دینی غیرت وحمیت کی اہمیت اور اس کے تقاضے

دینی غیرت وحمیت کی اہمیت اور اس کے تقاضے

مفتی عبید الرحمن

اپنی کسی حق تلفی کو دیکھ کر دکھ وافسوس ہونے، اس کی وجہ سے جوش مارنے اور پھر اس کے مطابق کارروائی کرنے کو عموماً ”غیرت“ کہاجاتا ہے، اس کا منشا وباعث کبھی تو کوئی دنیوی بات ہوتی ہے، مثلاً اپنی طبیعت ومزاج یا دنیوی غرض ومفاد کے خلاف کسی بات کو دیکھ کر غصہ آنا، اپنے خاندانی یا قومی عزت ودبدبہ کی وجہ سے کسی بات پر غیرت کرنا، جب کہ بسا اوقات اس کا باعث دینی جذبہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور شریعتِ اسلامیہ کے خلاف کوئی اقدام دیکھ کر غیرت وحمیت کا ثبوت دیا جائے، غیرت کی پہلی قسم کبھی جائز ہوتی ہے اور کبھی ناجائز اور جواز کی صورت میں بھی کبھی اس کا مظاہرہ کرنا بہتر ہوتا ہے، کبھی صبر وبرداشت سے کام لینامناسب ہوتا ہے ،بعض اوقات اس کا مظاہرہ کرنا لازم بھی ہوسکتا ہے۔

اجمالی طور پر اتنا کہاجاسکتا ہے کہ اپنے کسی واقعی جائز حق کے بچانے یا اس کو وصول کرنے کے لیے غیرت وحمیت کا مظاہرہ کیاجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ کبھی اس کا کرنا ضروری بھی بن جاتا ہے چناں چہ اپنی بیوی یا محارم کی عزت وحجاب لوٹنے کا خدشہ ہو تو وہاں اپنی حد تک غیرت کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اور ناحق غیرت کا مظاہرہ کرنا یا غیرت تو کسی حق اور جائز بات کی بنیاد پر ہو، لیکن اس میں شرعی حدود سے تجاوز کرلیاجائے توغیرت کی یہ قسم ناجائز اور گناہ بن جاتی ہے،جن نصوص میں غیرت کی مذمت کی گئی ہے وہ اسی پر محمول ہیں،جس کی مزید تفصیلات حدیث وفقہ کی کتابوں سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔

یہاں اسی دینی غیرت وحمیت کے متعلق کچھ بے ربط باتیں کرنی مقصود ہیں، دینی غیرت سے مراد یہ ہے کہ غیرت کرنے کی بنیاد کوئی دینی حکم ہو، مثلاً خدا کی زمین پر خدا کی کوئی نافرمانی دیکھ کر غیرت آجائے اور حدود کے اندر رہتے ہوئے اس کا سدّ باب کیاجائے، شریعت کی حدود واحکام کو پامال ہوتے دیکھ کرحمیت آجائے اور اس کی وجہ سے غیظ وغضب یا دکھ درد کی دولت نصیب ہوجائے اور اسی جذبہ کے تحت شرعی بالا دستی کی کوشش کی جائے، شرعی فرائض وواجبات میں کو تاہی دیکھی جائے تو دل میں غم وافسوس کی کیفیت پیدا ہوجائے اور اسی کے نتیجہ میں فرائض کو قائم کروانے کی بھر پور محنت کی جائے، غرض یہ اور ان جیسے مواقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ، شریعت سے روگردانی کی وجہ سے غیرت آجائے یا شرعی احکام وذمہ داریوں میں کوتاہی وغفلت کا مشاہدہ کرنا اس کا باعث ہو، یہ دینی غیرت کہلاتی ہے۔

غیرت کی یہ قسم حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم،بلکہ تقریباً تمام حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی ایک مستقل سنت ہے ، یہ حضرات اپنی بلند صفات، مخلوق ِ خدا کے ساتھ نرمی وشفقت اور دیگر اعلیٰ اخلاق سے باوصف ہوکر بھی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے دیے ہوئے احکام کے متعلق اتنے غیور تھے کہ اپنے سامنے اللہ تعالیٰ کی حدود واحکام کا پامال ہوتے دیکھنا برداشت نہیں ہوتا تھا ، اگر کوئی مخاطب ا ن کے سامنے ایسی جرأت کرتا بھی،تو یہ حضرات ضرور اس کو ختم کرنے کی سعی بلیغ فرماتے تھے اور اس راستہ میں دعوت دین کی درجہ بندی اور حکمت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر، وقت وماحول کے مطابق مناسب اقدام فرماتے تھے ، لیکن ایسا کبھی نہیں ہو ا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی وعظمت کے مقابلے میں کسی انسان کے ڈراؤ ودھمکاؤ ، مجرمانہ غفلت وخاموشی یا حرص ولالچ کے سراب میں آکر خدا کی شریعت کو پامال کیا ہو یا کہیں اس پامالی کی تحریک میں شرکت کی ہو یا استطاعت کے باوجود اس پر کسی غیر دینی مصلحت کی وجہ سے خاموشی کا جامہ پہنا ہو… شاید یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کو ایمان کے شعبوں میں سے ایک مستقل شعبہ کے طور پر شمار فرمایا اور اپنی کتاب”شعب الایمان“میں72 نمبر پر اس کو ذکر فرمایا ہے۔(شعب الایمان:13/263)

حضرت لوط علیہ الصلاة والسلام کا واقعہ قرآن کریم میں متعدد جگہ مذکو ر ہے کہ جب حسین لڑکوں کی شکل میں کچھ فرشتے ان کے پاس حاضر ہوئے اور بد باطن قوم نے آکر تنگ کرنا شروع کیا، جب کہ اسباب کی حد تک آپ علیہ السلام کے پاس اقدام یا دفاع کے لیے درکار طاقت موجود نہ تھی، لیکن تب بھی آپ نے قوم کے اس ناجائز مطالبہ کی خوب خوب تردید فرمائی اور ساتھ یہ تمنا بھی فرمائی کہ اگر میرے پاس اتنی طاقت ہوتی تو میں ان ناجائز معاملات کو ہوتے نہ دیکھتا۔

بخاری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادة رضي الله عنه نے ایک موقع پر کچھ عرض کیا ، تو حضورصلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”أتعجبون من غیرة سعد؟ واللہ لأنا أغیر منہ، واللہ أغیر منی، ومن أجل غیرة اللہ حرم الفواحش، ما ظہر منہا وما بطن“․(صحیح البخاری ، رقم الحدیث:7416)

ترجمہ:”کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟خدا کی قسم! میں ضرور اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی غیرت ہی کی وجہ سے ظاہری وباطنی بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ دینی غیرت کی صفت اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ثابت ہے اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے بھی۔

امام احمد بن حنبل  علامہ حلیمی  سے نقل کرتے ہیں:”(جس غیرت کی مدح کی گئی ہے اس میں)دین پر غیرت کرنا بھی داخل ہے، چناں چہ اگر دین کے معاملہ میں اختلاف کرنے والے کسی شخص کو دین ِاسلام پر تنقید کرتے سن لے تو سکون سے نہ بیٹھے اور چشم پوشی نہ کرے،اسی غیرت کے باب میں سے جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے…“ (شعب الایمان:13/263)

یہی دینی غیرت حضورنبی کریم صلی الله علیہ وسلمکی حیاتِ طیبہ میں اس قدر نمایاں تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی سے اعتنا رکھنے والے محدثین کرام اس پر باب باندھتے ہیں اور اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایسی ہی عاداتِ مبارکہ کا ذکر کرتے ہیں ،مثلاً امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی مفید عام کتاب”ریاض الصٰلحین“میں ایک عنوان باندھا:”باب الغضب إذا انتہکت حرمات الشرع والانتصار لدین اللہ تعالی(ریاض الصالحین، ص220، الرسالة) یعنی”یہ باب شریعت کی بے حرمتی دیکھ کر غصہ ہونے اور دین ِاسلام کے لیے انتقام لینے کے بیان میں ہے“اور اس میں چند روایات ذکر فرمائی ہیں، جواختصار کے ساتھ مفہوماًپیش ِخدمت ہیں:

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر حضور صلی الله علیہ وسلم سے شکایت کی کہ فلاں شخص کے طویل نماز پڑھانے کی وجہ سے میں جماعت سے رہ جاتا ہوں ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے سخت غصہ ہوئے کہ میں نے کبھی کسی وعظ میں اتنا غصہ ہوتے نہیں دیکھا تھا ،پھر فرمایا کہ”اے لوگو!بے شک تم میں سے بعض لوگ متنفر کرنے والے ہیں، لہٰذا جو بھی تم میں سے کسی کو امامت کرائے تو اختصار سے نماز پڑھائے، کیوں کہ اس کے پیچھے بڑے، چھوٹے اور ضرورت مند (بھی) کھڑے ہوتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ایک سفر سے تشریف لائے، جب کہ میں نے اپنے ایک چبوترے پر کپڑا ڈال رکھا تھا، جس پر کچھ تصویریں تھیں،جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو اس کو بگاڑ دیا، چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیااور ارشاد فرمایا:”اے عائشہ!قیامت کے دن لوگوں میں اللہ کے ہاں زیادہ عذاب والے وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔“ (بخاری ومسلم)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو حد سرقہ سے بچانے کی خاطر آپ صلی الله علیہ وسلمسے سفارش کی تھی ،جس پر حضورصلی الله علیہ وسلمنے،شفقت ومحبت کے باوجود ، بڑی ڈانٹ پلائی اور پھر خطبہ میں بھی ان جیسی سفارشات کی خوب خوب مذمت فرمائی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نے قبلہ والی دیوار میں کچھ تھوک دیکھا،ناراضگی کے اثرات آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر نمایاں ہونے لگے،پھر آپ صلی الله علیہ وسلمکھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ(مبارک)سے اس کو کھرچ دیا ،اس کے بعد فرمایا کہ: اے لوگو!بے شک ! جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اوراس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان میں ہے ،اس لیے تم میں سے کوئی بھی ہرگز قبلہ کی جانب نہ تھوکے۔“

یہ ایک مختصر سانمونہ ہے آپ صلی الله علیہ وسلمکی دینی غیرت اور حمیت کا، ورنہ نبی اکرمصلی الله علیہ وسلم کی پوری زندگی اس کی جیتی جاگتی تصویر اور آپصلی الله علیہ وسلم کی ذات عالیہ اس کا چلتا پھرتا حسین نمونہ تھا، چناں چہ دیکھنے والے آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول بیان کرتے ہیں کہ اگرکوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو تکلیف واذیت دیتا یا آپ صلی الله علیہ وسلم کا شخصی ، جانی یا مالی نقصان کرتا توآپ صلی الله علیہ وسلم بڑے صبر وتحمل اور پوری خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو برداشت کرلیتے تھے، لیکن جہاں کہیں کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا اور شرعی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کرتا وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی غیرت وغضب قابل ِدید ہوجاتی اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت یوں ہی سکوت اختیار نہ فرماتے ،بلکہ نافرمانی کے ختم ہونے تک درد وغم اور زجر وتوبیخ برابر برقرار رہتی ، علمِ اصول فقہ کے علماء نے اسی وجہ سے آپ کی تقریر کو بھی سنت کا درجہ دے کر ایک مستقل حجت ٹھہرایا ہے، کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرمصلی الله علیہ وسلم کے سامنے کوئی خداکی نافرمانی کرے،شریعت کی حدود کو پامال کرڈالے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس پر خاموشی اختیار فرمائیں، بلکہ ضرور اس پر نکیر فرماتے تھے۔

غیرتِ صدیقی
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کا بھی یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ دینی غیرت وحمیت کے جذبات سے سرشار تھے ،دینی احکام کی نافرمانی یا دین دشمنی دیکھتے وقت بڑی غیرت کامظاہرہ کرتے تھے اور جب تک اس کوختم نہ کرتے یا اس میں اپنی بھر پور طاقت استعمال نہ فرماتے،اس وقت تک چین کا سانس نہ لیتے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں بعض علاقوں میں ارتداد کی لہر دوڑی ،جس کا آپ رضی اللہ عنہ نے بروقت اور بالکل صحیح ادراک فرمایا، لیکن اس وقت بعض صحابہ کرام نے سخت اقدام کرنے کو مصلحت کے خلاف خیال فرمایا، اس وقت آپ نے ایک ایسا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور قیامت تک کے مسلمانوں کے دینی جذبات اور ایمانی غیرت کی آبیاری وشادابی کے لیے کافی ہے،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:”أینقص الدّین وأنا حیّ؟“کیا میرے زندہ رہتے ہوئے دین میں کمی کی جائی گی؟

ہمارا المیہ
دور ِحاضر کی الم ناک اور بنیادی خرابیوں میں سے ایک عنصر یہ بھی ہے کہ اب دینی غیرت وحمیت کامزاج ومذاق باقی نہ رہا، مادیت پرستی کے عروج وکمال کی وجہ سے اپنے چھوٹے سے چھوٹے حق کے بارے میں تگ ودو کرنا، اس کام کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانا ، ہر ایرے غیرے سے تعلقات استوار کرنا یا ختم کرنا،روز مرّہ کا مشاہدہ اور معمول بن چکا ہے ، لیکن حق تعالیٰ کے حقوق کو زندہ کرنااور ان کی نافرمانیوں ومعاصی کو مٹانے کی فکر کرنا، رائج گم راہیوں کی تردید کرنا،اب نہ صرف یہ کہ عملی سطح پر اس کااہتمام نہیں ہوتا ،بلکہ نظریاتی طور پر بھی اس کو کچھ اچھا گوارا نہیں کیاجاتا،بلکہ اس کو بداخلاقی، عدمِ برداشت، مزاج کی تیزی وغیرہ طعنوں سے یا د کیاجاتا ہے، کوئی خدا کا وفادار بندہ اس کا التزام کرے بھی ،تو قدم قدم پر اس کو حوصلہ شکنی کے اسباب سے واسطہ پڑتا رہتا ہے اپنے ہوں یا اغیار، ہر طرف سے تنقید وملامت کے تیر برسنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب سطح زمین اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور شریعت کی خلاف ورزیوں سے بھر چکی ہے، بلکہ زمین تو زمین ،خلا وفضا بھی ناجائز سلکی لہروں سے معمور ہوچکی ہے۔

اعتقادی منکرات کے ختم کرنے کی اہمیت
پھرعملی معاصی کی بنسبت اعتقادی اور نظریاتی نوعیت کی غلطیاں اور منکرات زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ،چناں چہ نظریہ اور اعتقاد کی ایک ایک غلطی بسا اوقات سینکڑوں عملی منکرات کا سر چشمہ ثابت ہوجاتی ہے، کیوں کہ اعمال وافعال تو اعتقادات ونظریات ہی سے جنم لیتے ہیں،اسی طرح عملی غلطی کی وجہ سے کوئی اسلام کی حدود پار نہیں کرجاتا ،گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار اور فاسق وفاجر کیوں نہ بنے، لیکن بہرحال ہوتا وہ مسلمان ہی ہے، جب کہ اعتقادی معاصی بسا اوقات کفر کی دہلیز تک بھی لے جاتے ہیں،عملی معاصی کی وجہ سے امت میں تفریق وفرقہ بندی کی نوبت نہیں آتی جبکہ اعتقادی گم راہیوں کی بڑی نحوست یہی ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے امت کی اجتماعیت بکھر جاتی ہے اور علماء وصالحین سے تنفر کا تسلسل شروع ہوجاتا ہے ،جو بجائے خود بیش بہا معاصی وگم راہیوں کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس لیے امّت میں موجود غلط اعتقادات ونظریات کی تردید کرنا اور امت ِمرحومہ کے افراد کو ان سے بچائے رکھنا دینی غیرت وحمیت کا بڑا تقاضا ہے۔

ماضی وحال کے فتنوں کا فرق
یہ امر بھی حقیقت ِواقعہ ہے کہ ماضی کے مقابلہ میں موجودہ زمانے کے فتنوں کی پہچان و تعاقب کرنا بڑا مختلف ہے،پہلے جن اسباب کے نتیجہ میں فتنے جنم لیتے تھے،آج کا پیدا ہونے والا فتنہ عموماً ان اسباب کی پیدا وار نہیں ہے،وہاں کسی گم راہی کو پھیلانے اور مسلمانوں کو اس کے اندر پھنسانے کے لیے عمر نوح اور صبر ایوب جیسے طویل اور صبر آزما مرحلے سر کرنے پڑتے تھے، جب کہ آج!خلافت کے سائے سے محرومی،میڈیا کے ناسور اور عالمی کفریہ طاقتوں کی کوششوں سے امتِ مرحومہ کی صورتِ حال برعکس ہے، اب کسی کے لیے امت کو گم راہ کرنے اور راہ ِحق سے ہٹانے کے لیے کچھ زیادہ کدّ وکاوش کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ کسی کی طبیعت میں مسلمانوں کی وحدت ختم کرنے اور ان کو گم راہی پر ڈالنے کی کچھ بھی قابلیت ورجحان ہو تو اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک جمِ غفیر کو راہ حق سے دور کرنے میں اس کو کام یاب دکھایا جاتا ہے،چناں چہ یہ مبالغہ نہیں بلکہ مشاہدہ ہے کہ موجودہ بعض گم راہیوں میں بہت سے فتنوں کی ابتدا اسی طرح ہوئی۔

ہمارے یہاں عمومی مزاج یہ بنا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ دین داری اور اس کی نشر واشاعت کا کچھ ذوق نصیب فرماتا ہے اور واقعتا وہ دل سے منکرات کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہتے بھی ہیں، وہ اعتقادی منکرات کو کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے، بلکہ اب تو صورتِ حال یہ بن رہی ہے یا بنائی جارہی ہے کہ جو لوگ اعتقادی منکرات کا مؤاخذہ کرتے ہیں ان کو فرقہ پرست،شرپسند وغیرہ القابات سے نوازا جاتا ہے اور اہلِ علم کی جانب سے بھی بعض اوقات ان کو بے توجہی اور حوصلہ شکنی کاسامنا کرنا پڑتا ہے ،بے حسی اور بے توجہی ہی کا مظہر ہے کہ ہمارے یہاں اس کام کی تربیت حاصل کرنے کے لیے کوئی مستقل اور تسلی بخش نظام موجود نہیں ہے، جو شخصیات، ادارے اپنے طور پر بھی اس کام پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ، ان کو بھی کچھ زیادہ اپنائیت اور قدر دانی کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، جس کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ روز بروز اعتقادات کی گم راہیوں کا امڈتا ہوا ایک سیلاب ہے، جس میں بہت سے نیک اور مخلص قسم کے لوگ بہتے جاتے ہیں،مثال کے طور پر ایک الحاد اور تجدّد ہی کو لے لیجیے کہ ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں افراد اس دامِ تزویر میں شعوری یا لا شعوری طور پر پھنس چکے ہیں، حالاں کہ شروع شروع میں امت کے درمیان یہ فتنہ بڑے معصومانہ انداز سے درآمد کیاگیا تھا۔ لیکن اس سیلاب کی روک تھام کے لیے دیوار باندھنے والے اور امت کے سرمایہ کو اس میں غرق یاب ہونے سے بچانے کی فکر کرنے والے بہت کم ہیں ۔

اگر حالیہ فتنوں، گم راہیوں اور اس کے محرکینکے ساتھ ان لوگوں کا موازنہ کیاجائے جو ان گم راہیوں سے امت کو بچانے کی فکر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور پھر ساتھ دونوں فریق کے اسباب ووسائل اور دونوں کی مساعی وکوششوں کا موازنہ کیا جائے تو یہی بات دکھائی دیتی ہے کہ ضلال وگم راہی کی بنسبت حق وہدایت کے لیے خلو ص وجدو جہد کے ساتھ کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، جب کہ عصر حاضر میں گم راہی کے اسباب وذرائع میں کئی گنا کا اضافہ بھی ہوچکا ہے،اس بات کو دیکھ کر یہ یقین مزیدپختہ ہو جاتاہے کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، یہاں ہدایت ونیکی کے پھیلانے کے لیے صرف ہدایت پر ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ہدایت ہو یاگم راہی، جو اسباب جس درجہ میں بروئے کار لائے جاتے ہیں اسی کے مطابق اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔

پس چہ باید کرد…لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی غیرت کی اس مٹی ہوئی سنت کو پھرسے زندہ کیاجائے اور صرف ظاہری اعمال واحوال ہی میں نہیں ،بلکہ اعتقادی ونظریاتی حدود تک اس کے دائرہ کار کو بڑھایاجائے اور ہر نئے پھوٹنے والے فتنہ سے امت کو بر وقت آگاہ کردیا جائے، تاکہ ظاہری اسباب کی حد تک کسی گم راہی کو امت کے درمیان جمنے اور ٹکنے کا موقع ہی نہ ملے ،ورنہ تو روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک مرتبہ شکاری کے جال میں پھنسنے کے بعد اس کو نکال لینا ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ بن جاتا ہے، جس کا نتیجہ عموماً مایوسی اور ناکامی کی شکل میں ملتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ نہایت مشکل اور کٹھن اقدام ہے، جس میں ذرا بھر غلطی کرنا بھی بڑے خسارے ونقصان کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے اس کام کے لیے بڑے صبر وتحمل،وسیع علم وفضل، گہرے فکر ونظر اور تعلق مع اللہ کی ضرورت ہے۔

رہبران ِامت کی ذمہ داری اس بات کا انتظام کیے بغیر پوری معلوم نہیں ہوتی کہ درجِ بالا صفات سے متصف کچھ افراد کو اس کام کے لیے وقف رکھاجائے جو نبوی طریقہ دعوت ومناظرہ سے بھی واقف ہوں اور عملی طور پربھی اس کی تربیت لے چکے ہوں اور پھر ان کو اس حد تک فارغ رکھاجائے کہ اپنے تن من دھن سب کو اس اہم کام کے لیے مختص کرسکیں۔ بات یہ ہے کہ جس طرح امت کی جغرافیائی سرحدات کی حفاظت ضروری ہے اور عملی طور پر اس کام کے لیے اَن گنت افراد کو مختص رکھاجاتا ہے کہ قومی بجٹ کا زیادہ تر حصہ اسی پر صرف کیاجاتا ہے اور اس کو اپنی ہوشیاری اور فخر وناز کا ذریعہ خیال کیاجاتا ہے،یوں ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ اہم چیز امت کی نظریاتی سرحدات کی حفاظت ہے، کیوں کہ دین وملت در اصل نام ہی انہی نظریات واعتقادات کا ہے، اسی پر دین ِاسلام کی عمارت استوار ہے، لہٰذا اس میدان میں کوئی رخنہ پڑے یا شگاف پیدا ہوجائے تو اس سے براہ راست اسلام کا قلعہ متاثر ہوگا،دینی غیرت وحمیت کایہی مقتضی ہے کہ دینی مفاد ات وانتظامات کو ہر مفاد وانتظام پر مقدم رکھا جائے، اگر کسی کو صحیح معنیٰ میں یہ دردِ دین نصیب ہوتا ہے تو اس کے لیے کام کرنے کا نہج ،طریقہ کار اور اس کام کے اصول ومبادی وغیرہ چیزیں خود واضح ہوجاتی ہیں ، چناں چہ مشہور ہے:

محبت خود سکھادیتی ہے آدابِ محبت
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دردِ دین کا جذبہ صادقہ اور پھر خلوص واستقامت کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔