نام ونسب
سہلہ یا رملہ نام، ام سلیم کنیت غمیصاء اور رمیصاء لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے: ام سلیم بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار، ماں کا نام ملیحہ(اصابہ ج 8 ص 244) بنت مالک بن عدی بن زید مناہ تھا۔ آبائی سلسلہ سے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہاسلمیٰ بنت زید کی پوتی تھیں۔ سلمیٰ، عبدالمطلب جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ تھیں، اسی بنا پر ام سلیم رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ مشہور ہیں۔
نکاح
مالک بن نضر سے نکاح ہوا۔
اسلام
مدینہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ مالک چوں کہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا تبدیلی مذہب پر اصرار کرتی تھیں، اس لیے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور مالک ناراض ہو کر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا۔ ابو طلحہ نے، جو اسی قبیلہ سے تھے، نکاح کا پیغام دیا، لیکن ام سلیم کو اب بھی وہی عذر تھا یعنی ابو طلحہ مشرک تھے، اس لیے وہ ان سے نکاح نہیں کر سکتی تھیں۔
غرض ابو طلحہ نے کچھ دن غور کر کے اسلام کا اعلان کیا اور ام سلیم کے سامنے آ کر کلمہ پڑھا۔ حضرت ام سلیم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب تم ان کے ساتھ میرا نکاح کر دو اور ساتھ ہی مہر معاف کر دیا اور کہا ”میرا مہر اسلام ہے“۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب و غریب مہر تھا۔
عام حالات
نکاح کے بعد حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت عقبہ میں شرکت کی۔ اور چند ماہ کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ حضرت ام سلیم اپنے صاحب زادے (حضرت انس رضی اللہ عنہ) کو لے کر حضور میں آئیں اور کہا ”انیس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں، یہ میرا بیٹا ہے، آپ اس کے لیے دعا فرمائیں“۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ (صحیح مسلم ج 2 ص 352، صحیح بخاری ج 2 ص 944)
اسی زمانہ میں آپ نے مہاجرین وانصار میں مواخاة کی اور یہ مجمع ان ہی کے مکان میں ہوا۔(بخاری)
غزوات میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت جوش سے حصہ لیا۔ صحیح مسلم میں ہے:
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغزو بام سلیم ونسوة من الانصار مع اذا غزا، فیسقین الماء ویداوین الجرحیٰ․ (مسلم ج 2 ص 103)
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اور انصار کی چند عورتوں کو غزوات میں ساتھ رکھتے تھے، جو لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں“۔
غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے جمے ہوئے قدم اکھڑ گئے تھے، وہ نہایت مستعدی سے کام کر رہی تھیں۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں، مشک خالی ہو جاتی تھی تو پھر جا کر بھر لاتی تھیں“۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی ج 2 ص 581)
5ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، اس موقع پر حضرت ام سلیم نے ایک لگن میں مالیدہ بنا کر حضرت انس کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ اس حقیر ہدیہ کو قبول فرمائیں۔
7ھ میں خیبر کا واقعہ ہوا۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اس میں شریک تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا ہی نے حضرت صفیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنوارا تھا۔(صحیح مسلم ج 1 ص 546)
غزوہ حنین میں وہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے تھیں۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ام سلیم خنجر لیے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کروگی؟ بولیں ”اگر کوئی مشرک قریب آئے گا تو اس سے اس کا پیٹ چاک کردوں گی“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دیے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)!مکہ کے قریب جو لوگ فرار ہو گئے ہیں ان کے قتل کا حکم دیجیے، ارشاد ہوا ”خدا نے خود ان کا انتظام کر دیا ہے“۔ (صحیح مسلم ج 2 ص103)
وفات
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی وفات کا سال اور مہینہ معلوم نہیں، لیکن قرینہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافت راشدہ کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی ہے۔
اولاد
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا انہوں نے دو نکاح کیے تھے۔ پہلے شوہر سے حضرت انس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے دو لڑکے پیدا ہوئے، ابو عمیر اور عبداللہ۔ ابو عمیر صغر سنی میں فوت ہو گئے اور عبداللہ سے نسل چلی۔
فضل و کمال
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہاسے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، زید بن ثابت، ابو سلمہ اور عمر بن عاصم نے ان سے روایت کیا ہے، لوگ مسائل دریافت کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا تو ان بزرگوں نے ان ہی کو حَکَم مانا۔ (مسند ج 6 ص 430،431)
ان کو مسائل کے پوچھنے میں کچھ عار نہ تھا۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا: یا رسول اللہ! اللہ حق بات سے نہیں شرماتا، کیا عورت پر خواب میں غسل واجب ہے؟ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ یہ سوال سن رہی تھیں، بے ساختہ ہنس پڑیں کہ تم نے عورتوں کی بڑی فضیحت کی، بھلا کہیں عورتوں کو بھی ایسا ہوتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں؟ ورنہ بچے ماں کے ہم شکل کیوں ہوتے ہیں؟ (مسند ج 6، ص692، 306 (376ج 6))
اخلاق
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا میں بڑے بڑے فضائل اخلاق جمع تھے۔ جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ اپنے پہلے شوہر سے صرف اس بنا پر علیحدگی اختیار کی کہ وہ اسلام قبول کرنے پر رضامند نہ تھے۔ حضرت ابو طلحہ نے نکاح کا پیغام دیا تو محض اس وجہ سے رد کردیا کہ وہ مشرک تھے، اس موقع پر انہوں نے ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جس خوبی سے اسلام کی دعوت دی وہ سننے کے قابل ہے، مسند احمد میں ہے:
قالت: یا ابا طلحة، الست تعلم ان الھک الذی تعبد نبت من الارض؟ قال بلی، قالت: افلاتستحیی تعبد شجرة؟ (اصابہ ج 8 ص 243، بحوالہ مسند)
”ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا ابو طلحہ! تم جانتے ہو کہ تمہارا معبود زمین سے اگا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا بولیں تو پھر تم کو درخت کی پوجا کرتے شرم نہیں آتی؟
حضرت ابو طلحہ پر اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ فوراً مسلمان ہو گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت کرتی تھیں۔ آپ اکثر ان کے مکان پر تشریف لے جاتے اور دوپہر کو آرام فرماتے تھے۔ جب بستر سے اٹھتے تو وہ آپ کے پسینے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کو ایک شیشی میں جمع کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری ج 2 ص 929)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشک سے منھ لگا کر پانی پیا تو وہ اٹھیں اور مشک کا منھ کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہن مبارک مس ہوا ہے۔ (مسند ج 6 ص 376)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے خاص محبت تھی۔ صحیح مسلم میں ہے۔(صحیح مسلم ج 2 ص 341)
”کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یدخل علی احد من النساء الا علی ازواجہ الا ام سلیم، فانہ یدخل علیہا، فقیل فی ذالک، فقال انی ارحمہما قتل اخوہا معی“․
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے علاوہ اور کسی عورت کے یہاں نہیں جاتے تھے، لیکن ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا مستثنیٰ تھیں، لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا مجھے ان پر رحم آتا ہے، ان کے بھائی (حرام رضی اللہ تعالی عنہا) نے میرے ساتھ رہ کر شہادت پائی ہے“۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اکثر اوقات حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔
حضرت ام سلیم نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں۔ ابو عمیر ان کا بہت لاڈلا اور پیارا بیٹا تھا، لیکن جب اس نے انتقال کیا تو نہایت صبر سے کام لیا اور گھر والوں کو منع کیا کہ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس واقعہ کی خبر نہ دیں، رات کو ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو ان کو کھانا کھلایا اور اطمینان سے بستر پر لیٹے، کچھ رات گزرنے پر ام سلیم نے واقعہ کا تذکرہ کیا، لیکن عجیب انداز سے بولیں اگر تم کو کوئی شخص عاریةً ایک چیز دے اور پھر اس کو واپس لینا چاہے تو کیا تم اس کے دینے سے انکار کرو گے؟ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کبھی نہیں، کہا تو اب تم کو اپنے بیٹے کی طرف سے صبر کرنا چاہیے۔ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر غصے ہوئے کہ پہلے کیوں نہ بتایا؟! صبح اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا خدا نے اس رات تم دونوں کو بڑی برکت دی۔ (صحیح مسلم ج 2 ص 342)
اسی طرح ایک مرتبہ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں۔ کچھ بھیج دو۔ حضرت ام سلیم نے چند روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر حضرت انس کو دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں۔ آپ مسجد میں تھے اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت انس کو دیکھ کر فرمایا، ابو طلحہ نے تم کو بھیجا ہے؟ بولے جی ہاں، فرمایا کھانے کے لیے؟کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ کو لے کر ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر تشریف لائے، ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ کر گھبرا گئے اور حضرت ام سلیم سے کہا اب کیا کیا جائے؟ کھانا نہایت قلیل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجمع کے ساتھ تشریف لائے ہیں، حضرت ام سلیم نے نہایت استقلال سے جواب دیا: ان باتوں کو خدا اور رسول زیادہ جانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو حضرت ام سلیم نے وہی روٹیاں اور سالن سامنے رکھ دیا، خدا کی شان! اس میں بڑی برکت ہوئی اور سب لوگ کھا کر سیر ہو گئے۔ (صحیح بخاری ج 2 ص 810)
حضرت ام سلیم کے فضائل ومناقب بہت ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں جنت میں گیا تو مجھ کو آہٹ معلوم ہوئی، میں نے کہا: کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ غمیصاء بنت ملحان ہیں۔(صحیح بخاری ج 2 ص 342)