ذکر ِنبی صلی الله علیہ وسلم ، درود شریف اور نزولِ رحمت ِالٰہی

ذکر ِنبی صلی الله علیہ وسلم ، درود شریف اور نزولِ رحمت ِالٰہی

مولانا ندیم احمد انصاری

خلاصہٴ کائنات، فخرِ موجودات، سید المرسلین، خاتم النبیین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کا ذکرِمبارک اور آپ کی خدمت میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کرنا نہ صرف ہمارا فریضہ، بلکہ عین سعادت ہے۔ اس مبارک عمل کی اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ خود باری تعالیٰ اور معصوم فرشتے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔قرآن مجید میں آیا ہے:
﴿إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیّ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا﴾․ (سورہ الاحزاب:56)
ترجمہ:” بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! (تم بھی) پیغمبر پر درود وسلام بھیجتے رہو“۔(سورة الاحزاب)

مقصود اس آیت ِمبارکہ سے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی قدر ومنزلت، عزت اور مرتبت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے، وہ یہ جان لیں کہ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کا ثنا خواں ہے اور اُس کے فرشتے آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ ملأ اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو، تاکہ عالم ِعلوی اور عالم ِسفلی کے لوگوں کا اس پر اجماع ہو جائے۔(تفسیر ابن کثیر)

تمام فکریں اور گناہ دور کرنے کا وظیفہ
درود شریف ایسی اعلیٰ نیکی ہے کہ اگر نوافل میں صرف اسی کا اہتمام کر لیا جائے تو انسان کے لیے کافی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ پر بہ کثرت درود بھیجتا ہوں، لہٰذا اس کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو! میں نے عرض کیا: اپنی عبادت کے وقت کا چوتھا حصہ مقرر کرلوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو کرلو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو کر لو، لیکن اس سے بھی زیادہ کرو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا:دو تہائی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو کر لو،لیکن اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا: تو پھر میں اپنے وظیفے کے پورے وقت میں آپ پر درود پڑھا کروں گا! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے تمہاری تمام فکریں دور ہوجائیں گی اور تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

” عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام فقال: یا أیہا الناس، أذکروا اللہ، اذکروا اللہ، جاء ت الراجفة، تتبعہا الرادفة، جاء الموت بما فیہ، جاء الموت بما فیہ․ قال أبی قلت یا رسول اللہ! إنی أکثر الصلاة علیک فکم أجعل لک من صلاتی؟ فقال ما شئت قال قلت الربع؟ قال ما شئت․ فإن زدت فہو خیر لک․ قلت النصف؟ قال ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک․ قال قلت فالثلثین؟ قال ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک․ قلت أجعل لک صلاتی کلہا․ قال إذا تکفی ہمک، ویغفر لک ذنبک“․(ترمذی)

درود و سلام کی فضیلت
مشہور حدیث ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، اس پر دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، یہ روایت نسائی شریف میں وارد ہوئی ہے۔عبداللہ بن ابوطلحہ سے روایت ہے، ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہٴ انور پر خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ہم لوگوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے چہرہٴ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کر رہے ہیں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا آپ خوش نہیں ہیں کہ جو شخص آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا، میں اُس پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور جو شخص ایک مرتبہ سلام بھیجے گا، میں اُس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا۔

”عن عبد اللہ بن أبي طلحة عن أبیہ: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جاء ذات یوم والبشری فی وجہہ، فقلنا إنا لنری البشری في وجہک․ فقال إنہ أتاني الملک، فقال یا محمد، إن ربک یقول أما یرضیک أنہ لا یصلی علیک أحد إلا صلیت علیہ عشرا ولا یسلم علیک أحد إلا سلمت علیہ عشرا؟ “․ (نسائی)

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا، اُس کے دس گناہ معاف ہوں گے اور دس درجات بلند ہوں گے۔

”حدثنا أنس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلی علی صلاة واحدة صلی اللہ علیہ عشر صلوات، وحطت عنہ عشر خطیئات، ورفعت لہ عشر درجات “․(نسائی)

سو حاجتیں پوری ہوں گی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر دن میں سو مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اُس کی سو حاجتیں پوری فرمائیں گے؛ان میں سے ستر آخرت اور تیس دنیا سے متعلق ہوں گی:”من صلی علی فی یوم مائة مرة قضی اللہ لہ مائة حاجة سبعین منہا لآخرتہ وثلاثین منہا لدنیاہ․عن جابر“․ (کنزالعمال)

فرشتوں کی دعا لینے کا نسخہ
درود شریف پڑھنے والے کو فرشتوں کی بھی دعائیں حاصل ہوتی ہیں۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجے، فرشتے اس کے لیے اُس وقت تک دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے، اب اُسے اختیار ہے زیادہ درود بھیجے یا کم۔

”عن عاصم بن عبید اللہ قال سمعت عبد اللہ بن عامر بن ربیعة عن أبیہ : عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال ما من مسلم یصلی عليَّ إلا صلت علیہ الملائکة ما صلی علي،فلیقل العبد من ذلک أو لیکثر“․ (ابن ماجہ)

علامہ جزری کا مجرّب عمل
سچ تو یہ ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم پر درود کے علاوہ بھی آپ کا ہر نوع کا ذکر خیر و برکات کا باعث اور ہر طرح کی مصیبت وپریشانی اور غم و ہم سے نجات دینے والا ہے۔ اکابر علما اس کا خوب تجربہ اور تصدیق فرما چکے ہیں۔ علامہ محمد بن جزرینے مسنون دعاؤں و اذکار کا مجموعہ’حصنِ حصین‘ مرتب کیا تو اس کے دیباچے میں تحریر فرمایا کہ ”میں نے اس کے انتخاب اور جمع کرنے میں مخلوق کی خیر خواہی کو پورے طور پر صَرف کیا ہے اور صحیح حدیث کی کتابوں سے جمع کیا ہے اور ہر سختی اور مصیبت کے وقت اس دعاؤں کے مجموعے کو مصیبتوں کے مقابلے کا سامان بنا کر پیش کیا ہے اور جن و انس کے شر سے بچنے کے لیے اس کو سند وغیرہ سے الگ کر کے ایک سپر بنایا ہے اور میں خود بھی اس نا گہانی مصیبت سے بچنے کے لیے،جو مجھ پر آئی۔ اس مضبوط قلعے میں قلعہ نشین اور پناہ گزین ہوا ہوں“۔(حصنِ حصین ملخصاً)

بخاری شریف کا ختم
اسی طرح ”ختم ِبخاری شریف“ پردعاؤں کی قبولیت بھی بزرگوں کے یہاں مجرب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دفعِ مصائب وبلیّات کے لیے بخاری شریف ختم کرکے جو دعائیں مانگی جاتی ہیں اس کا قرآن وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں، اس لیے یہ بدعت ہے، جب کہ دفعِ مصائب کے لیے جو ختم کیا جاتا ہے۔ مثلاً سوالاکھ مرتبہ کلمہٴ طیبہ یا آیت الکرسی کا پڑھنا یا بخاری شریف کا ختم کرکے دعا مانگنا۔ یہ بہ طور علاج ہے، اس کے لیے قرآن وحدیث سے ثبوت ضروری نہیں ہے، جیسے حکیم نسخے میں لکھتے ہیں: ’عُناب 5دانہ، بادام 7 دانہ‘ کہ تجربات سے ثابت ہیں،اس کے لیے قرآن وحدیث سے ثبوت طلب کرنا بے محل ہے اور جب اِس ختم کی شان مُعالَجے کی ہے، تعبُّد وعبادت کی نہیں تو یہ بدعت نہیں، بلکہ اس کو بدعت کی حد میں لانا بدعت ہے، بالخصوص جب کہ اس کی اصل بھی موجود ہے کہ ذکرِ خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اور بخاری شریف کے کلماتِ خیر پر مشتمل ہونے میں کس کو شبہ ہے، لہٰذا دفعِ مصائب وبلیّات کے لیے بخاری شریف کا ختم کرکے دعائیں مانگنا درست ہے۔(فتاویٰ محمودیہ )

مختصر یہ کہ مصیبت میں بخاری شریف کا ختم کرنا قرون بالخیر میں نہیں تھا، مگر متاخرین علما نے اس کو جائز کہا ہے۔ (فتاویٰ حقانیہ)فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی تحریر فرماتے ہیں کہ”قرونِ ثلاثہ میں بخاری شریف تالیف (ہی) نہیں ہوئی تھی(تو ختم کا ثبوت کیسے ہوگا؟!)، مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکرِ خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کا اصل شرع سے ثابت ہے، بدعت نہیں“۔ (تالیفاتِ رشیدیہ)

حضرت تھانوی کا تجربہ
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ’نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی الله علیہ وسلم“ کے نام سے خلاصہٴ کائنات صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ تالیف فرمائی تو وجہِ تالیف یہ بیان کی کہ”آج کل فتنِ ظاہری، جیسے طاعون اور زلزلہ و گرانی و تشویشاتِ مختلفہ کے حوادث سے عام لوگ اور فتنِ باطنی جیسے شیوعِ بدعات و الحاد و کثرتِ فسق و فجور سے خاص لوگ پریشانِ خاطر اور مشوِش رہتے ہیں، ایسے آفات کے اوقات میں علماے امت ہمیشہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تلاوتِ احادیث و تالیفِ روایات اور نظمِ مدائح و معجزات اور تکثیرِ سلام و صلوٰة سے توسّل کرتے رہے ہیں، چناں چہ ”بخاری شریف کے ختم“ کا معمول اور ”حصنِ حصین“کی تالیف اورقصیدہ(بُردہ) کی تصنیف کی وجہ مشہور و معروف ہے…،اسی وجہ سے احقر آج کل درود شریف کی کثرت کو اور وظائف سے ترجیح دیتا ہے اور اس کو اطمینان کے ساتھ مقاصد ِدارین کے لیے زیادہ نافع سمجھتا ہے اور اس کے متعلق ایک علمِ عظیم کہ اب تک مخفی تھا ذوقی طور پر ظاہر ہوا ہے۔ ابتداے رسالہ سے اس وقت تک یہ قصبہ ہر بلا سے محفوظ ہے۔ بالخصوص امسال تمام بلاد و امصار و قری میں طاعون کا اشتداد اور امتداد رہا، اکثر جگہ رمضان کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس وقت تک کہ ساتواں مہینہ ہے، امن نہیں ہوا، مگر بفضلہ تعالیٰ یہاں خود کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔ میرا یقین پہلے تھا کہ یہاں طاعون نہ ہوگا، اب بعد مشاہدے کے ظاہر کرتا ہوں کہ وہ خیال میرا کہ اس کی یہ برکت ہوگی، صحیح ہوا“۔(نشر الطیب)

مذکورہ بالا تفصیلات و تصریحات اور اکابر علما کے تجربات کی روشنی میں عرض ہے کہ اس وقت پوری عالمِ انسانیت عموماً اور امت ِمسلمہ خصوصاً جن مشکل حالات سے دو چار ہے، ایسے میں اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے اور حضورصلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور آپ پر درود شریف کا خصوصی اہتمام لازم پکڑنا چاہیے۔ ظاہری اسباب کے ساتھ باطنی اسباب کا اختیار کرنا لازم اور ضروری ہے۔