حضرت مولانا محمدیوسف متالاؒ

حضرت مولانا محمدیوسف متالاؒ

مولانا الله وسایا

9/ستمبر2019ء کو حضرت مولانامحمد یوسف متالا انتقال فرمائے گئے۔ انالله واناالیہ راجعون!

حضرت مولانا یوسف متالاً کی ولادت 25/نومبر1946ء کو نرولی انڈیا میں ہوئی۔ والد کا نام سلیمان اور دادا کا نام قاسم اور خاندانی لقب متالا تھا۔ مولانا خود تحریر کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب پر کثرت ذکر کے باعث جذب کی کیفیت پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ترک دنیا کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اپنے والدین کے ہاں چلی جاؤ۔ چناں چہ خاندان کے بزرگوں نے سوچا کہ واقعہ میں سلیمان متالا پر جذب کی کیفیت نے آگے چل کر جنون کی کیفیت اختیار کر لی تو ان کی حیات تک اہلیہ معلق رہ جائیں گی۔ اس لیے طلاق لے لی گئی۔ اس وقت مولانا یوسف متالا والدہ کے بطن میں تھے۔ مولانا کی والدہ مولانا کے ننھیال آگئیں۔ یہاں نرولی میں نانی کے گھر مولانا متالا کی پیدائش ہوئی، مولانا کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ ان کی خالہ کا افریقہ میں انتقال ہو گیا تو خالونے مولانا کی والدہ سے عقد کر لیا۔ یوں والدہ بھی افریقہ چلی گئیں۔ اب نانا اور نانی نے نرولی میں مولانا کی پرورش کی۔ چند سال بعد ان دونوں کا بھی وصال ہو گیا تو مولانا کی پرورش خالہ نے کی اور پرورش کا حق ادا کر دیا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم ناظرہ حفظ وغیرہ مدرسہ ترغیب القرآن نرولی میں حاصل کی۔1961ء میں جامعہ حسینیہ راندیرسورت میں داخلہ لیا۔ فارسی سے ہدایہ اوّلین تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مظاہر العلوم سہارن پور درجہ مشکوٰة میں داخلہ لیا۔

مولانا محمدیونس صاحب سے مشکوٰة شریف، مولانا محمد عاقل صاحب سے جلالین اور ہدایہ اخرین مفتی یحییٰ سے پڑھیں۔ اگلے سال (1386ھ،1387ھ) دورہٴ حدیث شریف پڑھا۔ بخاری شریف مکمل حضرت شیخ الحدیث، برکة العصر، ریحانة الہند، مولانامحمد زکریا کاندھلوی، مسلم شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، مؤطین شریفین مولانا محمدیونس جون پوری اور ترمذی مفتی مظفر حسین اور طحاوی مولانا اسعدالله صاحب ناظم مظاہر العلوم سے پڑھیں۔

مولانا محمدیوسف امیر ثانی تبلیغی جماعت اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا حج کے لیے فرنٹیر میل سے بمبئی جارہے تھے۔ ہزاروں زائرین کے ہم راہ سورت اسٹیشن پر مولانا متالا نے دوران طالب علمی حضرت شیخ الحدیث کی دور سے پہلی زیارت کی۔

مولانا متالا کے برادر اکبر مولانا عبدالرحیم متالا1384ھ میں مدرسہ مظاہر العلوم سے دورہٴ حدیث کرنے کے بعد شیخ الحدیث کی خدمت میں قیام کے ارادے سے مقیم تھے تو ان کی ترغیب پر مولانا یوسف متالا نے اس سال کا رمضان المبارک شیخ الحدیث کی خدمت میں سہارن پور گزارا۔ پھر یہاں دو سال تعلیم حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف کے بعد بولٹن انگلستان میں نکاح طے ہوا تو یہاں آگئے۔ بولٹن کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض سر انجام دیے۔ مگر رمضان المبارک سہارن پور یا مدینہ طیبہ حضرت شیخ الحدیث کے ساتھ اعتکاف کرتے، کبھی ناغہ بھی ہو جاتا۔ اس دوران ہو لکمب بری انگلستان میں آپ نے ایک پرانا ہسپتال خرید کر دارالعلوم کی بنیاد رکھی، جو آج انگلستان میں دینی تعلیم کا سب سے وقیع ادارہ ہے۔ حضرت مولانا یوسف متالا کو اپنے شیخ ومربی اور استاذ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی سے محبت نہیں، بلکہ عشق تھا۔ جب حضرت سے اجازت لے کر سفر کرتے تو حالت دگرگوں ہو جاتی۔ گریہ ورقت سے بڑھ کر جدائی پر بے ساختہ چیخیں نکل جاتیں۔

مولانا متالا کی اس محبت کا حضرت شیخ الحدیث پر بھی اثر ہوتا۔ آپ بھی آبدیدہ ہو جاتے۔ اس منظر کو بعض اہل دل حضرات فراق یوسفی ومحبت یعقوب سے تعبیر کرتے۔ زہے نصیب کہ دارالعلوم ہولکمب بری کے قیام کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدینہ منورہ سے سہارن پور جاتے وقت یا دورہٴ افریقا سے واپسی پر دارالعلوم ہولکمب بری میں ہفتوں قیام فرماتے اور یوں یومیہ دو سے تین ہزار اور خاص مواقع پر آٹھ دس ہزار بندگان خدا دارالعلوم میں حضرت شیخ الحدیث کے فیض صحبت سے سرفراز ہوتے اور یہ سب کچھ مولانا یوسف متالا کے صدقہ سے ہوتا۔ مولانا یوسف متالا سے حضرت شیخ الحدیث کی پدری روحانی محبت اور مولانا یوسف کی حضرت سے پسری روحانی تعلق ایسا تھا کہ واقعی میں مولانا متالا اپنے شیخ کے رنگ میں رنگے گئے اور پھر وقت آیا کہ پورے برطانیہ کے سب سے بڑے شیخ اور قطب الارشاد کے درجہ پر فائز ہو گئے اور اس وقت صرف برطانیہ نہیں، بلکہ یورپ وافریقہ وامریکا تک آپ کے شاگرد علماء اور متوسلین کی آنکھوں کو خیر کر دینے والی ایک جماعت کی محنت نے اقامت دین اور اشاعت وترویج اسلام کا ایک ایسا ماحول قائم کر دیا ہے کہ اس پر دنیا عش عش کراٹھی ہے۔

قادیانی بھگوڑے گرو مرزا طاہر نے برطانیہ کو اپنا مرکز بنایا تو عقیدہٴ ختم نبوت کے لیے ختم نبوت کانفرنسوں کا اہتمام، دفتر ختم نبوت کا قیام، علمائے کرام کو متوجہ کرنے میں جن حضرات کی سرپرستی نے اسلامیان انگلستان کو ڈھارس بندھائی ،اس میں مولانا یوسف متالا کا وجود ستاروں میں بدر کے چاند کی طرح نمایاں تھا۔ پورے یورپ میں دین کی خدمت کے حوالہ سے تبلیغی جماعت اور تعلیمی، تبلیغی وخانقاہی نظام کے ذریعہ جو موسم سدا بہار کی کیفیت پیدا ہوئی ، اس میں مولانا یوسف متالا نیرتاباں نظر آتے ہیں اور الله رب العزت کی ہر آن نرالی شان کے قربان کہ تبلیغی جماعت کی مساعی ہوں یا مولانا یوسف متالا کی کاوشیں، ان سب کا سرچشمہ فیض حضرت شیخ الحدیث کی ذات گرامی ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت متالا نے مجلس کے مرکزی شوریٰ کے ایک اجلاس میں شرکت فرمائی۔ ملتان دفتر آپ کا قیام رہا۔ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی کے آپ خواجہ تاش تھے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب سے آپ کا محبت بھر ا مخلصانہ ونیاز مندانہ تعلق تھا۔ مولانا متالا کی خواہش پر حضرت خواجہ صاحب نے اپنی مستعملہ دستار حضرت متالا صاحب کے لیے بھجوائی۔

دیانت داری کی بات ہے کہ حضرت شیخ الحدیث کے صاحب زادے مولانا محمد طلحہ کاندھلوی اور حضرت شیخ الحدیث کے لاڈلے شاگرد محبوب خلیفہ مولانا یوسف متالا کی ایک مہینہ میں یکے بعد دیگرے معمولی وقفہ سے جدائی نے ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جسے اپنی محرومی کے علاوہ اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ حضرت متالا صاحب کی محبتوں وشفقتوں کا اب کوئی بدل نظر نہیں آرہا ۔ وہ کیا تشریف لے گئے کہ ایک عالم سونا ہو گیا۔ وہ عالم ربانی تھے اور ان کی وفات ایک عالم کی وفات ہے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب، حضرت سید نفیس الحسینی، حضرت مولانا سید اسعد مدنی اور مولانا طلحہ کاندھلوی کے بعد اب مولانا یوسف متالا کی جدائی نے دنیائے دل کو مرجھا دیا ہے، ان کی جدائی پر آنسو بہائیں یا اپنی مرحومی پر فغاں کریں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اس کا نام دنیا فانی ہے۔ جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ بعض کے آنے پردنیا روشن اور جانے پر دنیا تاریک ہو جاتی ہے ۔ مولانا یوسف متالا کا وجود بھی یقینا انہیں میں سے تھا۔مدتوں تاریخ ان کے علمی کارناموں اور علمی فتح یابیوں کا بدل تلاش کرے گی۔ مدتوں خاک چھاننی پڑے گی۔

مولانا متالا انڈیا پلے اور پڑھے ، برطانیہ میں جوانی وبڑھاپا گزارا، کینیڈا میں بیمار ہوئے، وہیں اجل نے آن لیا اور وہیں مدفون ہوئے۔

بیدہ الخیر وھو علیٰ کل شیء قدیر