زندگی کے پانچ دور

زندگی کے پانچ دور

مولانا محمد یوسف لدھیانوی

میرے بھائیو! یہ دنیا کی زندگی بہت مختصر سا وقفہ ہے، جو تمہیں دیا گیا ہے۔ میں نے گورنر پنجاب کے نام خط لکھا ہے۔ جس میں دنیا کی حقیقت کو ذکر کیا ہے کہ ماں کے پیٹ کا وقفہ، اس کے بعد دنیا کی زندگی کا وقفہ، پھر قبر میں رہنے کا وقفہ، پھر حشر کے میدان کا وقفہ ، پھر اس کے بعد ابدی زندگی جنت یا جہنم۔ یہ پانچ وقفے یا یوں کہو کہ تمہاری زندگی کی پانچ منزلیں ہیں۔ ماں کے پیٹ میں آئے تھے تو چار مہینوں تک تو پہلے پانی کی شکل میں رہے، پھر جمے ہوئے خون کی شکل میں، پھر گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں، پھر بے جان دھڑکی شکل میں رہے، جس کی کوئی قیمت ہی نہیں تھی، چار مہینے بعد روح ڈال دی گئی، اب تم انسان بن گئے، یہاں سے تمہاری زندگی شروع ہوئی ، لیکن ماں کے پیٹ کی یہ زندگی ایسی زندگی تھی کہ عقلاً اس کو زندگی ہی نہیں سمجھتے، کیسی تنگی اورتاریکی کی زندگی تھی؟ لیکن یہ نادان اسی زندگی پر مطمئن تھا، چناں چہ وہاں سے آتے ہوئے بھی یہ رو رہا تھا اور یوں سمجھ رہا تھا کہ میرا جہاں مجھ سے چھین رہے ہیں، میری زندگی مجھ سے چھین رہے ہیں۔

شیخ سعدی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ چیونٹی کے انڈے کے اندر جو بچہ ہے اس کے لیے انڈے کا خول ہی زمین وآسمان ہے اور وہ یوں سمجھتا ہے کہ اس سے بڑا آسمان اور زمین اس دنیا میں ہے ہی نہیں او رنہ ہوسکتا ہے۔ بالکل یہی حال ہمارا یہاں دنیا کی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہوا، ہم نے یہاں آکر زمین وآسمان کو دیکھا تو سمجھ لیا کہ اس سے بڑی دنیا ہو ہی نہیں سکتی، چناں چہ زندگی کے اگلے ادوار، یعنی عالم برزخ، عالم حشر او رجنت ودوزخ کو بھول بھال گئے، انبیائے کرام علیہم السلام نے اوران کے سچے جانشینوں نے ہمیں یاد دلایا کہ اس ”بیضہٴ مور“ (چیونٹی کے انڈے) میں دل نہ لگاؤ، اس زندگی کو زندگی سمجھ کر اگلی زندگی کو نہ بھول جاؤ۔ لیکن ہم نے اس زندگی کی ترقیات کو کمال سمجھ لیا اور جو حضرات اس زندگی سے منھ موڑ کر آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیم دیتے ہیں ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اچھی بات ہے، کھاؤ کماؤ، ملاّؤں کا مذاق اڑاؤ کہ یہ کچھ نہیں کماتے کھاتے، ڈگریاں حاصل نہیں کرتے، دنیا کی ترقیات سے روکتے ہیں۔ بہت جلد تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ ملاّ مذاق اڑانے کے لائق تھے یا تم خود بدولت اس لائق تھے کہ تمہارا مذاق اڑایا جائے؟ شب وروز ہمارے سامنے عبرت کے نمونے ظاہر ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیں عبرت نہیں ہوتی۔

دنیا کی ڈگریوں کا انجام
میرے پاس پرسوں ایک صاحب آئے، کہنے لگے کہ امریکا سے چھ لائشیں آرہی ہیں، تابوتوں کی شکل میں۔ تو کیا ان تابوتوں کو کھول کر دفن کیاجائے یا ایسے ہی یعنی بغیرکھولے دفن کیا جائے؟ میں نے کہا کہ اگر لاشیں کچھ اچھی حالت میں ہوں تو کھول کر دفن کیا جائے؟ او راگر اچھی حالت میں نہیں تو پھر ایسے ہی تابوت سمیت ہی دفن کردی جائیں۔ لیکن لاش کی بے حرمتی نہ کرو۔ وہ کہنے لگے ان چھ میں سے دو لاشیں سگے بھائیوں کی ہیں، ایک بھائی انجینئرنگ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لیے امریکا گیا تھا اور دوسرے نے ”میڈیکل“ کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کر لی تھی۔ اور انگلستان کی حکومت نے اسے وہاں پر ملازمت دے دی تھی۔ (یہ بھائی اس انجینئرنگ کرنے والے بھائی کو ملنے امریکا گیا تھا ) بڑی اونچی تنخواہ تھی، بڑا اونچا عہدہ تھا، بڑی اعلیٰ تعلیم اور بڑی اونچی ڈگری تھی، دونوں بھائی کہیں گھومنے گئے، وہیں ختم ہو گئے:”انا الله وانا الیہ راجعون․“ بس یہی قیمت تھی ان ڈگریوں کی ،جن پر ناز کر رہے تھے؟ اس زندگی کی یہی قیمت تھی جس پر ناز کر رہے ہو؟ اور یہ بے چارے توابھی نوجوان ہی تھے کہ دھر لیے گئے، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کا یہی نقشہ نہیں ہے؟

دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں
کسی کی پچاس سال کی زندگی تھی، کسی کی ساٹھ سال کی، کسی کی اسی سال کی۔ اور ماں کے پیٹ میں وہ پانچ مہینے کی زندگی تھی، اس زندگی کو ذرا اسی سال کی زندگی پر تقسیم کرو تو یہ ماں کے پیٹ والی زندگی اس پچاس، ساٹھ اور اسی سالہ زندگی کے مقابلے میں کتنی مختصر نظر آئے گی؟ او رہم میں سے ہر شخص اس پیٹ والی زندگی کے بارے میں کہے گا کہ بھلا وہ زندگی بھی کوئی زندگی تھی؟ اچھا اب آگے چلیے، یہاں اسی برس گزار کر ہم قبر میں پہنچ گئے، وہاں آدم علیہ الصلوٰة والسلام کے وقت سے آج تک لوگ قبروں میں پڑے ہوئے ہیں او رابھی خدا جانے کب تک پڑے رہیں گے۔ اب اس دنیا کی زندگی کو اس ”قبر کی طویل زندگی“ پر تقسیم کرو تو ہماری یہ دنیا کی زندگی اس برزخی زندگی کے مقابلہ میں کتنی مختصر معلوم ہوگی؟ اور وہ برزخ کی زندگی بھی ، خواہ دنیا کی زندگی کے مقابلہ میں کتنی ہی طویل نظر آئے، لیکن وہ دائمی نہیں۔ بلکہ ایک دن وہ بھی کٹ جائے گی، اس کے بعد ایک دن آنے والا ہے حشر کا، جس کا ایک دن پورے پچاس ہزار سال کا ہے۔ اب برزخ کی زندگی کو (قبر والی زندگی پر ) اس روز حشر کے پچاس ہزار سال پر تقسیم کرو تو برزخ کی زندگی کالعدم نظرآئے گی، پھر اس پچاس ہزار سال والے دن کے بعد اصل زندگی اب شروع ہونے والی ہے، قیامت کا دن ختم ہوگا تو وہ زندگی شروع ہوگی، جو دائمی او رابدی ہے، جس کا کوئی سراہی نہیں ، کوئی انتہاہی نہیں، تمہاری سوچ وفکر سوچتے سوچتے تھک جائے گی لیکن وہ زندگی ختم نہیں ہوگی۔ انبیائے کرام علیہم السلام ہمیں اس زندگی کی دعوت دیتے ہیں، جو لازوال ہے، جو ابدی ہے، جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ اس زندگی کی کام یابی کی دعوت دیتے ہیں اور وہاں کی ناکامی سے ڈراتے ہیں۔ یعنی ان اعمال سے تم وہاں کی زندگی میں کام یاب ہو جاؤ گے او ران اعمال سے تم وہاں ناکام جاؤ گے، یہ حضرات ہمیں اس زندگی کی کام یابی او رناکامی سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں اورہماری اس دنیا کی زندگی کو زندگی نہ سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں، چوں کہ لوگوں کو ان حضرات کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اس لیے کفار کہتے تھے کہ یہ پاگل ہے، مجنون ہے، دیوانہ ہے اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے وقت کی بات تھی، آج تم نے ، ہاں! مسلمان کہلانے والوں نے کہا کہ یہ ملا ہے، یہ صوفی ہے، یہ دور حاضر کے تقاضوں سے بے خبر ہے، اس کو کچھ پتہ نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، یہ صوفی وملّا آج تک بسم الله کے گنبد میں بند ہے، مسجد کے مینڈھے، قل اعوذئیے اور نہ جانے کیا کیا خطاب تم غریب ملّا کے لیے تجویز کرتے ہو، جس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ آج وہی بات کہہ رہا ہے جو اپنے وقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کہتے آئے ہیں۔

دنیا سے آخرت کا توشہ حاصل کرو
تو یہ دنیا میٹھی ہے، سر سبز ہے اور الله تعالیٰ تمہیں یہاں اس لیے لارہے ہیں اور تمہیں پہلوں کا جانشین بنا رہے ہیں کہ تم کچھ عبرت حاصل کرو اور دیکھو کہ یہاں سے کیا توشہ لے کر جارہے ہو؟ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی الله تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا:

”اے ابوذر! توشہ لے لینا! کیوں کہ سفر بہت لمبا ہے اور ذرا بوجھ ہلکا رکھنا، کیوں کہ گھاٹی بڑی دشوار گزار ہے، جس پر چڑھنا ہے۔ کمر پر سارا بوجھ لاد کر چڑھنا پڑے گا۔ قرآن کریم میں ہے۔” اور وہ لادے ہوئے ہوں گے بوجھ اپنی کمروں پر“۔
حضرت ام درداء رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر ابوالدرداء رضی الله تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ کیوں روزی نہیں کماتے، جیسا کہ فلاں شخص کماتا ہے؟ کہنے لگے، میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ:

”تمہارے آگے ایک گھاٹی ہے، بہت دشوار گزار، جن کا بوجھ بھاری ہو گا وہ اس گھاٹی کو عبور نہیں کر سکیں گے“۔ (مشکوٰة)

اس لیے میں اس گھاٹی کی خاطر اپنا بوجھ ذرا ہلکا رکھنا چاہتا ہوں اور حضرت ابو ذر رضی الله تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ:”عمل ذرا خالص لے کر جانا، اس لیے کہ پرکھنے والا بڑا باریک بین ہے“۔

وہاں کھوٹ نہیں چلے گا۔ اس دفعہ دوران طواف آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک دعا بہت یاد آئی اور میں اکثر اسی کو پڑھتا رہا:”واسئلک نفسا بک مطمئنة تؤمن بلقائک، وترضی بقضائک، وتقنع بعطائک․“

ترجمہ:” یا الله! میں آپ سے مانگتا ہوں ایسا نفس جو آپ پر مطمئن ہو جائے، جو آپ کی ملاقات پر ایمان رکھتا ہو اور جو آپ کے قضا اورقدر کے فیصلوں پر راضی ہو او رجو آپ کی عطا پر قناعت کر لے،(کہ جتنا میرے مالک نے دیا ہے وہ میرے لیے بہت کافی ہے۔ بس اس سے زیادہ نہیں چاہیے، بس یہی بہت ہے)“۔