دنیا کی طلب اور آخرت کی فکر!

دنیا کی طلب اور آخرت کی فکر!

محترم محمد وقاص رفیع

دنیاکی زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے بہر حال ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والی ہے اور اس کا مال ومتاع چاہے کتنا ہی زیادہ ہوجائے، بہر حال ایک دن چھوٹنے والا ہے ، موت سے چھوٹ جائے یا ضائع ہوجانے سے، لیکن اسے چھوٹنا لازمی ہے۔ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والی اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو، حالاں کہ آخرت ( کی زندگی) کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔(سورة الاعلیٰ)بلاشبہ آخرت کی زندگی کی نعمتیں ، اس کی جوانی، اس کے مزے، اس کی خوب صورتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

اس کے بر عکس دنیا کی زندگی، اس کی نعمتیں، اس کی جوانی، اس کی خوب صورتی اور اس کے مزے صرف ایک محدود اور معین مدت تک کے لیے ہیں اور پھر انہیں یکسر ختم ہوجانا ہے۔ پس خوش نصیب اور عقل مند ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر دنیا کی فانی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو آخرت کی لازوال وبے مثال زندگی پر ہمیشہ ترجیح دیتا رہے اور اس دار فانی کی تعمیر وتزئین کی بجائے دار بقاء کی تعمیر وتزئین کی فکر میں ہردم لگا رہتا ہے۔ چناں چہ حدیث میں آتا ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” جو شخص دنیا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو شخص اپنی آخرت سے محبت رکھتا ہے وہ ( بظاہر صورت) اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے ۔(پس جب یہ ضابطہ ہے تو ) جو چیز ہمیشہ رہنے والی( یعنی آخرت) ہے اس کو ترجیح دو اس چیز (دنیا) پر جو بہر حال فنا ہونے والی ہے۔“(مشکوٰة المصابیح) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:” ہم لوگ ایک مرتبہحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ رضی الله عنہ نے کچھ پینے کو مانگا تو شہد کا شربت خدمت میں پیش کیا گیا، اس کومنھ کے قریب فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ پاس بیٹھنے والے بھی اس سے متاثر ہو کر رونے لگے اور خوب روئے، اس کے بعد پھر دوبارہ اس کو منھ کے قریب کیا اور پھر رونے لگے ، اس کے بعد اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھے اور ارشاد فرمایا کہ: ”میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو دفع فرمارہے ہیں اور کوئی چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھے نظر نہ آئی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ:” حضور! کس چیز کو آپ اپنے سے ہٹارہے ہیں؟ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”دنیا میرے سامنے حاضر ہوئی تھی، میں نے اس کو اپنے سے ہٹایا ، اس کے بعد پھر وہ دوبارہ میرے پاس آئی اور آکر مجھ سے کہنے لگی کہ اگر آپ مجھ سے بچ گئے تو( کچھ قلق اور افسوس کی بات نہیں ،اس لیے کہ) آپ کے بعد آپ کی آنے والی امت مجھ سے ہرگز نہیں بچ سکتی“۔ (مستدرک حاکم) ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ”دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا (آخرت میں کوئی ) گھر نہیں اور دنیا اس شخص کا مال ہے جس کا (آخرت میں کوئی) مال نہیں اور دنیا کے لیے وہ شخص مال جمع کرتا ہے جس کو بالکل عقل نہیں ہوتی۔“ (درمنثور)

حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:” اگر دنیا مجھے سارے کی ساری مل جائے اور مجھ سے اس کا حساب بھی نہ لیا جائے تب بھی میں اس سے ایسی گھن اور کراہت کروں جیسی کہ تم لوگ مردار جانور سے کرتے ہو کہ کہیں کپڑے کو نہ لگ جائے۔“ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:” دنیا کی محبت نے اور گناہوں نے دلوں کو وحشی بنا رکھا ہے ، اس لیے خیر کی بات دلوں تک پہنچتی نہیں اور نہ ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ “ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد حضرت موسی علیہ السلام سے ہے کہ:” جب تم وسعت کو آتے دیکھو تو سمجھو کہ کسی گناہ کی سزامیں یہ آرہی ہے اور جب فقر وفاقہ کو آتے دیکھو تو کہو کہ صالحین کا شعار آرہا ہے۔ اگر کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اتباع کرنا چاہتا ہے تو ان کا ارشاد یہ ہے کہ :” میرا سالن بھو ک ہے۔ میراشعار اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ میرا لباس ”صوف“ (بھیڑ بکری کے بال اور اون)ہے۔ میرا سردی میں سینکنا دھوپ ہے۔ میرا چراغ چاند کی روشنی ہے، میری سواری میرے پاوٴں ہیں۔ میرا کھانا اورمیوے زمین کی گھاس ہے۔ میں صبح اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا اور شام اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا اور ساری دنیا میں مجھ سے زیادہ غنی وبے پروا کوئی شخص بھی نہیں، جو کسی دوسرے کا محتاج ہو۔“(فضائل صدقات)

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ: ”ہر امت کے لیے کوئی بچھڑا ( گاوٴ ما تا وغیرہ) ہوتا ہے، جس کی پر ستش کرتے ہیں، میری امت کا بچھڑا روپیہ اور اشرفی (بلکہ آج کل کی زبان میں اشرفی کی جگہ اگر ڈالر ، یورو اور ریال وغیرہ کرنسیوں کا نام لیا جائے تو یقینا بے جا نہ ہوگا ) ہے (کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاوٴ کرتے ہیں جیسا کہ پرستش کا ہوتا ہے)اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا بچھڑا بھی تو سونے چاندی کا زیور ہی تھا۔“ (احیاء العلوم) حضرت ضحاک بن قیس رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛”جو شخص بازار جائے اور کسی چیز کو دیکھ کر اس کے خریدنے کی رغبت ہو اور ناداری کی وجہ سے (اس کو خرید نہ سکے بلکہ) اس پر صبر کرے تو اس کا یہ عمل ایک ہزار اشرفیاں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے افضل ہے“۔(فضائل صدقات)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی لخت جگر حضرت ام ولید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ”ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت اندر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ :” تم لوگوں کو شرم نہیں آتی؟ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:” یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)کیا بات ہوئی؟ “حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اتنی مقدار جمع کرتے ہو جتنا کھاتے نہیں ہو اور ایسی ایسی امیدیں باندھ لیتے ہو جن کو پورا نہیں کرسکتے، کیا ان باتوں سے تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ؟“(الترغیب والترہیب) مطلب یہ ہے کہ رہن سہن کے لیے گھر اور مکان اتنا ہی بنانا چاہیے جتنے کی ضرورت ہو اور اس میں زندگی اچھی طرح سے گزر سکے۔ اسی طرح مال ودولت اور خزانہ اتنا ہی جمع کرنا چاہیے جس سے اپنی معاشی تنگی دور ہو کر گزران اوقات آسانی سے ہوسکے۔ اس کے علاوہ جو زائد مال ہے وہ جمع کرنے اور پیسے پر پیسہ اکھٹا کرنے کے لیے نہیں ،بلکہ وہ تو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہے۔