حلم وبرد باری کا فائدہ اور غصے کے نقصانات

حلم وبرد باری کا فائدہ اور غصے کے نقصانات

مولانا فخر الزمان الوہوی

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کا ارشاد گرامی ہے: علم حاصل کراور علم کے لیے وقار اور بردباری سیکھو۔“ خلیفہ چہارم شیر خدا حضرت علی کرم الله وجہہ کا قول ہے: ” خیر یہ نہیں ہے کہ تیرا مال اور اولاد زیادہ ہو، بلکہ خیر یہ ہے کہ تیرا علم اور تیری بردباری زیادہ ہو اور یہ کہ تو لوگوں پر الله کی عبادت کی وجہ سے فخر نہ کرے۔ جب تو نیکی کرے تو الله کا شکر کر اور جب تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو الله سے توبہ واستغفار کر۔“ حضرت حسن رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : ” علم سیکھو اور اس کو برد باری وقار سے مزین وآراستہ کرو۔“

اکثم بن صیفی فرماتے ہیں:” عقل کی معاون بردباری ہے او رحکم کا سردار صبر ہے۔“ اور معاویہ نے عمر بن اہتم سے پوچھا: کون سا آدمی سب سے زیادہ بہادر ہے؟ آپ نے جواب دیا: جو اپنی جہالت کو اپنی بردباری سے چھپالے، پھر پوچھا کون سا آدمی سب سے زیادہ سخی ہے؟ فرمایا: جس نے اپنی دنیا کو اپنے دین کی اصلاح کے لیے خرچ کیا۔ ایک شخص حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کو گالیاں دے رہا تھا،جب وہ گالیاں دے کر فارغ ہوا تو آپ  نے فرمایا: اے عکرمہ! کیا اس آدمی کی کوئی حاجت ہے، جو میں پوری کر دوں؟ اس پر اس شخص نے اپنا سر جھکالیا اور شرم سار ہو گیا۔

ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ فاسقوں میں سے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: تیری گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔

ایک رات اندھیرے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز مسجد میں داخل ہوئے او رایک سوئے ہوئے شخص سے ٹکرا کر گر پڑے، اس شخص نے آپ سے کہا کہ کیا تو پاگل ہے؟

آپ نے جواب دیا: نہیں! آپ کے محافظین اس کو پکڑنے لگے تو آپ  نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، اس لیے کہ اس نے مجھ سے صرف یہ پوچھا تھا کہ تو پاگل ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ میں پاگل نہیں ہوں۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ کے غلام نے آپ  کی بکری کی ٹانگ توڑ دی، جب وہ آپ  کے پاس آیا اور آپ نے اس سے پوچھا: بکری کی یہ ٹانگ کس نے توڑی ہے؟ کہنے لگا میں نے توڑی ہے اور جان بوجھ کر، تاکہ آپ کو غصہ دلاؤں، آپ مجھے ماریں اور گناہ گار ہو جائیں، آپ نے فرمایا: میں آپ کے غصہ پر ابھارنے کی وجہ سے ہر گز غصہ میں نہیں آؤں گا، یہ کہہ کر آپ نے اس کو آزاد کر دیا۔

ایک شخص حضرت علی بن الحسین رضی الله عنہ سے ملا اور آپ کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ لوگ اس کو مارنے کو آگے بڑھنے لگے تو آپ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، پھر اس آدمی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ہمارا کوئی معاملہ تجھ سے پوشیدہ نہیں، کیا تیری کوئی ضرورت ہے، جس کو ہم پوری کر سکیں؟ وہ شخص شرمندہ ہو گیا، پھر آپ نے اس کے لیے اپنے جبہ او رایک ہزار درہم دینے کا بھی حکم فرما دیا، اس کے بعد وہ شخص کہتا پھرتا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں آپ اولاد رسول میں سے ہیں۔

غصہ آگ کا شعلہ ہے، جو جہنم کی آگ سے لیا گیا ہے۔ غصہ کا انجام حسد اور کینہ ہے ۔ غصہ کی شناعت میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے کہ جب ایک شخص نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھے کوئی وصیت کیجیے۔ آپ  نے فرمایا: غصہ نہ کیا کر، کئی مرتبہ تکرار کے ساتھ آپ نے یہی جملہ فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر۔

بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلوانی اپنے حریف کو پچھاڑ نے کا نام نہیں، بلکہ پہلوانی غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو رکھنے کا نام ہے۔

حضرت ابو درادء رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھے ایسا کوئی عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ مت کیا کرو۔

امام حسن رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ اے بنی آدم! جب تو غصہ کرتا ہے تو کودتا ہے اور قریب ہے کہ تو کودے اور تیرا کو دنا تجھے جہنم میں داخل کر دے او رکہا گیا ہے کہ غصہ سے بچو! اس لیے کہ یہ ایمان ایسے خراب کر دیتا ہے، جیسے ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں، کسی کی بردباری اور تحمل کو اس کے غصے کے وقت اور اس کی امانت داری کو اس کی طمع کے وقت دیکھو، کیوں کہ بردباری کی پہچان نہیں ہوتی جب تک غصہ نہ ہو اورامانت داری کی پہچان نہیں ہوتی جب تک کہ طمع نہ ہو۔

بعض حکماء کا قول ہے کہ جو اپنی شہوت اور غصے کی اطاعت کرے گا، یہ دونوں اس کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ وہب بن منبہ  فرماتے ہیں کفر کے چار ارکان ہیں:غصہ ، شہوت، جہالت، لالچ۔ غصہ درحقیقت انتقام لینے کے لیے دل کے خون کاجوش مارنا ہے، پس انتقام غصے کے لیے غذا ہے۔ لوگ غصہ کرنے میں تین طرح کے ہیں: افراط، تفریط، اعتدال۔

پس جب غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو غصہ کرنے والے کو گم راہ اندھااو را س کے کانوں کو نصیحت سننے سے بہرہ کر دیتی ہے اس لیے کہ غصہ جب دماغ کی طرف چڑھتا ہے تو غوروفکر کے خزانوں پر پردہ ڈال لیتا ہے اورکبھی کبھی تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتا ہے، پس غصہ کرنے والے کی آنکھیں ظلم کرتی ہیں، مگر اس کو یہ ظلم دکھائی نہیں دیتا، دنیا اس کے سامنے سیاہ کالی ہو جاتی ہے، اس کا دماغ اس غار کی طرح ہو جاتا ہے، جس میں آگ جلائی گئی ہواور اس آگ سے اس غار کی فضا کالی ہو گئی ہو، اس کے اندر تپش بھر گئی ہو، وہ دھویں سے بھر گئی ہو اور اس کے اندر ایک ٹمٹماتا چراغ ہو اور وہ بھی بجھ گیا ہو تو اس میں نہ قدم ٹھہر سکیں، نہ اس میں کوئی آواز سنائی دی جائے، نہ اس میں کوئی صورت نظر آئے اور نہ اس آگ کو بجھانے پر قدرت ہو، پس یہی کیفیت غصہ کے وقت قلب ودماغ کی ہوتی ہے اور بعض دفعہ جب غصہ حد سے بڑھ جائے تو اپنے ساتھی کو قتل بھی کر دیتا ہے۔

غصہ آنے کے اسباب یہ ہیں: حقارت، مزاح، تکبر، مذاق اڑانا، تمسخراڑانا، بڑائی کرنا، مخالفت کرنا، غداری کرنا، فضول مال ومرتبے کے حصول کا حرص، مندرجہ بالا تمام امور شرعاً اخلاق رذیلہ میں شمار کیے جاتے ہیں، ان تمام امور کے ہوتے ہوئے غصے سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا، ان تمام اخلاق رذیلہ کو زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اخلاق رذیلہ کی ضد اچھے اخلاق کو اپنایا جائے۔

البتہ جب غصہ بھڑک اٹھے تو اس کا درج ذیل امور سے علاج کیا جاسکتا ہے۔

وہ احادیث مبارکہ جو غصے کو روکنے کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں، ان کا استحضار کیا جائے، اسی طرح عفو ودرگزر اور تحمل وبرداشت کے متعلق جو فضائل وارد ہوئے ہیں، ان پر غور کیا جائے۔

اپنے نفس کو الله تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے۔

اپنے نفس کو دشمنی او رانتقام کے انجام سے ڈرائے۔

غصے کے نقصانات کے بارے میں سوچے او ران اسباب پر غور کرے جو اس کو انتقام کی طرف لے جائیں گے۔

یہ خیال کرے کہ غصہ ایسی چیز ہے جو الله تعالیٰ کی رضا مندی اوراحکام کی بجا آوری کے لیے ہونا چاہیے۔

بہرحال غصہ دور کرنے کے لییاعوذ بالله من الشیطان الرجیم! پڑھ لے او راپنی حالت کو بدل لے، یعنی اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے، کیوں کہ ہمیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے غصے کے وقت وضو کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔

غصہ کے وقت وضو کرنے کی حکمت حدیث شریف میں یوں بیان کی گئی ہے:

چناں چہ ابوداؤد شریف میں حضرت وائل رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم عروہ بن محمد رضی الله عنہما کے پاس تھے کہ ایک شخص نے ایسی بات کہی، جس پر آپ کو شدید غصہ آگیا، پس وہ کھڑے ہوئے اور وضو فرمایا، پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے میرے باپ نے، میرے دادا عطیہ سے، جو کہ صحابی ہیں ، بیان کیا ہے، کہتے تھے کہ: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک غصہ شیطان کی جانب سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھا یا جاتا ہے، پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے وضو کر لے۔

البتہ بیٹھنے اور لیٹنے کا جوحکم دیا گیا ہے، اس کی حکمت غالباً یہ ہے کہ کھڑے ہونے سے بیٹھنا زمین کے زیادہ قریب ہے اور بیٹھنے سے لیٹنا زمین کے زیادہ قریب ہے او رانسان مٹی سے پیدا ہوا ہے اورمٹی میں عاجزی وانکساری ہے تو غضب ناک انسان بیٹھ یا لیٹ کر اپنی ذلت کو یاد کرکے غصہ کو کم کرے۔

غم اگر الله تعالیٰ کے لیے ہو تو یہ محمود ہے او راگر اس کے علاوہ ہو تو یہ مذموم ہے، مومن اور مسلمان تو الله رب العزت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، نہ کہ نفس کے لیے، یعنی الله تعالیٰ کے دین کی مدد کے لیے کھڑا ہوتا ہے، نہ کہ نفس کی مدد کے لیے۔ الله رب العزت کی قائم کردہ حدود کی اگر مخالفت کی جائے تو مومن کو ایسا غصہ آنا چاہیے جیسا کہ چیتے سے اگر اس کا شکار چھین لیا جائے تو وہ غصہ میں آجاتا ہے۔