درس نظامی میں ترجمہ وتفسیر پڑھانے کا طریقہ کار

درس نظامی میں ترجمہ وتفسیر پڑھانے کا طریقہ کار

افادات: حضرت مولانا شمس الحق رحمہ الله
مولانا محمد عمران حقانی

علم تفسیر کا مقصد
علم تفسیر کا مقصد اصل میں کوئی ایک چیز یا کسی ایک فن کو سیکھنا نہیں، بلکہ علم تفسیر در حقیقت تب حاصل ہوتی ہے جب کہ آدمی کو متعدد علوم اور اس کے متعدد مبادی پر عبور اور مہارت حاصل ہو، مثلاً قاضی بیضاوی اپنی تفسیر بیضاوی میں تقریباً گیارہ علوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جاتے ہیں، اس لیے علم تفسیر کو پڑھانے کے لیے ان تمام چیزوں کو مستحضر کرنا ضروری ہے۔ اور طالب علم کو ان چیزوں کا خوگر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بتدریج علوم کے ان تمام مراحل سے گزار ا جائے اور اگر یک دم آپ سارے علوم سمجھانا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی دشوار ہو گا، لیکن اگر بتدریج یعنی نچلے درجات سے یہ کام شروع کریں تو آخر کے درجات میں جب پہنچیں گے تو ان سارے علوم کا تفسیر قرآن کی نسبت سے تعارف حاصل ہوچکا ہو گا، ( تب ان علوم کے سمجھانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی)

ابتدائی درجات میں علم تفسیر کی تدریس
ایک بات… عنوا ن تبدیل کیجیے۔
ہمارے یہاں درجہ ثانیہ میں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔ ایک بات تو میں آپ حضرات سے عرض کروں گا کہ الله کے لیے آپ یہ عنوان تبدیل کیجیے، اس دفعہ وفاق المدارس کا اجلاس ہوا، میں خود تو حاضر نہ ہو سکا لیکن کچھ تجاویر بھیجیں، ان میں یہ تجویز بھی بھیجی کہ آپ ابتدائی درجات کے اندر”تفسیر قرآن کریم“ کا عنوان مت رکھیں، ابتدائی درجات ثانیہ، ثالثہ ،رابعہ، خامسہ میں ”ترجمہٴ قرآن“ کا عنوان دیں، تفسیر کا نہیں ،یہ بہت بڑی غلطی ہے، بہت بڑے نقصان کا سبب ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ درجہ ثانیہ میں جو طالب علم پہلی مرتبہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ رہا ہے ظاہر ہے کہ اسے اس درجے میں مفسر بنانا مقصود نہیں ہے ، بے شمار تفسیری نکات، مفسرین کے اقوال، واقعات، شان نزول کی قسمیں اور طرح طرح کے تفسیری مباحث وہ درجہ ثانیہ کے طلباء کے سامنے بیان کرنا جب کہ طالب علم کا حال یہ ہے کہ اسے قرآن کریم کی آیت کا لفظی ترجمہ بھی نہیں آتا ،تو یہ بہت بڑی خطا اور کوتاہی ہے کہ ہم نے اس درجے میں تفسیر کا نام رکھ دیا، خدا کے لیے آپ ان درجات کے اندر اس کا عنوان تبدیل کر دیجیے، عنوان یہ ہو کہ: ”لفظی ترجمہ قرآن مع مختصر ضروری تشریحات“ یہ عنوان درجہ ثانیہ کے علاوہ ثالثہ، رابعہ اور خامسہ میں بھی ہو، اس لیے کہ ہمارے یہاں درس نظامی وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کے مطابق دس دس پارے تین درجات میں ہیں، جن درجات میں دس دس پارے ہیں وہاں ترجمہ ہو، آپ کا اصل مقصد یہاں طالب علم کو لفظی ترجمہ سکھاناہے۔ او راگر سارے مباحث اس کو پڑھا دیے او راگر بالفرض ان میں کوئی ذی استعداد طالب علم بھی ہو اور وہ ان باتوں کو یاد بھی رکھ لے، لیکن اسے لفظی ترجمہ نہیں آتا تو آپ کا مقصود حاصل نہیں ہو گا، اصل یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے ساتھ ساتھ ضروری فوائد اور تشریحات ہو جائیں تو بہت ہے۔

دوسری بات:
دوسری بات یہ ہے کہ ترجمہ قرآن جو آپ درجہ ثانیہ ، ثالثہ(رابعہ اور خامسہ) میں دس دس پارے پڑھارہے ہیں، اس میں آپ بنیادی ترجمہ اور لفظی وٹکسالی ( فصیح، جچا تلا اور مستند) ترجمہ کا اہتمام کریں کہ طالب علم کو معلوم ہو کہ لفظ کا لغوی معنی کیا ہے اور آیت وعبارت میں اس کو کس طرح پرویا اور سمویا گیا ہے۔

الله تعالیٰ ہمارے اکابر کی قبور کو منور فرمائے، حضرت شاہ عبدالقادر  کا جو اردو ترجمہ ہے آج تو اس کے سمجھنے والے بہت کم ہیں، شاہ صاحب کا ”موضح القرآن“ اور وہ ترجمہ جو چھپا ہوا ہے، اوہ ایسی ٹکسالی دلی کی اردو ہے کہ اس کے سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ مثلاً”الطیبات للطیبین“ ستھریاں ہیں ستھروں کے واسطے”الخبیثت للخبیثین“ گندیاں ہیں گندوں کے واسطے۔ اتنا پیارا، اتنا لذیذ اتنا جامع او رمختصر ترجمہ: چناں چہ ”الطیبات“ کا ستھری سے بہتر ترجمہ کوئی نہیں ہو سکتا، لہٰذا اگر آپ اس کی اردو سمجھ سکتے ہیں تو اس کو دیکھ لیا کریں۔ اس میں لغوی ترجمہ ایسا ٹکسالی ترجمہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا ارد ومیں اس سے بہتر کوئی ترجمہ نہیں ہو سکتا۔

ترجمے کے ذیل میں ایک بات یہ بھی ( ذہن میں ر) ہے کہ لغات کے معنی کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں جو صرفی صیغے استعمال ہوئے ہیں ان کا بھی ( اس طرح) اہتمام کیجیے کہ آپ طالب علم سے پوچھیں کہ (یہ) صیغہ کون سا ہے؟ کس باب سے ہے؟ وزن کیا ہے؟ اشتقاق کیا ہے؟ (اس لیے کہ ) ادب، صرف اور نحو کی تمرین کے لیے قرآن کریم سے زیادہ بہتر کتاب اور کوئی نہیں مل سکتی ۔اگر قرآن کریم میں کوئی شخص فن صرف واشتقاق کی، فن نحو اورادب کی تمرین کرادے تو اس کو دوسری کتاب پڑھنے کی بہت کم حاجت پیش آئے گی۔

ہمارے استاذ حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب قدس الله سرہ نے مقامات حریری کا حاشیہ لکھا ہے، اس حاشیہ کو دیکھیں تو جتنے ”مقامات حریری “ کے لغات ہیں، ان سب کے مأخذ او رمبدء اشتقاق قرآن سے لکھے ہیں ، قرآن کریم سے مأخذ کا ایسا ذخیرہ جمع کیا ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم کے اندر فلاں فلاں جگہ آیا ہے، یہ مادہ ہے، یہ معنی ہے او راتنے معانی میں استعمال ہوا ہے، تو ”مقامات حریری“ کے اس حاشیے کے پڑھنے سے ادب بھی آئے گا اور قرآن بھی آئے گا (انشاء الله)۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس کے اندر الله تعالیٰ نے تمام علوم سمودیے ہیں، اس بنا پر مفسرین نے مفسر کے لیے علم لغت، علم نحو، علم اشتقاق، علم حدیث، علم معانی، بیان او ربلاغت وغیرہ تقریباً پندرہ علوم کی شرائط لکھی ہیں، تب جاکر مفسر بنتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں یہ سارے علوم نظرآئیں گے،(ایسی) عجیب وغریب کتاب ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ ابتدائی درجات میں اس طریقے پر ترجمہ پڑھانے سے لفظی ترجمے کے ساتھ ساتھ نحوی، صرفی قواعد اور علم ادب وغیرہ کے الفاظ ولغات کا استحضار ہو۔

علم تفسیر کی تدریس انتہائی درجات میں
اب اگلا درجہ آتا ہے درجہ سادسہ، جو باقاعدہ فن ِ تفسیر کا درجہ ہے، ہمارے یہاں درجہ سادسہ میں ”تفسیر جلالین“ اور درجہ سابعہ میں ”تفسیر بیضادی”باعتبار تفسیر کے پڑھائی جاتی ہے۔ یہ درجات وہ ہیں کہ ان میں طالب علم ذہنی اعتبار سے بھی مضبوط ہوجاتا ہے، استعداد میں بھی اس کی قوت پیدا ہو جاتی ہے او رمختلف علوم کے مسائل اور قواعد بھی مستحضر ہو جاتے ہیں، اب یہاں طالب علم کے لیے قرآن کی تفسیر، تفسیر ہونے کی حیثیت سے پڑھنے کے اندر سہولت ہوتی ہے، لہٰذا اب ان سارے علوم کی روشنی میں تفسیر پڑھائی جائے گی۔

تفسیر جلالین پڑھانے کا طریقہ
تفسیر جلالین پڑھانے کے لیے (تین باتیں) ضروری ہیں۔

پہلی بات … آپ آیت کے ساتھ ان مقدرات کا ربط بیان کریں جو مفسر نے نکالے ہیں، کہ اس مقدر عبارت کی اس آیت کے ساتھ کیا مناسبت ہے؟ کیا ربط ہے؟(نیز یہ بتائیں کہ ) اس مقدر نکالنے کے بغیر اس آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس مقد رکا عبارت کے ساتھ گہرا تعلق او ربغیر اس مقدر کے نکالنے کے قرآن کریم کی آیت کا مطلب نہ سمجھنا، طالب علم کو سمجھا یا جائے، (تفسیر جلالین کے صرف عربی عبارات کا) خالی ترجمہ کر دینا کافی نہیں، اس لیے کہ مصنف بعض اوقات تقدیری عبارت سے کسی (وارد ہونے والے) اشکال کا جواب دیتا ہے، بعض اوقات کسی نحوی ترکیب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسری بات… جو پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ جلالین میں آپ آیات کی ترکیب کا اہتمام کریں اور قرآن کریم کی آیات کے جو مقدرات نکالے ہیں ان کی بھی ترکیب کریں اور نفس آیات کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ترکیب نحوی کریں۔ جلالین میں ترکیب کا رواج ہمارے مدارس میں تقریباً معدوم ہے۔ میں الحمدلله بہت عرصہ تقریباً اٹھارہ سال جلالین پڑھاتا رہا، اس کا ہمیشہ اہتمام کرتا تھا کہ قرآن کریم کی آیات کی ترکیب اور جو مقدرات وہاں پر ہیں ان کی ترکیب اور تقدیر کی ضرورت، مناسبت بیان کرنے کا اہتمام کیے بغیر میں بالکل نہیں چلتا تھا۔ چناں چہ اس کا طلبہ کو بہت فائدہ بھی ہوتا تھا۔

تیسری بات… یہ ہے کہ جلالین کا حاشیہ ہے، اس میں رطب ویابس بہت ہے، ان میں بعض چیزیں سقیم ہیں اور جمہور کے مسلک کے خلاف تفردات ہیں، تو ان حاشیوں کو طلبہ دیکھتے ہیں، جس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید قرآن کی اس آیت سے اس واقعہ کی تائید ہوتی ہے یا یہ واقعہ قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے، آپ حواشی میں مذکور رطب ویابس ، صحیح وسقیم چیزوں میں تمیز بیان کریں اور طالب علم کی راہ نمائی کریں کہ یہ بات یہاں سقیم ہے، یہ بات صحیح ہے، یہ بات کم زور ہے، یہ بات غلط ہے، جیسا کہ ”ھاروت“ اور ”ماروت“ کے واقعہ میں اس قسم کی لمبی چوڑی بحثیں کی گئی ہیں، اسی طرح سورة النجم کی تفسیر میں:” تلک الغرانیق العلیٰ “اس قسم کی باتیں حواشی میں موجود ہیں، طلبہ کو بتلانا چاہیے کہ یہاں صحیح یہ ہے ، سقیم یہ ہے ، نیز آیت کی صحیح توجیہ کرکے بتلائیں کہ اصل توجیہ اور آیت کی صحیح مراد یہ ہے، لیکن یہ بات آپ تب کرسکتے ہیں کہ جب جلالین کے ساتھ ساتھ دوسری تفاسیر بھی مد ِ نظر رہیں اور ضروری بھی ہے، تاکہ یہاں کے اجمال کی تفصیل بھی معلوم ہو جائے اورسقیم کی اصلاح بھی ہو جائے۔

صاوی اور جمل:تفسیر جلالین کے دو حواشی عام طور پر مشہور ہیں:”صاوی“ اور ”جمل“۔

”صاوی“ کے بار ے میں تو عام طور پر تاثر یہ ہے او رمجھے خود اس کا تجربہ بھی ہے کہ اس کی بہت سی باتیں ضعیف ہوتی ہیں، ساتھ کچھ مبتدع بھی معلوم ہوتا ہے ، اس لیے اس پر زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ”جمل“ ایسی ہے کہ وہ مقدرات او رترکیب وغیرہ کے بارے میں معتبر ہے۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ جب جلالین پڑھائیں( تو اگر آپ کو خالی اردو(یاپشتو) کے ترجمہ پر اکتفاء کرنے کی عادت نہ ہو، یا خالی رواروی سے گزرجانے کا مزاج نہ ہو ،محنت کرنے کا شوق او رجذبہ ہو( الله تعالیٰ ہم سب کو عطا فرمائیں) تو مطالعہ میں بالالتزام علامہ نسفی کی ”تفسیر مدارک“ سب سے مقدم رکھیں ، نہایت ہی مفید، نہایت ہی عمدہ تفسیر ہے، ان کی خوبی یہ ہے کہ بیک وقت وہ مفسر بھی ہیں، محدث بھی ہیں، فقیہ بھی ہیں، قاضی بھی ہیں، حنفی بھی ہیں۔ اس لیے یہ تفسیر کے تمام مباحث کو ہر حیثیت سے بیان کرتے ہیں او رقابل اعتماد طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ کسی آیت کے ذیل میں مسئلے میں فقہی اختلافات یا فقہی دلائل مطلوب ہوں، یا مفتیٰ بہ قول کی تلاش ہو، یا حدیث کے اعتبار سے کوئی کلام دیکھنا ہو، یا تفسیری نکات تلاش کرنے ہوں، یہ سب چیزیں آپ کو ”تفسیر مظہری“ میں ملیں گے، نیز آیات کے حل کے لیے بہت سہولت کے ساتھ آسانی کے ساتھ مختصر انداز میں کلام کر دیتے ہیں، اس لیے ”تفسیر مظہری“ نہایت عمدہ تفسیر ہے۔

فن تفسیر پڑھانے والے استاذ کو ان دو تفسیروں سے استغناء نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر آپ قرآن کو باعتبار فن بلاغت کے سمجھنا چاہیں، تو اس کے لیے علامہ زمحشری کی ”تفسیر کشاف“ ناگزیر ہے۔

تنبیہ… لیکن تفسیر کشاف کا مطالعہ کرتے وقت اپنے حواس عشرہ کو درست رکھ کر تفسیر کو سمجھنا ہو گا، اس لیے کہ علامہ زمحشری معتزلی ہیں اور وہ اپنی عبارات میں اعتزال کی طرف ایسے لطیف اشارات کر جاتے ہیں کہ آدمی اس سے متاثر ہو جاتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ میں معتزلی ہو گیا ہوں، اس لیے اس کا احساس رکھنا ضروری ہے، الله تعالیٰ تفسیر کشاف کے اوپر تعلیق کرنے والے کو جزائے خیر دیں، کہ ایک کٹر اہلِ سنت محقق ہے، وہ تعلیقات میں کشاف کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے چلتے ہیں کہ اس جگہ یہ بات زمحشری نے معتزلہ کی حمایت میں لکھی ہے، یہاں معتزلہ کی طرف اس کا جھکاؤ ہے، اس لیے جب کشاف دیکھو تو اس کے ساتھ اس کا حاشیہ ضرور دیکھو۔ اور اگر آپ کو یہ مطلوب ہو کہ کسی آیت کے ذیل میں احادیث کا ذخیرہ کیا ہے، تو ”تفسیر ابن کثیر“ اور”تفسیر ابن جریر“ نہایت ہی عمدہ او راعلی ہیں، جو آپ کو ایک آیت سے متعلق تمام احادیث کے ذخیرہ کو یک جا میسر کردے گا، علامی سیوطی کی”تفسیر در منثور“ بھی یہ کام کرتی ہے، لیکن اس میں رطب ویابس بہت ہے۔ نحوی تراکیب کے لیے علامہ آلوسی کی ”تفسیر روح المعانی“ نہایت مفید ہے، مفسرین کے اقوال کے سلسلے میں”تفسیر قرطبی“ بہت نافع ہے اور ”تفسیر بحر محیط“ میں مفسرین کے اقوال کے علاوہ بہت سے واقعات او ربعض رطب ویابس بھی ہیں۔

تفسیر بیضاوی
اس کے بعد ساتویں درجہ میں تفسیر بیضاوی پڑھائی جاتی ہے، جو بڑی عجیب تفسیر ہے، علامہ بیضاوی نے اس کا نام ”اسرار التاویل وانوار التنزیل“ رکھا ہے۔ علوم عقلیہ علامہ رازی کی تفسیر کبیر سے، بلاغت تفسیر کشاف سے، لغت علامہ راغب اصفہانی سے لیے ہیں گویا یہ بیضاوی کے مآخذ ہیں۔

تفسیر بیضاوی کا متن جان لیوا ہے، گیارہ گیارہ فنون سے بیک وقت وہ بحث کرتے ہیں۔اس پر شیخ زادہ کا بڑا ہی عجیب اور سہل حاشیہ ہے۔