں سب سے سابق اور فائق ہیں۔

سورہ حشر کی آیت نمبر8 میں مہاجرین کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
” وہ مہاجر جو (الله کی خاطر) نکالے گئے اپنے گھروں سے اور مالوں سے ،وہ چاہتے تھے الله کا فضل اور رضا مندی اور الله کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی ہیں سچے۔“

سورہٴ حجرات کی آیت15,14 اور سورہٴ احزاب کی آیت 22 تا24 اور دیگر بہت سی آیتوں میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ سورہٴ عنکبوت کے شروع میں مکہ کے پر آشوب ماحول میں مسلمانوں پر آنے والی آزمائشوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے ہم ہر زمانہ میں اہل ایمان کو اسی طرح آزماتے ہیں، اس طرح الله جان لیتا ہے اور واضح کر دیتا ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں اپنے ایمان میں اور کون ہیں جھوٹے…

بہرحال سچائی اور راست بازی کا ابتدائی درجہ تو زبان کے جھوٹ سے بچنا ہے، مگر اس کا آخری مقام صدیقیت ہے، جس کا مطلب ہے بندے کی اپنے مالک سے پوری وفاداری اور مکمل خود سپردگی۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ سچائی کو لازم پکڑ لو اور ہمیشہ سچ ہی بولو، اس لیے کہ سچائی نیکی کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ جب آدمی مستقل ’سچ“ ہی بولتا رہتا ہے اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے تو ( ایک وقت وہ آتا ہے کہ ) الله کے یہاں وہ صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ پھر آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: اور جھوٹ سے پرہیز کرو،اس لیے کہ جھوٹ آدمی کو بد کاری کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور بد کاری کا نتیجہ جہنم ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کو ہی اپنے لئے اختیار کر لیتا ہے، یہاں تک کہ وہ الله کے یہاں ”کذاب“ لکھ لیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

اس عظیم حدیث میں بڑے اہم حقائق بیان فرمائے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچائی بذات خود ایک نیکی ہے، اس کے اندر ایک خاص تاثیر یہ ہے کہ وہ آدمی کی پوری زندگی کو راست بازی کی زندگی بنا دیتی ہے، اس کے اندر نیک کرداری اور پاکیزگی آجاتی ہے اور اس طرح وہ جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔

اسی طرح جھوٹ ایک گندی عادت اور گناہ ہے، مگر اس کے ساتھ اس کے اند رایک بری تاثیر یہ ہے کہ وہ انسان کو بد کردار اور فسق وفجور کی طرف مائل کر دیتی ہے اور اس طرح وہ شخص (العیاذ بالله) جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے رسالہ ”امراض القلوب“ میں لکھتے ہیں کہ بعض مشائخ کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے کسی پیروکار کو کسی گناہ یا فحش عمل سے روکنے کے بجائے ابتدا میں اس کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ سچائی کو لازم پکڑلے، اس لیے کہ سچائی اختیار کرنے کے بعد انسان کے نفس کا شر مغلوب ہونے لگتا ہے۔

اس حدیث میں ایک روحانی اور عالم قدس کی حقیقت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ سچ بولتے رہنے اور جھوٹ سے مکمل پرہیز کرنے کے نتیجہ میں انسان کو الله کے یہاں ”صدیق“ لکھ لیا جاتا ہے۔

اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ بول چال میں سچ بولنا او رمعاملات میں سچائی پر کار بند رہنا اور دھوکے اور مکاری سے مکمل پرہیز ایسے اعمال ہیں جن پر اگر استقلال سے جمے رہا جائے تو یہ صدیقیت کے عظیم مرتبہ تک پہنچانے والی چیز ہے۔

الله تعالیٰ ہمارے درجات بلند فرمائے اور ہمارا انجام ان قابل رشک بندوں کے ساتھ فرمائے جن کو وہ صدیقین، شہداء اور صالحین کے القاب سے یاد فرماتا ہے اور جن پر اس کا خاص انعام ونوازش ہے۔