سادہ طرز زندگی سادہ طرز معاش!

سادہ طرز زندگی سادہ طرز معاش!

محترم سجاد سعدی

معیشت کا مسئلہ اتنا گمبھیر او رمشکل بن گیا ہے کہ اس کے صحیح حل کا راستہ ماہرین معاشیات کو نظر نہیں آرہا ہے۔ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے، ہر طرف سے آواز سنائی دیتی ہے کہ مہنگائی ہے، معیشت کے وسائل کم ہیں، اس پر اجارہ داروں کا قبضہ ہے۔ معاشی انصاف ختم ہے۔ مادہ پرستی اور مادیت کی دوڑ کا دور ہے، اس نفسا نفسی کے عالم میں غریب لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو معیشت اور معیشت کے تمام وسائل بے رحم افراد کی مضبوط اور آہنی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسے بے رحم اور قومی مجرموں کے منھ سے نوالہ چھیننا یا ان کے ساتھ خوراک میں شریک ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ان غلط معاشی پالیسیوں او رمعاشی ناانصافیوں کے حل کے لیے ماہرین ہمہ وقت تگ ودو میں رہتے ہیں، پھر بھی مسئلہ جوں کا توں ہے۔ لیکن اگر لوگ اسلامی تعلیمات کو اپنائیں تو دیگر مسائل کی طرح اسلام میں اس کا بہترین حل موجود ہے، جس میں کسی خاص اجتماعی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر اسے حل کرسکتا ہے اور وہ ہے سادہ معیشت کے ساتھ سادہ طرزِ زندگی۔ ذیل میں چند معروضات پیش کی جاتی ہیں جن پر عمل درآمد سے فائدہ ہو گا ان شا ء الله۔

تکلفات سے احتراز
سادہ زندگی کے ساتھ تکلف میل نہیں کھاتا ، زندگی کے تمام پہلوؤں میں تکلف کو چھوڑنا ہوگا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: زینت کا چھوڑنا ایمان کے شعبوں میں سے ہے، مومن کی تمام تر توجہ آخرت کی طرف ہوتی ہے۔ یہاں مراد ایسی زینت ہے جس میں توجہ او روقت صرف کیا جائے، ورنہ فی نفسہ اسلام میں زینت اور صفائی مطلوب ہے، اسلام کی مطلوبہ ظاہری طہارت اور موجودہ میک اپ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ آج لوگ نماز پڑھتے نہیں اور صر ف نہانے دھونے میں گھنٹوں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ٹوتھ پیسٹ، غسل، صابن، تیل، کنگھی، بالوں کا ڈرائی کرنا، فل میک اپ، کپڑوں کی استری، لباس کی میچنگ، بوٹوں کی پالش وغیرہ یہ سب ایسے امور ہیں کہ جنہوں نے زندگی میں وقت جیسا قیمتی سرمایہ ضائع کر دیا ہے، اس پر تکلف میک اپ کے ساتھ وضو اور نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر امور میں بھی تکلف کا ترک مطلوب ہے۔

حدیث میں ہے
حضرت عباس رضی الله عنہ نے بلا ضرورت بالا خانہ بنایا تھا تو حضو راکرم صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا اس کومنہدم کردو۔ ایک اور حدیث میں ہے: حضور صلی الله علیہ وسلم ایک بلند قبہ پر گزرے تو پوچھا یہ کس کا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں کا ہے، جب وہ صاحب آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے منھ پھیر لیا۔

ترک تکلف کی ترغیب
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اپنے ہاتھوں کو دھو کر ان میں پانی پیا کرو۔“ اس لیے کہ کوئی برتن ہاتھ سے زیادہ پاکیزہ نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ بھی گلاس کا کام دے سکتے ہیں۔

مباح تفریح
سادہ طرز زندگی او رتکلف سے پاک معاش کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی جائز اور مباح تفریح سے لطف اندوز نہ ہو۔ اس سادہ طرز زندگی کے ساتھ جائز سیر وتفریح کرسکتا ہے۔ آج کل اکثر تفریح گاہیں برائی اور بے حیائی کے اڈے بن چکی ہیں، کوئی سمندر، دریا، پارک، پہاڑی مناظر اور خوب صورت مقام ایسا نہیں ہے جہاں بے حیا لوگوں کا ہجوم نہ ہو، اگر معلوم ہو کہ اس وقت جانے میں مرد وزن کا اختلاط اور بے حیائی کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے تو نہیں جانا چاہیے،جانے سے محتاط رہنا ہی بہتر ہے، ہاں! اگر ایسا وقت ہو کہ جب لوگوں کا ہجوم کم ہو تو پھر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

بخل
سادہ طرز زندگی میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضرور ی ہے کہ کہیں بخل کی حدود کو چھونا شروع نہ کر دیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”میری امت میں فساد کی ابتدا بخل ہے“۔ اسی طرح فرمایا: ”بخیل جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ شریعت نے الله کی راہ میں خرچ کرنے کے جوراستے متعین کیے ہیں ان میں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ مثلاً زکوٰة، حج قربانی یا کسی کا واجب نفقہ جو اس کے ذمہ ہو۔

اظہار نعمت
اگر کسی کو الله تعالیٰ نے مال کی وسعت سے نواز رکھا ہے تو سادہ اسلامی زندگی کے ساتھ، نعمت کے شکرانے کے لیے ،اس کا اظہار بھی کرسکتا ہے، اگر مال داری کے کچھ اثرات بدن پر ظاہر ہوں تو کوئی حرج نہیں، حدیث میں ہے کہ جب حق تعالیٰ کسی بندے کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو بندے پر اس کا اثر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ من جملہ نعمت کا شکرانہ یہ بھی ہے کہ اس کا اظہار کیا جائے، لیکن اس نعمت کے اظہار میں غروروتکبر اور فخر سے بچنا بہت ضروری ہے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کھاؤ، پیو او رپہنو، مگر فخر اورغرور سے بچتے رہو۔

لوگ سادہ معاش کی طر ف کیوں نہیں آتے؟ جو لوگ سادہ زندگی کو پسند نہیں کرتے وہ دنیا کی حقیقت سے بے خبر ہیں، اگر دنیا کی بے ثباتی اورحقیقت کا یقین دلوں میں پختہ ہو جائے تو دنیا میں معمولی عیش کو بھی غنیمت جانیں گے۔ جس طرح بھی زندگی بسر ہو اس پر صبر وشکر کریں گے، مسافر گاڑیوں میں لوگوں کو سفر کرتے ہوئے دیکھیں، کوئی سیٹ پر بس کے اندر بیٹھاہے، کوئی اندر کھڑا ہے، کوئی اس کے گیٹ کے ساتھ لٹکا ہوا ہے تو کوئی بس کی چھت پر بیٹھا ہوا ہے، آرام میں وہ ہے جس کو سیٹ ملی ہے، باقی مسافر سب تکلیف میں ہیں لیکن پھر بھی یہ سفر ان کے روزمرہ کا معمول ہے، اس کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ ظاہر ہے کہ یہ چند کلو میٹر کا سفر ہے، کسی نہ کسی طرح طے ہو جائے گا۔ لوگ اپنے اس روزمرہ کے سفر کو معمولی سمجھ کر روزانہ بس میں اگر جگہ ملے یا نہ ملے خود کو کسی طرح بس میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس اسی طرح دنیاوی سفر کو بھی طے کرنے کے لیے معیشت کی گاڑی میں کسی طرح خود کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے، بندے کو معیشت کی گاڑی میں جس درجہ تک جگہ مل گئی منزل (آخرت) تک پہنچ جائے گا، اب اگر بندہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے سفر کو مختصر سمجھ کر معیشت کی گاڑی کی سادگی والے درجہ میں بیٹھ کر اپنے اس فانی سفر کو طے کرنا شروع کر دے تو اسے آخر ت کے سنورنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔

دنیا کی حقیقت
سادہ زندگی کو اپنانے کے لیے دنیا کی حقیقت کو جاننا چاہیے، ورنہ دنیا کی محبت کے ہوتے ہوئے سادہ معاش کی طرف لوٹنا مشکل ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: تم خوب جان لو کہ ( آخرت کے مقابلہ میں ) دنیوی حیات( ہر گز قابل اشتغال ومقصود نہیں، کیوں کہ ( وہ محض لہو ولعب اور ایک ظاہری) زینت او رباہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ( قوت وجمال اور دنیوی ہنر ومال میں ) اور اموال اور اولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے کو زیادہ بتلانا ہے، یعنی مقاصد دنیا کے یہ ہیں کہ بچپن میں لہو ولعب کا غلبہ رہتا ہے اورجوانی میں زینت وتفاخر کا اور بڑھاپے میں مال ودولت ، آل واولاد کو گنوانا… اور یہ سب مقاصد فانی اورخواب وخیال محض ہیں۔ (بیان القرآن)

اس آیت میں دنیا کی حقیقت کی اتنی بہترین اور واضح منظر کشی ہوئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے، دنیا کی محبت کی وجہ سے مادیت کی دوڑ میں زبردست مقابلہ ہے، لوگ ایک دوسرے سے دنیا کے ہر میدان میں بڑھنا چاہتے ہیں، اس مقابلے کے لیے مال چاہیے او رمال کے لیے ذرائع ضروری ہیں ، مادہ پرست انسان حصول ِ مال کے ذرائع میں جائز او رناجائز کا فرق نہیں کرتا، غریب آدمی مادہ پرستوں کی دوڑ میں شریک ہونا چاہتا ہے، لیکن مجبوراً پیچھے رہ جاتا ہے پھر اس کی زبان پر شکوہ وشکایت ہر وقت جاری رہتی ہے۔

کم معیشت والوں کا علاج
اگر غور کیا جائے تو حقیقت میں بہت کم لوگوں کی معیشت بظاہر تنگ ہوتی ہے، اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی معیشت تنگ ہے، لیکن حقیقت میں تنگ نہیں ہوتی، بلکہ یہ تنگی معیشت خود ان کا اپنا اختیاری فعل ہے، چادر کے مطابق پاؤں نہیں پھیلاتے، غیر ضروری اشیاء کی بھر مار ہے، جوتوں کے کئی جوڑے، کپڑوں کے درجنوں جوڑے، برتنوں کے مختلف سیٹ، ڈیکوریشن پیسز، ہر چیز میں میچنگ اور پھر یہی لوگ تنگی معیشت کو روتے ہیں، ان غیر ضروری اشیاء پر دولت خرچ کرنے کے لیے ان کو کس نے مجبور کیا ہے؟

بندہ تھوڑی دیر کے لیے سوچتا ہے کہ یہ اشیاء غیر ضروری ہیں، اگر نہ ہوں تو کچھ فرق نہیں پڑتا ،پھر فوراً اس کو دوسرے گھرانوں کا خیال آتا ہے کہ ان کے پاس یہ اشیاء سب موجود ہیں او رمیرے پاس نہیں، کیا میں ان سے کم ہوں، میں کیوں ان سے پیچھے رہوں، ان اشیاء کے بغیر جاننے والوں میں کیسے زندگی بسر کروں گا؟ بس پھر انہیں پانے کے لیے وہ جائز وناجائز حدود کا فرق نہیں رکھتا، انہیں خیالات نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے، اسلام نے اس کا علاج بتلایا ہے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”جب آدمی کسی ایسے شخص کی طرف دیکھے جو مال میں یا صورت میں اس سے اعلیٰ ہو تو ایسے شخص کی طرف بھی غور کرے جو ان چیزوں میں اپنے سے کم ہو۔“ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ جو لوگ تنگی معیشت کا رونا روتے ہیں، ان کی غلطی یہ ہے کہ مال میں اپنے سے اعلیٰ کو دیکھتے ہیں، پھر ان کی برابری کا سوچتے ہیں، اسی طرح ان تک پہنچنے کے لیے اپنی زندگی کو عذاب میں ڈال دیتے ہیں، یہ لوگ اگر مال میں اپنے سے کم پر نظر رکھتے تو بات تنگی معیشت تک نہ پہنچتی۔

آسان معاش کے حصول کا طریقہ
٭… اخراجات میں کمی کریں، ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کریں۔ ارشاد ہے جو خرچ میں میانہ روی اختیار کرے وہ فقیر نہیں ہوتا۔

٭… اگر بقدر ِ ضرورت مال میسر ہے تو آئندہ کی فکر نہ کریں۔ ارشاد ہے کہ اپنے اوپر زیادہ غم سوار نہ کریں، جو مقدر ہے وہ مل کر رہے گا،جتنی روزی نصیب میں لکھی ہے وہ مل کر رہے گی۔

٭… معاش میں تو کل بھی ضروری ہے۔ حدیث میں ہے:”اگر تم لوگ الله تعالیٰ پر توکل کرو تو تم کو پرندوں کی طرح رزق دیں گے، جو صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔“

٭…قناعت کے فوائد پر غور کریں، مثلاً قناعت کے ساتھ فضول خرچی ، تکلف اور سوال جیسی مذموم چیزوں سے نجات ملتی ہے اوراستغنا جیسی قیمتی دولت ملتی ہے۔

٭… مال داروں اور دنیاداروں کے انجام پر سوچیں، فرعون، ہامان، قارون، شداد وغیرہ بے دین مال داروں کے انجام پر نظررکھیں۔ اس کے مقابلے میں نیک مسلمان فقراء کے حالات پر غور کریں، خود حضور صلی الله علیہ وسلم نے فقر کو پسند فرمایا ،اگرچہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، لیکن پھر بھی مال داری کو پسند نہیں کیا۔

٭…مال کی زیادتی کے خطرات سوچیں، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے تمہارے اموال اور اولاد فتنہ و آزمائش ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” میری امت کا فتنہ مال ہے۔“ مال کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، ضروری نہیں کہ ہر مال دار گناہ گار بھی ہو، لیکن پھر بھی بعض کبیرہ گناہوں کا تعلق مال کے ساتھ ہے، مثلاً شراب،جوا، زنا، قتل، سود خوری، تکبر، غرور، حسد وعجب ، فخر، حرص، بخل او رلمبی امیدیں وغیرہ وغیرہ، یہ ایسے گناہ ہیں جو اکثر مال والوں میں پائے جاتے ہیں۔ بندہ یہ تصور کرے کہ کہیں مال کی زیادتی کی وجہ سے مذکورہ گناہوں میں مبتلا تو نہ ہو جاؤں گا… لہٰذا موجود سادہ زندگی ان گناہوں والی معاش سے کئی درجے بہتر ہے۔

سب سے بہتر معاش
معیشت کی تنگی دور کرنے کے لیے کوئی کہتا ہے، وسائل ِ معاش بڑھاؤ۔ کوئی کہتا ہے مال داروں سے دولت اور وسائل معاش چھین لو…۔ کوئی کہتا ہے کہ تعلیم اور وسائل معاش میں مساوات پیدا کرو، لیکن آسان، بہتر اور سادہ معاش کی طرف آنے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے، جس میں اجتماعی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نہ کسی سے جنگ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کو ناراض کرنا پڑتا ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین چاہتے تو دنیا میں پُرتکلف زندگی گزار سکتے تھے، لیکن فقر اور زہد والی زندگی کو ترجیح دے کر امت کو سبق دے گئے کہ سادہ معاش اختیار کرکے دونوں جہانوں کی کام یابیاں حاصل کرسکتے ہو۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری اُمّت مسلمہ اسوہٴ حسنہ کو اپناتے ہوئے سادہ طرز زندگی اور سادہ طرز معاش اپنائے۔