سفرِ آخرت کی تیاری کیسے کریں؟

سفرِ آخرت کی تیاری کیسے کریں؟

محترم ابو احمد فراز

بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، ہر آدمی جو اس دنیا میں موجو دہے وہ امتحان دے رہا ہے او رجیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوں گی نتیجہ سامنے آجائے گا، یہ بات کسی نہ کسی درجہ میں صحیح ہوسکتی ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ نہیں، بلکہ امتحان کی تیاری کی جگہ ہے، جو جتنی اچھی تیاری کرکے دنیا سے جائے گا اتنے ہی آخرت میں کیے جانے والے سوالات کے اچھے جواب دے سکے گا او رجتنے اچھے جواب دے گا اتنا ہی اچھا کام یاب ہو گا او راتنے ہی اچھے انعام پائے گا۔ ہمارے شفیق نبی صلی الله علیہ وسلم ہمیں فرما گئے کہ دیکھو آنکھ بند ہوتے ہی قبر میں تین سوال کیے جائیں گے اور حشر میں چار، جو بھی ان سوالوں کے صحیح جواب دے دے گا وہ کام یاب ہو گا او رجنت میں جائے گا اور جوان سوالات کے جواب نہ دے سکا وہ ناکام ہو گا اور جہنم میں جائے گا۔

پھر جیسے دنیا کے امتحانی پرچوں میں کچھ سوال لازمی ہوتے ہیں اوران کے نمبر بھی زیادہ ہوتے ہیں، اسی طرح قبر کے سوالات چوں کہ ایمان اور یقین سے متعلق ہیں، اس لیے لازمی ہیں، جس نے ان لازمی سوالات کے جواب دیے تو حشر کے چار سوالات کے جواب دینا اس کے لیے نسبتاً آسان ہو جائے گا اور حشر کے چار سوال اعمال سے متعلق ہوں گے، یہ ہوں گے تو بہت مشکل ،مگر الله تعالیٰ کے فضل سے آسان ہو جائیں گے، قبر کے تین سوال یہ ہیں : تیرا رب (پالنے والا) کون ہے؟ تیرا دین (مذہب) کیا ہے؟ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی شبیہ سے پردے ہٹا کر پوچھا جائے گا کہ یہ کون ہیں جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے؟

بظاہر تینوں سوال آسان ہیں اور ہر مسلمان کے لیے ان کے جواب دینا معمولی بات لگتی ہے ، مگر موت کے بعد ان سوالات کے جواب دینا اتنا آسان نہ ہو گا، آئیے! اپنا تجزیہ ہم خود کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ دنیا میں تو انسان کی زبان دل کے مطابق بھی بولتی ہے اور دل کے مخالف بھی، مثلاً ہم رات کو تھکے ماندے گھر پہنچتے ہیں کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے، جا کر دیکھا کہ نہایت عزیز دوست کھڑا ہے، دل میں تو یہ ہے کہ یہ کیسے بے وقت آگئے، میں تھکا ہوا ہوں، نہا دھو کر بچوں کے ساتھ کھانا کھاتا اور پھر آرام کرتا، مگر زبان کیا کہہ رہی ہے ؟ آئیے تشریف لائیے !آپ کے آنے سے بڑی خوشی ہوئی، مگر یاد رہے کہ مرنے کے بعد ہماری زبان سمیت سب اعضاء سچ بولیں گے، یعنی جو دل میں ہو گا ہم وہی بول سکیں گے او راگر غلط بولنے کی کوشش کی تو ہمارے اعضا سچ اُگل دیں گے، یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے ان تین سوالوں پر غور فرمائیں۔

پہلا سوال
اگر دنیا میں ہماری زندگی اس یقین پر گزری ہے کہ ہمارا بلکہ ساری مخلوقات کو پالنے والا صرف الله تعالیٰ ہے، ہم سے کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ الله ہی سے ہوتا ہے ، وہ رب العالمین ہے تو فوراً جواب دے دیں گے کہ ہمارا رب الله ہے، وہی سب کو پالنے والا ہے، لیکن دنیا میں تو ہماری اس یقین پر زندگی گزری ہے کہ او رمیری بیوی، بچے، میرے کاروبار سے، میری نوکری سے، میری کھیتی باڑی سے پل رہے ہیں، اگر میں یہ سب نہ کروں تو کیا انہیں بھوکا ماردوں؟ حق حلال کمانے کا تو اسلام بھی حکم دیتا ہے، اب اس سے وقت ہی نہیں ملتا کہ کچھ اور سوچوں، کچھ او رکروں وغیرہ وغیرہ …تو جب دل کے اس یقین پر موت آئے گی تو ہم پہلے سوال کے جواب میں کیسے کہہ سکیں گے کہ میرا رب الله ہے؟! زبان دل کے خلاف تو بولے گی نہیں۔

دوسرا سوال
اگرپورے کے پورے دین پر چلتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو فوراً جواب دے دیں گے کہ ہمارا دین اسلام ہے، مگر ہمیں تو اپنے دین کے احکام کا پتہ ہی نہیں ، نہ کبھی سیکھنے کی کوشش کی، ہماری شادی بیاہ ہو یا اور کوئی تقریب ،کاروبار ہو یا معاملات، معیشت ہو یا معاشرت، یہود ونصاریٰ کے بنائے ہوئے اصول ہی سے مطابقت رکھتے ہیں، ایسی زندگی گزار کر جب ہم قبر میں پہنچیں گے تو یہ کیسے کہہ سکیں گے کہ ہمارا دین اسلام ہے؟! زبان دل کے خلاف تو بولے گی نہیں۔

تیسرا سوال
اگر اس حال میں زندگی گزری ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت اپنے ماں باپ ،اپنی آل و اولاد، بھائی وبہن ، مال ودولت سے بھی زیادہ تھی، ہر سنت پر عمل کرنے کی تڑپ تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام کو سر آنکھوں پر رکھتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت، عزت وحرمت، ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی جان ومال نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے تو فوراً جواب دے دیں گے کہ یہ الله تعالیٰ کے آخری رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں، ہم ان پر ایمان لائے تھے اوران کی تابع داری کی تھی ، مگر دنیا میں تو جب ہمیں کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے محبت کی دلیل آپ کی اتباع میں ہے، جتنی محبت ہوگی اتنی ہی اتباع سنت ہم سے ظاہر ہو گی، تو ہم کہتے ہیں کہ ہم سے تو فرض ہی پورے ہو جائیں یہ غنیمت ہے، سنت پر عمل کرنا تو اس زمانے میں مشکل ہے۔

شادی، بیاہ ، کاروباری معاملات، پڑوسیوں اور قرابت داروں کے حقوق وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا، اگر داڑھی کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو کہتے ہیں اس سے کیا ہوتا ہے؟ دل میں ایمان ہونا چاہیے۔ فرنگی لباس چھوڑنے کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس سے کیا ہوتا ہے؟اسلام توصرف ستر ڈھانپنے کا حکم دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

غرض یہ کہ چھوٹی بڑی کسی سنت کا ذکر آئے، شیطان ہمیں حدیث پاک ”جوآدمی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے پس وہ ان میں ہو گا“ بھلا کر اس کی تاویلات میں الجھا دیتا ہے۔ قبر کے یہ تین سوال جن کا تعلق ایمان اور یقین سے ہے، ان کے جواب دینا ہمارے لیے مشکل اس لیے ہو گا کہ دنیا میں ہم نے ایمان ویقین بنانے کی محنت تو کی ہی نہیں، صبح سے رات تک محنت کی تو بس دنیا کمانے کی… تو ایمان کیسے بنے گا؟!

حشر میں جو چار سوال ہوں گے ان کا تعلق اعمال سے ہے، وہ یہ ہیں عمر کس مشغلے میں خرچ کی؟جوانی کس کام میں خرچ کی؟ مال کس طرح سے کمایا تھا اور کس مصرف میں خرچ کیا؟ او راپنے علم پر کتنا عمل کیا؟

جب زندگی یہود ونصاری کے مشاغل میں خرچ ہوئی ہو، جوانی فلم، ٹی وی، ڈش اور دوسری عیاشیوں میں خرچ ہوئی ہو، مال جائز ناجائز طریقے سے کمایا ہو اور اپنے نفس کی خواہشات پوری کرنے میں خرچ ہوا ہو، علم حاصل ہی نہیں کیا تو عمل کیسا؟ اگر علماء کے طفیل تھوڑا بہت حاصل بھی ہوا ہو تو اپنے کبر کی وجہ سے عمل میں نہ لاسکے ہوں تو ان چاروں سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟ زبان دل کے خلاف تو بولے گی نہیں۔

یادرکھیے! یہ ہمارا کبرہی ہے جو ہمیں اپنے علماء کی باتوں پر کان نہیں دھرنے دیتا، کبر ہی ہمار ی سب سے بڑی بیماری ہے، جس کا ہمیں احساس ہی نہیں، چہ جائیکہ اس کا علاج کریں، اسی کبر نے ابلیس کو شیطان بنایا کہ اس نے حکم خدا وندی کے مقابلے میں عقل استعمال کی۔

پہلا راستہ
دین کے احکام سے روگردانی کرنے والا عموماً کبر کا شکار ہوتا ہے، ہر معاملہ میں اپنی عقل لڑاتا ہے اور دھوکا کھاتا ہے، ابلیس نے بھی دھوکا کھایا، الله تعالیٰ سے حشر کے دن تک کی مہلت مانگی کہ میں بنی آدم کو آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے بہکاؤں گا او رجہنم تک پہنچاؤں گا، اوپر سے اور نیچے سے کہنا بھول گیا، اجازت مل گئی، اب ہمارے لیے بس یہی اوپر اور نیچے کے دو راستے ہی محفوظ ہیں کہ سر نیچے زمین پر پڑا ہو اور دل اوپر عرش عظیم کے مالک میں اٹکا ہو، آنکھوں میں آنسو ہوں ، زبان پر الله تعالیٰ کی عظمت وبڑائی اور اپنے پچھلے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمندگی کے ساتھ استغفار ہو، اپنی کم مائیگی کے اظہار کے ساتھ الله تعالیٰ سے مدد کی درخواست ہو کہ یہی ہماری کام یابی کی بنیاد ہے۔

دوسرا راستہ
حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہمیں اپنے علماء او راکابرین دین سے تعلق مضبوط بنانا چاہیے کہ یہ نبی کے ورثاء ہیں، یہ بینا ہیں ہم نابینا، ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتے رہنا چاہیے، ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر رندگی گزارنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، ان کی کتب اور مواعظ کو غور سے پڑھنا اور سننا چاہیے، ان کی ہر آواز پر لبیک کہنا چاہیے، احکام میں تاویلات نہیں ڈھونڈنی چاہییں۔ ان دو راستوں پر چلنے سے ان شاء الله ہم آخرت کے سوالات کے جواب دینے کے قابل ہوسکیں گے ، الله تعالیٰ مجھے اورآپ کو آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین